وزیراعظم عمران خان کے مشیر برائے احتساب شہزاد اکبر نے سابق وزیراعظم نواز شریف کے حوالے سے کہا ہے کہ برطانیہ کے لیے بھی ایک مجرم کو طویل عرصے تک رکھنا مشکل ہو جائے گا۔
ایس ای سی پی کے لاپتہ افسر ساجد گوندل کی بازیابی سے متعلق کیس کی اسلام آباد ہائیکورٹ میں سماعت ہوئی۔
مشیر برائے داخلہ و احتساب شہزاد اکبر، سیکرٹری داخلہ، آئی جی اسلام آباد اور ڈپٹی کمشنر حمزہ شفقات عدالت میں پیش ہوئے۔
بیرسٹر جہانگیر جدون نے عدالت کو بتایا کہ ساجد گوندل واپس آگیا ہے اور مجسٹریٹ کے سامنے بیان بھی ریکارڈ کرا دیا ہے، لیکن ابھی تک یہ پتہ نہیں چلایا جا سکا کہ اغوا کرنے والے کون لوگ تھے۔
چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے ریمارکس دیے کہ یہ تفتیش کا معاملہ ہے، قانون اپنا راستہ خود بنائے گا۔
جسٹس اطہر من اللہ نے مشیر داخلہ شہزاد اکبر سے استفسار کیا کہ آپ کو معلوم ہے کہ آپ کو کیوں بلایا ہے؟ آپ نے آئی جی پولیس کی رپورٹ دیکھی ہو گی جو بہت خوفناک ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ آپ ان 5 مشیروں میں شامل ہیں جنہیں وزیراعظم نے اپنا مشیر رکھا، آپ وزیراعظم کے اعتماد والے افراد میں شامل ہیں۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے کہا کہ 1400 اسکوائر میل پر مشتمل وفاقی دارالحکومت کو ماڈل سٹی ہونا چاہیے، آپ کچہری جا کر دیکھیں کہ عدالتیں کیسے کام کر رہی ہیں، کسی نے اس طرف توجہ نہیں دی، یہاں اسلام آباد میں پراسیکیوشن برانچ ہی قائم نہیں، عدالت نے فیصلہ دیا مگر عمل نہیں ہوا۔
ان کا کہنا تھا کہ عدالت کا فیصلوں کے لیے انحصار پولیس تفتیش پر ہوتا ہے، لیکن پولیس تفتیش کا معیار انتہائی ناقص ہے، تفتیشی افسران کی تربیت ہی نہیں ہے، آج عدالت کے سامنے ایک کیس آیا کہ پولیس چیک ڈس آنر کا مقدمہ درج نہیں کر رہی تھی۔
جسٹس اطہر من اللہ نے شہزاد اکبر سے کہا آپ سے درخواست ہے کہ 2 ہفتوں کا وقت لیں اور ایک رپورٹ بنا کر وزیراعظم سے شیئر کریں کہ کیا ہو رہا ہے، کابینہ میں وزیراعظم کو بتائیں کہ عام شہریوں کے حقوق کی خلاف ورزی ہو رہی ہے۔
شہزاد اکبر نے عدالت کو بتایا کہ ہم مسنگ پرسنز کا معاملہ کابینہ کے نوٹس میں لائے ہیں جس پر ایک سب کمیٹی بنائی گئی ہے، سفارشات کابینہ کو بھجوائی جائیں گی۔
انہوں نے کہا کہ اسلام آباد میں آزاد پراسیکیوشن برانچ ہونی چاہیے، جس پر عدالت نے ریمارکس دیے کہ انویسٹی گیشن افسر جس کا تفتیش کا کوئی تجربہ نہیں اس کو ایک تفتیش کے 350 روپے ملتے ہیں، یہ ہی کرپشن کا بڑا ذریعہ بنتا ہے، وہ باقی کے پیسے کہاں سے لیتا ہو گا؟
اسلام آباد ہائیکورٹ نے کہا کہ یہاں مفادات کا بھی ٹکراؤ ہے، وزارت داخلہ اور ایف آئی اے سمیت دیگر ادارے رئیل اسٹیٹ کے کاروبار میں ہیں، تمام ریکارڈ کا جائزہ لے کر 3 ہفتوں میں تفصیلی رپورٹ جمع کرائیں۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے کہا کہ ملزمان کی بریت ناقص تفتیش کے باعث ہوتی ہے اور ذمہ داری عدالتوں پر آتی ہے، کچہری میں عدالتیں دکانوں میں قائم ہیں، آپ خود بھی وکالت کرتے اور پیش ہوتے رہے ہیں، آپ وزیراعظم کو اس بارے میں بھی آگاہ کریں، اللہ نہ کرے کہ کچہری والا واقعہ دوبارہ ہو، اگر ایسا کوئی واقعہ ہو تو کسی کو تو ذمہ داری لینی چاہیے؟
بیرسٹر جہانگیر جدون نے کہا کہ کمیٹی میں اسلام آباد بار کے ایک ممبر کو بھی آزاد ممبر کے طور پر شامل کرنے کا کہا جائے، جس پر چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے کہا کہ یہ ایگزیکٹو کا اختیار ہے، ہم مداخلت نہیں کریں گے، وزیراعظم کے مشیر داخلہ خود بار کے ممبر ہیں۔
فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کے حوالے سے بات کرتے ہوئے شہزاد اکبر نے بتایا کہ فیٹف کی کسی بھی قانون سازی میں کوئی شرط موجود نہیں ہے، اپوزیشن کے دوستوں میں تو شاہد خاقان عباسی کو میری شکل ہی پسند نہیں ہے، چیلنج سے کہتا ہوں کہ حالیہ پاس قوانین میں ایسا کچھ نہیں جس میں کسی کو اٹھائے جانے کی بات ہو۔
شہزاد اکبر کا کہنا تھا کہ منی لانڈرنگ کے پرانے قانون میں حراست میں لیے جانے کا اختیار موجود تھا، لیکن ہماری ترمیم میں حراست میں لیے جانے کی شق ختم کر دی گئی ہے، البتہ دوران تفتیش اگر اداروں کو ضرورت محسوس ہو تو وہ حراست میں لے سکتے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ بل کی ترامیم سے متعلق اپوزیشن کی تمام مثبت باتیں مانی گئی ہیں، جو اپوزیشن کے کیسز بند کرنے کا مطالبہ تھا وہ ہم نے تسلیم نہیں کیا۔
چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے ریمارکس دیے کہ ہر کوئی اشرافیہ کی خدمت میں لگا ہوا ہے، ایلیٹ کلچر اب ختم ہونا چاہیے۔
شہزاد اکبر نے کہا کہ نواز شریف نے تحریک کا اعلان کیا، لیکن بغیر لیڈر کے تحریک کیسی ہوتی ہے، نواز شریف خود شرم کریں اور واپس آ جائیں، نواز شریف کو صحت کی بنیاد پر ریلیف دیا گیا تھا۔
مشیر داخلہ کا کہنا تھا کہ کابینہ نے تحفظات کے باوجود کہا کہ انہیں جانے دیا جائے، عدالت نے کہا تھا کہ نواز شریف کو ذاتی بیان حلفی پر جانے دیا جائے، حکومت تو اس وقت بھی شیورٹی بانڈ سائن کرانا چاہتی تھی۔
ان کا کہنا ہے کہ نوازشریف کی واپسی کا معاملہ حسین نواز اور اسحاق ڈار سے مختلف ہے، حسین نواز اور اسحاق ڈار مجرم نہیں جبکہ نواز شریف مجرم ہیں، برطانوی قوانین کے لیے بھی لمبے عرصے تک ایک مجرم کو پناہ دینا مشکل ہو جائے گا۔