پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں حزب اختلاف کی جماعتوں کی آل پارٹیز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان کے سابق وزیراعظم نواز شریف نے کہا ہے کہ ملک میں ریاست سے بالاتر ایک ریاست قائم کی جا چکی ہے۔
‘ایک سازش کرکے بلوچستان کی صوبائی حکومت گرائی گئی جس کا اصل مقصد سینیٹ کے انتخابات میں سامنے آیا اور اس میں لیفٹینٹ جنرل عاصم سلیم باجوہ مرکزی کردار تھا۔’
انہوں نے کہا کہ ‘اولین ترجیح سلیکٹڈ حکومت اور نظام سے نجات حاصل کرنا ہے، عمران خان ہمارا ہدف نہیں، ہماری جدوجہد عمران خان کو لانے والوں کے خلاف ہے، عمران خان کو لانے والوں نے ووٹ چوری کرکے مُلک برباد کر دیا۔ ان لوگوں نے جج صاحبان کو بھی نشانہ بنا لیا۔’
سابق وزیراعظم نے کہا کہ سیاسی رہنما جھوٹے مقدمات میں اپنی ماؤں، بہنوں اور بیٹیوں کے ساتھ پیشیاں بھگت رہے ہیں جبکہ کسی ڈکٹیٹر کو ایک دن تو کیا ایک گھنٹے کے لیے بھی جیل نہ بھیجا جا سکا۔
انہوں نے کہا کہ ‘یہاں یا تو مارشل لا ہوتا ہے یا پھر منتخب حکومت کے متوازی حکومت چلائی جاتی ہے۔’
نواز شریف نے کہا کہ پاکستان میں اب ریاست کے اندر ریاست نہیں بلکہ ریاست سے اوپر ریاست قائم ہے۔
انہوں نے سوال اٹھایا کہ الیکشن کے بعد گھنٹوں آر ٹی ایس کیوں بند رکھا گیا۔ پولنگ ایجنٹس کو کیوں باہر رکھا گیا؟ دھاندلی کیوں، کس کے لیے اور کس کے کہنے پر کی گئی۔ جو لوگ بھی دھاندلی کے ذمہ دار ہیں ان سب کو جواب دینا ہوگا۔
‘اس نااہل حکومت نے دو سال میں پاکستان کو کہاں سے کہاں پہنچا دیا ہے۔ ملک کی معیشت بالکل تباہ ہو چکی ہے، پانچ اعشاریہ آٹھ کی شرح سے ترقی کرتا ہوا ملک اب صفر سے بھی نیچے ہے، روپیہ اب افغانستان کی کرنسی سے بھی گر چکا ہے۔ غربت اور مہنگائی بلند ترین سطح پر ہے۔ ایک کروڑ بیس لاکھ لوگوں کا روزگار چھین چکے ہیں۔ ہر معاملے پر یوٹرن، سی پیک سخت کنفیوژن کا شکار ہے۔’
انہوں نے کہا کہ نااہل حکمرانوں کو ملک مسلط کرنا اور الکیشن ہائی جیک کرنا سنگین جرم ہے اور وہی اس کے ذمہ دار ہیں۔ سٹیٹ سے اوپر سٹیٹ تک پہنچ چکا ہے۔ متوازی حکومت ہی ہمارے یعنی عوام کے مسائل کی اصل جڑ ہے۔
سابق وزیراعظم نے ملک میں میڈیا پر پابندیوں کی بھی مذمت کی اور کہا کہ ذرائع ابلاغ کی زباں بندی کہاں کا انصاف ہے؟
نواز شریف نے کہا کہ ‘سول حکومت کو پتہ ہی نہیں ہوتا اور ملک کے اندر میں ایسی کارروائیاں کی جاتی ہیں جن کا خمیازہ ریاست کو بھگتنا پڑتا ہے۔ چار اکتوبر 2016 کو نیشنل سکیورٹی کے اجلاس میں دنیا بھر کے ممالک کو ہم سے شکایت ہے اور ہمیں خود ایسے اقدامات کرنے چاہئیں، مگر اس کو ڈان لیکس بنا دیا گیا۔ ایجنسیوں کے اہلکاروں پر مشتمل جے آئی ٹی بنی، ثبوت کسی کے پاس کچھ نہ تھا مگر ہمیں اور مجھے بھی غدار قرار دیا گیا۔’
انہوں نے کہا کہ وزیراعظم کے احکامات کو ایک ماتحت سرکاری ادارے کے ایک اہلکار کی جانب سے ٹویٹ کے ذریعے ریجیکٹڈ یعنی مسترد قرار دیا گیا۔
نواز شریف نے کہا کہ سی پیک کا حال پشاور کی بی آر ٹی والا ہو گیا ہے۔
کانفرنس کے میزبان بلاول بھٹو زرداری نے اپنے خطاب میں کہا کہ جب جمہوریت نہیں ہوتی تو معاشرے کو ہر طرف سے کمزور کیا جاتا ہے اور ہماری کوشش تھی کہ بجٹ سے پہلے اے پی سی کروائیں۔
انہوں نے کہا کہ دو سال میں ہمارے معاشرے اور معیشت کو بہت نقصان پہنچا اور جرائم میں اضافہ ہوا۔ اب ہم عوام کے پاس جائیں گے اور سیلیکٹرز کے خلاف قوم کو آگاہ کریں گے۔
بلاول بھٹو زرداری نے اس امر پر تشویش کا اظہار کیا کہ جب ملک میں لوگوں کو احتجاج کرنے، میڈیا پر اپنا بیانیہ پیش کرنے اور متنخب نمائندوں کو اسمبلی میں کچھ بولنے کی اجازت نہ ہو تو وہ معاشرہ کیسے ترقی کرسکتا ہے۔
پیپلز پارٹی کے چیئرمین نے کہا کہ ‘یہ جو قوتیں اور اسٹیبشلمنٹ ہیں جنہوں نے عوام سے جمہوریت چھینی ہے، کٹھ پتلی نظام مسلط کیا ہے انہیں سمجھنا پڑے گا’۔
انہوں نے کہا کہ ‘ہمیں ان قوتوں کے سامنے مطالبہ پیش کرنا پڑے گا کہ ہمیں، اس ملک کو اور اس ملک کے عوام کو آزادی دیں’۔
جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان، عوامی نیشنل پارٹی کے رہنما حیدر علی ہوتی، پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود خان اچکزئی، نیشنل پارٹی کے صدر عبدالمالک بلوچ، بی این پی مینگل گروپ کا وفد، آفتاب احمد خان شیرپاؤ، شاہ اویس نورانی اور دیگر شریک تھے۔
جماعت اسلامی نے اپوزیشن کی کل جماعتی کانفرنس میں شرکت نہ کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔
[pullquote]اے پی سی، نواز شریف کی تقریر ٹاپ ٹرینڈ [/pullquote]
سابق وزیراعظم نواز شریف نے آل پارٹی کانفرنس سے خطاب کیا اور ان کا خطاب اس وقت پاکستانی سوشل میڈیا پر ٹاپ ٹرینڈ ہے۔
اپنے اس مفصل خطاب میں سابق وزیر اعظم نواز شریف نے ملکی فوج پر الزام عائد کیا کہ وہ سیاست میں مداخلت کر کے جمہوری حکومتوں کا خاتمہ کرتی ہے۔ نواز شریف نے کہا ہے کہ پاکستان کی خارجہ پالیسی بنانے کا اختیار فقط منتخب نمائندوں کو ہونا چاہیے۔ انہوں نے سن 2016 کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ ان کی وزارت عظمیٰ کے دور میں جب فوجی قیادت کو بتایا گیا کہ متعدد سرگرمیوں کی وجہ سے عالمی برادری کے ساتھ ساتھ دوست ممالک بھی پاکستان سے دور ہوتے جا رہے ہیں، تو فوج نے اسے ڈان لیکس کا نام دے دیا۔
نواز شریف نے ماضی میں بلوچستان حکومت کے خاتمے میں فوج کی بہ راہ راست مداخلت کا الزام بھی عائد کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ بلوچستان حکومت کا خاتمہ کر کے سینیٹ کے انتخابات پر اثرانداز ہونے کی راہ اپنائی گئی اور اس معاملے کا ایک کردار تب فوج کی سدرن کمان کے کمانڈر لیفٹینٹ جنرل عاصم سلیم باجوہ تھے۔ واضح رہے کہ عاصم سلیم باجوہ اس وقت وزیراعظم عمران خان کے خصوصی معاون برائے اطلاعات و نشریات اور پاکستان چین اقتصادری راہ داری اتھارٹی کے سربراہ بھی ہیں۔
نواز شریف نے کہا کہ پچھلے چند برسوں میں عاصم سلیم باجوہ کے خاندان کی دولت اور اثاثوں میں اربوں روپے کے اضافے پر نہ میڈیا پر بات کی جا سکی اور نہ نیب نے کوئی نوٹس لیا۔
انہوں نے کہا کہ اس وقت ملکی حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے آل پارٹیز کانفرنس کو روایت سے ہٹ کا ایک مربوط اور ٹھوس لائحہ عمل وضع کرنا ہو گا۔ نواز شریف نے کہا ہے کہ ملکی ترقی کے لیے انتہائی ضروری ہے کہ عوامی مینڈیٹ نہ چرایا جائے اور ہر حال میں عوامی رائے کا احترام کیا جائے۔ اس خطاب کے دوران متعدد مواقع پر کچھ ٹی وی چینلز پر ان کے خطاب کے کچھ حصے سینسر بھی کیے گئے
نواز شریف کے اس خطاب پر پاکستانی سوشل میڈیا پر مختلف آراء ہیں۔ ایک طرف تو حکمران پاکستان تحریک انصاف کے حامیوں کا کہنا ہے کہ نواز شریف ایک مرتبہ پھر کرپشن کے الزامات سے بچنے کے لیے اپنی حکومت غیرقانونی طریقے سے گرائے جانے اور انتخابات میں دھاندلی کے الزامات عائد کر رہے ہیں۔
وزیر اعظم عمران خان کے خصوصی مشیر شہباز گل نے اپنے ایک ٹوئٹر پیغام میں نوازشریف کے خطاب کو ٹی وی پر نشر کرنے کی بھی مخالفت کی۔
واضح رہے کہ گزشتہ روز نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز شریف نے ایک ٹوئٹ میں بتایا تھا کہ ان کے والد اور سابق وزیر اعظم نواز شریف ٹوئٹر اکاؤنٹ بنا رہے ہیں۔ نواز شریف کے ٹوئٹر ہینڈل سے کل پہلے ٹوئٹ میں لکھا گیا تھا، ”ووٹ کو عزت دو‘‘۔ اس ٹوئٹ کے بعد اس ہینڈل سے نواز شریف کی جانب سے کوئی اور ٹوئٹ تو نہیں کیا گیا، تاہم کل سے اب تک یہی ایک ٹوئٹ بزاروں مرتبہ ری ٹوئٹ کیا جا چکا ہے۔
معروف صحافی سلیم صافی اپنے ایک ٹوئٹ میں لکھتے ہیں، ” زرداری اور نوازشریف کی انقلابی تقریروں کے بعد اخلاقیات کا تقاضا ہے کہ پیپلز پارٹی سندھ اسمبلی توڑنے، باقی اسمبلیوں سے مستعفی ہونے جبکہ میاں نواز شریف پہلی میسر فلائٹ سے پاکستان واپسی کا اعلان کریں۔ نہیں تو ان کی تقریروں کو ڈرامہ بازی سے تعبیر کیا جائے گا۔‘‘
معروف سماجی کارکن عمار علی جان اپنے ٹوئٹ میں لکھتے ہیں کہ یہ نہایت خوشی کی بات ہے کہ اپوزیشن اس دھاندلی زدہ اور استحصالی ہایبرڈ حکومت سے متعلق واضح موقف رکھتی ہے۔ امید ہے کہ اس کانفرنس میں طلبہ اور مزدور یونینز کی بحالی کی بھی حمایت کی جائے گی۔ معاشرے میں جمہوریت کا فروغ غیرجمہوری قوتوں کے خلاف لڑائی کے لیے نہایت اہم ہے۔‘‘
کچھ چینلز پر کئی جگہ نواز شریف کا خطاب سینسر بھی کیا گیا اور تقریر میوٹ کی گئی لیکن اس دوران بھی نواز شریف کو بولتے ہوئے دیکھا جاسکتا تھا۔
[pullquote]کیا نواز شریف کی تقریر نشر کرنا غیر قانونی؟[/pullquote]
وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے احتساب شہزاد اکبر کے مطابق پاکستان میں میڈیا کے نگران ادارے پیمرا کے ضابطہ کار کے تحت ’مفرور مجرم میڈیا سے خطاب نہیں کر سکتا۔‘
انھوں نے اس حوالے سے پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) کو بھی ہدایت جاری کی ہے کہ اسے ’سوشل میڈیا پر سزا یافتہ مجرم کا خطاب روکنا چاہیے۔‘
پاکستان میں الیکٹرانک میڈیا کوڈ آف کنڈکٹ 2015 کی کسی بھی شق میں ایسے شخص جس کا مقدمہ کسی عدالت میں زیر سماعت ہو یا جس کو عدالت نے سزا دے دی ہو، سے متعلق خبر نشر کرنے، ان پر کسی پروگرام میں بحث کرنے کی ممانعت نہیں ہے یا کم از کم اس کا ذکر نہیں کیا گیا۔
پیمرا آرٹیکل تین (ایک) کی شق 10 کے تحت عدلیہ یا مسلح افواج کے خلاف جھوٹی خبر یا ایسا مواد نشر کرنے سے منع کیا گیا ہے جبکہ آرٹیکل چار کی شق 4 کے تحت عدالت میں زیر سماعت معاملات پر معلوماتی بنیادوں پر تو خبر یا پروگرام چلائے جا سکتے ہیں تاہم اس بات کا خیال رکھا جائے کہ یہ کسی بھی طرح مقدمے کی سماعت یا عدالتی کارروائی پر اثر انداز نہ ہوں۔
ان دونوں شقوں میں کسی مجرم یا ملزم کا موقف دکھانے سے نہیں روکا گیا ہے تو کیا حکومت کا ایسا کوئی اقدام پاکستانی آئین کے آرٹیکل 19 یعنی آزادی اظہار کے بنیادی حق کی خلاف ورزی کے زمرے میں آتا ہے یا نہیں۔
پیمرا آرڈیننس 2002 کی شق 5 کے تحت وفاقی حکومت کو پیمرا کو صرف پالیسی معاملات پر ہدایت جاری کر سکتی ہے۔ اس شق کے مطابق ‘وفاقی حکومت، جب اور جس طرح ضروری سمجھے، پالیسی معاملات پر پیمرا کو ہدایات جاری کر سکے گی، پیمرا ان ہدایات پر عمل درآمد کا پابند ہو گا۔ اگر یہ سوال پیدا ہو کہ آیا کوئی معاملہ پالیسی کا معاملہ ہے یا نہیں تو اس معاملے میں وفاقی حکومت کا فیصلہ قطعی ہو گا۔’
[pullquote]نواز شریف کی تقریر نشر کرنے والوں کے خلاف کیا کارروائی ہوسکتی ہے؟[/pullquote]
ماضی میں متعدد مواقع ایسے ہیں کہ جب پیمرا نے کسی سیاسی رہنما کی تقریر نشر کرنے پر چینل کے خلاف کارروائی کی ہو۔
جولائی 2019 میں پیمرا نے تین نجی ٹی وی چینلز، 24 نیوز، اب تک نیوز اور کیپیٹل ٹی وی کی نشریات بند کر دی تھیں۔ چینلز کی اس بندش کے بارے میں کوئی واضح صورتحال سامنے نہ آنے کی وجہ سے ان قیاس آرائیوں نے جنم لیا تھا کہ نشریات مبینہ طور پر پاکستان مسلم لیگ ن کی نائب صدر مریم نواز کے جلسے کی کوریج پر بند کی گئیں۔
پیمرا نے مریم نواز کی پریس کانفرنس دکھانے پر اب تک ٹی وی سمیت 21 ٹی وی چینلز کو نوٹسز بھی جاری کیے تھے۔ اس نوٹس میں پیمرا نے موقف اختیار کیا تھا کہ مریم نواز کی عدلیہ اور ریاستی اداروں کے خلاف تقریر کے حصے دکھا کر ان چینلز نے ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کی ہے۔
یاد رہے کہ سیاسی جماعت متحدہ قومی موومنٹ کے قائد الطاف حسین کی تقاریر نشر کرنے پر لاہور کی ہائی کورٹ نے پابندی لگائی تھی دی ہے۔ 2014 میں الطاف حسین کی جانب سے ٹیلیفونک خطاب میں رینجرز پر تنقید کی گئی تھی جس کے بعد ملک کے مختلف شہروں میں اُن کے خلاف 100 سے زیادہ مقدمات درج ہوئے تھے۔
[pullquote]اے پی سی: فضل الرحمان کا تقریر لائیو نشر نہ کرنے پر پیپلزپارٹی سے احتجاج[/pullquote]
اپوزیشن کی آل پارٹیز کانفرنس (اے پی سی) میں جمعیت علمائے اسلام ( جے یو آئی) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کی تقریر لائیو نشر نہ ہوسکی۔
اے پی سی کے دوران مولانا فضل الرحمان نے تقریر لائیو نشر نہ کرنے پر میزبان پیپلزپارٹی سے احتجاج کیا۔
مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھا کہ حکومت تو ہماری آواز پبلک میں جانے سے روکتی ہے لیکن اے پی سی نے بھی ہماری تقریر ائیر ہونے سے روکی، یہ نامناسب بات ہے، اس پر ہم پیپلز پارٹی اور منتظمین سے احتجاج ریکارڈ کرانا چاہتے ہیں۔
اس پر پی پی چیئرمین نے کہا کہ ایم ایم اے میں آپ کی دوسری جماعت کی درخواست پر یہ ان کیمرا ہے، اس کے بعد پریس کانفرنس ہوگی۔
بلاول کے مؤقف پر مولانا فضل الرحمان نے جواب دیا کہ یہ ان کیمرا تو نہیں تھا۔
اس دوران شیری رحمان نے کہا کہ ہمیں کہا گیا تھا آپ لوگوں نے درخواست کی ہے۔ اس پر سربراہ جے یو آئی نے کہا کہ ہم نے کوئی درخواست نہیں کی۔
بعدازاں پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود خان اچکزئی نے معاملہ رفع دفع کروایا۔
اس سے قبل مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز نے بھی ٹوئٹ میں کہا تھا کہ مولانا فضل الرحمان کی تقریر کیوں نہیں دکھائی گئی ؟ افسوس ہوا۔
خیال رہے کہ پیپلز پارٹی کی میزبانی میں اپوزیشن کی کُل جماعتی کانفرنس میں 11 سیاسی جماعتیں شریک ہیں۔
اے پی سی میں مسلم لیگ (ن) کے شہباز شریف، مریم نواز جب کہ جمعیت علمائے اسلام کے مولانا فضل الرحمان، عوامی نیشنل پارٹی، بی این پی مینگل، بی این پی عوامی اوردیگر جماعتوں کی اعلیٰ قیادت موجود ہے۔