پاکستان کے سابق وزیراعظم نواز شریف نے کہا ہے کہ ملک میں ریاست سے بالاتر ایک ریاست قائم کی جا چکی ہے۔ ‘ایک سازش کرکے بلوچستان کی صوبائی حکومت گرائی گئی جس کا اصل مقصد سینیٹ کے انتخابات میں سامنے آیا اور اس میں لیفٹینٹ جنرل عاصم سلیم باجوہ مرکزی کردار تھا۔’
پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں حزب اختلاف کی جماعتوں کی آل پارٹیز کانفرنس جاری ہے جس میں تحریک انصاف کی حکومت کے خلاف آئندہ کی حکمت عملی کا اعلان کیا جائے گا۔
کانفرنس کے میزبان بلاول بھٹو زرداری نے اپنے خطاب میں کہا کہ جب جمہوریت نہیں ہوتی تو معاشرے کو ہر طرف سے کمزور کیا جاتا ہے اور ہماری کوشش تھی کہ بجٹ سے پہلے اے پی سی کروائیں۔
انہوں نے کہا کہ دو سال میں ہمارے معاشرے اور معیشت کو بہت نقصان پہنچا اور جرائم میں اضافہ ہوا۔ اب ہم عوام کے پاس جائیں گے اور سیلیکٹرز کے خلاف قوم کو آگاہ کریں گے۔
بلاول بھٹو زرداری نے اس امر پر تشویش کا اظہار کیا کہ جب ملک میں لوگوں کو احتجاج کرنے، میڈیا پر اپنا بیانیہ پیش کرنے اور متنخب نمائندوں کو اسمبلی میں کچھ بولنے کی اجازت نہ ہو تو وہ معاشرہ کیسے ترقی کرسکتا ہے۔
پیپلز پارٹی کے چیئرمین نے کہا کہ ‘یہ جو قوتیں اور اسٹیبشلمنٹ ہیں جنہوں نے عوام سے جمہوریت چھینی ہے، کٹھ پتلی نظام مسلط کیا ہے انہیں سمجھنا پڑے گا’۔
انہوں نے کہا کہ ‘ہمیں ان قوتوں کے سامنے مطالبہ پیش کرنا پڑے گا کہ ہمیں، اس ملک کو اور اس ملک کے عوام کو آزادی دیں’۔
اپوزیشن کی سب سے بڑی جماعت مسلم لیگ ن کے قائد نواز شریف جو لندن سے اس اجلاس میں ویڈیو لنک کے ذریعے شریک ہیں نے اپنے خطاب میں کہا کہ ‘اولین ترجیح سلیکٹڈ حکومت اور نظام سے نجات حاصل کرنا ہے، عمران خان ہمارا ہدف نہیں، ہماری جدوجہد عمران خان کو لانے والوں کے خلاف ہے، عمران خان کو لانے والوں نے ووٹ چوری کرکے مُلک برباد کر دیا۔ ان لوگوں نے جج صاحبان کو بھی نشانہ بنا لیا۔’
سابق وزیراعظم نے کہا کہ سیاسی رہنما جھوٹے مقدمات میں اپنی ماؤں، بہنوں اور بیٹیوں کے ساتھ پیشیاں بھگت رہے ہیں جبکہ کسی ڈکٹیٹر کو ایک دن تو کیا ایک گھنٹے کے لیے بھی جیل نہ بھیجا جا سکا۔
انہوں نے کہا کہ ‘یہاں یا تو مارشل لا ہوتا ہے یا پھر منتخب حکومت کے متوازی حکومت چلائی جاتی ہے۔’
نواز شریف نے کہا کہ پاکستان میں اب ریاست کے اندر ریاست نہیں بلکہ ریاست سے اوپر ریاست قائم ہے۔
انہوں نے سوال اٹھایا کہ الیکشن کے بعد گھنٹوں آر ٹی ایس کیوں بند رکھا گیا۔ پولنگ ایجنٹس کو کیوں باہر رکھا گیا؟ دھاندلی کیوں، کس کے لیے اور کس کے کہنے پر کی گئی۔ جو لوگ بھی دھاندلی کے ذمہ دار ہیں ان سب کو جواب دینا ہوگا۔
‘اس نااہل حکومت نے دو سال میں پاکستان کو کہاں سے کہاں پہنچا دیا ہے۔ ملک کی معیشت بالکل تباہ ہو چکی ہے، پانچ اعشاریہ آٹھ کی شرح سے ترقی کرتا ہوا ملک اب صفر سے بھی نیچے ہے، روپیہ اب افغانستان کی کرنسی سے بھی گر چکا ہے۔ غربت اور مہنگائی بلند ترین سطح پر ہے۔ ایک کروڑ بیس لاکھ لوگوں کا روزگار چھین چکے ہیں۔ ہر معاملے پر یوٹرن، سی پیک سخت کنفیوژن کا شکار ہے۔’
انہوں نے کہا کہ نااہل حکمرانوں کو ملک مسلط کرنا اور الکیشن ہائی جیک کرنا سنگین جرم ہے اور وہی اس کے ذمہ دار ہیں۔ سٹیٹ سے اوپر سٹیٹ تک پہنچ چکا ہے۔ متوازی حکومت ہی ہمارے یعنی عوام کے مسائل کی اصل جڑ ہے۔
سابق وزیراعظم نے ملک میں میڈیا پر پابندیوں کی بھی مذمت کی اور کہا کہ ذرائع ابلاغ کی زباں بندی کہاں کا انصاف ہے؟
نواز شریف نے کہا کہ ‘سول حکومت کو پتہ ہی نہیں ہوتا اور ملک کے اندر میں ایسی کارروائیاں کی جاتی ہیں، جن کا خمیازہ ریاست کو بھگتنا پڑتا ہے۔ چار اکتوبر 2016 کو نیشنل سکیورٹی کے اجلاس میں دنیا بھر کے ممالک کو ہم سے شکایت ہے اور ہمیں خود ایسے اقدامات کرنے چاہئیں، مگر اس کو ڈان لیکس بنا دیا گیا۔ ایجنسیوں کے اہلکاروں پر مشتمل جے آئی ٹی بنی، ثبوت کسی کے پاس کچھ نہ تھا مگر ہمیں اور مجھے بھی غدار قرار دیا گیا۔’
انہوں نے کہا کہ وزیراعظم کے احکامات کو ایک ماتحت سرکاری ادارے کے ایک اہلکار کی جانب سے ٹویٹ کے ذریعے ریجیکٹڈ یعنی مسترد قرار دیا گیا۔
نواز شریف نے کہا کہ سی پیک کا حال پشاور کی بی آر ٹی والا ہو گیا ہے۔
خیال رہے کہ سابق وزیراعظم نواز شریف دو مقدمات میں سزا کے بعد ضمانت پر علاج کے لیے لندن میں مقیم ہیں اور پاکستان کی حکومت نے کہا ہے کہ ان کو واپس لایا جائے گا۔
اسلام آباد کے نجی ہوٹل میں آل پارٹیز کانفرنس کی میزبانی پیپلز پارٹی کر رہی ہے جس میں بلاول بھٹو صدارت کر رہے ہیں جبکہ سابق صدر آصف علی زرداری ویڈیو لنک کے ذریعے شریک ہیں۔
جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان، عوامی نیشنل پارٹی کے رہنما حیدر علی ہوتی، پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود خان اچکزئی، نیشنل پارٹی کے صدر عبدالمالک بلوچ، بی این پی مینگل گروپ کا وفد، آفتاب احمد خان شیرپاؤ، شاہ اویس نورانی اور دیگر شریک ہیں۔
جماعت اسلامی نے اپوزیشن کی کل جماعتی کانفرنس میں شرکت نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
دوسری جانب حکومت کے ترجمانوں نے اپنے بیانات کے ذریعے اے پی سی پر توجہ مرکوز کی ہوئی ہے۔
وزیر اطلاعات شبلی فراز نے سنیچر کی شام کہا تھا کہ ‘نواز شریف مفرور مجرم ہیں اور ان کا خطاب ٹی وی پر نشر نہیں کیا جا سکتا۔