آزادانہ فکر اور مکالمے کے زریعے ہی معاشرتی ترقی ممکن ہے ۔ پاک انسٹی ٹیوٹ فار پیس اسٹڈیز کے زیر اہتمام دو روزہ مکالمہ

اسلام آباد : پاک انسٹی ٹیوٹ فار پیس اسٹڈیز کے زیر اہتمام پاکستان کی مختلف جامعات کے پروفیسرز اور لیکچرر کے ساتھ دو روزہ نشست کا اہتمام کیا گیا ۔ نشست میں پاکستان کے معروف دانشور اور اسکالرز شریک ہوئے ۔ ورکشاپ سے خطاب کرتے ہوئے مقررین نے کہا کہ ہمیں اس وقت عالمی سطح پر مسلمان معاشروں کے داخلی انتشار کی وجہ دریافت کرنے کے لیے لٹریچر کا بہت گہرائی کے ساتھ مطالعہ کرنا ہوگا ۔ انہوں نے کہا کہ فکری مغالطوں کا خاتمہ فکری نشستوں سے ہی ممکن ہے ۔ آسٹریلیا کے ہائی کمشنر نے کہا کہ پاکستانی معاشرہ کئی خوبیوں سے عبارت ہے ۔ معاشرے کو بہتر بنانے میں استاذہ کا کردار انتہائی اہم ہے ۔
ہے ۔

نشست سے آسٹریلیا کے ہائی کمشنر ، بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی کے سابق ریکٹر اور ماہر اقبال تا پروفیسر فتح محمد ملک ، پاک انسٹی ٹیوٹ فار پیس اسٹڈیز کے ڈائریکٹر محمد عامر رانا ،شیخ زید اسلامک سنٹر پشاور یونیورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر رشید احمد ، پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف پارلیمینٹری اسٹڈیز کے سابق ڈائریکٹر ظفر اللہ خان ، ماہر تعلیم اے ایچ نئیر ، اسلامی نظریاتی کونسل کے رکن خورشید احمد ندیم ، رومانہ بشیر ، مجتبی راٹھور سمیت دیگر اہم شخصیات نے مکالمے میں حصہ لیا ۔

مکالمے میں کہا گیا کہ تربیتِ اساتذہ کے جامع تصور میں ایک استاد میں تین سطح پر تبدیلیاں درکار ہوتی ہیں۔ یہ علم، طریقۂ تدریس اور رویے کی سطحیں ہیں۔ اس کے بر عکس پاکستان کے تربیتِ اساتذہ کے پروگرامز کا جائزہ لیں تو پورا روز طریقۂ تدریس پر ہوتا ہے۔ روایتی قسم کے تعلیمِ اساتذہ کے ان پروگرامز میں اساتذہ میں اچھے استاد اور اچھی تدریس کی خوبیوں پر مشتمل فہرستیں اساتذہ میں اس مفروضے پر تقسیم کی جاتی ہیں کہ انہیں پڑھ کر وہ بھی اپنی تدریس کو بہتر بنا لیں گے۔ تعلیمِ اساتذہ کے اس ماڈل میں استاد knowledge producer کے بجائے، محض consumer of knowledge کے روپ میں سامنے آتا ہے۔ سماجی تبدیلی کے حوالے سے جتنے نظریات پر عمل در آمد کیا جا رہا ہے، وہ جن ممالک سے درآمد کیے گئے ہیں، ان کے کمرہ جماعت کا ماحول اور مسائل ہمارے اپنے تعلیمی مسائل سے یک سر مختلف ہیں۔

مقررین نے کہا کہ جدید تقاضوں سے ہم آہنگ معیاری تعلیم کا فروغ وقت کا اہم تقاضا ہے ۔ تعلیم ہی معاشرتی ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہونے کے وسائل مہیا کرتی ہے۔ اکیسویں صدی کے تقاضوں کو پوراکرنے کیلئے معلّم کاکردار انتہائی اہمیت کا حامل ہے ۔کلاس روم میں تنقیدی شعور ، سوال کی آزادی اور تجربات و مشاہدات کے نتیجے میں تخلیقی عمل کی آزادی کے مواقع فراہم کرنے سے ہی ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہو سکتا ہے ۔ مقررین نے کہا کہ عسکریت پسندی ، فرقہ واریت ، تشدد کی مخالفت کے ساتھ ساتھ ان بنیادوں کو جاننا بھی ضروری ہے جن کی بنیاد پر غیر ریاستی گروہ اپنا بیانیہ قائم کرتے ہیں ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے