پمز میں میرے ساتھ کیا ہوا ؟

تقریباً اڑھائی برس پہلے کی بات ہے، میرے والد صاحب دل کے مریض تھے . اکثر کی طبیعت اچانک خراب ہو جاتی تھی، ایسے ہی ایک رات ان کی اچانک طبیعت خراب ہونے لگی، میں انہیں لے کر اسلام آباد کے پمز اسپتال چلی گئی، رات کے تقریباً بارہ بج رہے تھے، جیسے ہی گاڑی سے اترے، گارڈ کو اندازہ ہو گیا کہ میرے ساتھ صرف مریض ہیں اور مزید کوئی آدمی نہیں ہے تو وہ فوراً آگے آئے ، وہیل چئیر بھی آگے کی، ابو کو وہیل چئیر پر بیٹھایا اور ایمرجنسی وارڈ تک چھوڑ کر گئے.

ڈیوٹی پر ڈاکٹر موجود تھے ، رش بالکل نہیں تھا ، ڈاکٹر نے بہت اچھے طریقے سے بیماری کی تفصیل پوچھی اور پھر کارڈیک وارڈ میں جانے کا کہا ، وہاں ڈیوٹی پر موجود اسٹاف میں سے ہی ایک شخص بغیر کہے ابو کی وہیل چئیر لے کر ہمیں کارڈیک وارڈ تک لے کر گیا، اگرچہ وہاں رش تھا لیکن پھر بھی ڈاکٹر نے پراپر چیک اپ کیا، اسی وقت ای سی جی کی اور کچھ ٹیسٹ تجویز کیے۔ ڈاکٹرز اور اسٹاف کا رویہ بہت اچھا رہا۔

دن کے اوقات میں بےتحاشا رش، شور، سہولیات اور اسٹاف کی کمی، ایک مریض کے ساتھ تین چار لوگ، بیماری سے بچاو سے زیادہ بیماری کی وجوہات میں دلچسپی اور سب سے بڑھ کر کم تنخواہ میں لمبے ڈیوٹی آورز ڈاکٹرز کو ان کے پیشے سے وہ انصاف نہیں کرنے دیتے جو لوگ توقع کرتے ہیں۔

یہ غالباََ دو ہزار سولہ یا سترہ کی بات ہے، مجھے یاد ہے کہ پمز کے برن سینٹر میں ایک ٹیچر لائی گئی تھیں جن کا پچاسی فیصد جسم جل چکا تھا. وہ اس بری طرح جھلسی تھی کہ جگر، دل اور دماغ کام کرنا چھوڑ رہے تھے، کچھ دیر بعد خاتون وفات پا گئیں . لواحقین نے اہستال اور ڈاکٹرز کو موردالزام ٹہرایا کہ ان کی مجرمانہ غفلت کے باعث خاتون جان کی بازی ہار گئی تھی، پمز کے باہر احتجاج بھی کیا گیا تھا جس کی کوریج بھی ہوئی تھی، پمز کے برن سنٹر کا شمار پاکستان کے بہترین برن سینٹرز میں ہوتا ہے. یہاں جب بھی کسی مریض کو لایاجاتا ہے اسے فوری طور پر بہت اچھے سے دیکھا جاتا ہے اور طبی امداد دی جاتی ہے.

حالات ایسے ہیں کہ اسپتال، ڈاکٹرز اور عملہ کم ہے جبکہ مریض بہت زیادہ ہیں. خاص کر اسلام آباد میں تو آس پاس کے شہروں سے بھی مریض لائے جاتے ہیں، ایسے میں اتنے رش اور محدود وسائل میں ڈاکٹرز یا اسٹاف سے یہ توقع رکھنا کہ وہ ہر مریض کو سو فیصد مطمئن کر سکیں گے، ناممکن ہے۔

شہریوں کو بھی سمجھنے کی ضرورت ہے اسپتالوں میں رش نہ بنایا جائے . بیمار کے ساتھ صرف ایک تیمار دار جائے . مریض اور تیمار دار لباس صاف ستھرا پہن کر جائیں .ڈاکٹرز کے قیمتی وقت کا خیال کریں . میڈیکل فائل ساتھ لیکر جائیں . پرانی اور نئی بیماریوںکا احوال بتانے کے بجائے مختصراً اپنی بیماری کے بارے میں بتائیں، ڈاکٹرز کی ہدایات پر عمل کریں نا کہ ان کے ساتھ بحث شروع کر دیں۔

مسائل صرف ہم عوام کے ہی نہیں ہوتے بلکہ ڈاکٹرز کے بھی ہوتے ہیں جو مشکل حالات میں روزانہ سینکڑوں مریض دیکھتے ہیں اور مسلسل کئی کئی گھنٹے ڈیوٹی کرتے ہیں۔ کورانا کے دنوں میں ڈاکٹرز نے موت کے منہ میں رہ کر مریضوں کی خدمت کی اور کئی ڈاکٹر دنیا سے چلے گئے . ہمیں ایک دوسرے کے مسائل سمجھ کر ایک دوسرے کی مدد کر کے اچھے شہری ہونے کا ثبوت دینا چاہیے.

[pullquote]ڈاکٹرز پر بھروسہ کریں ، ان پر اعتماد کریں [/pullquote]

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے