غور و فکر کا نظام تباہ کیسے ہوتاہے؟

میں ہر کسی سے اچھا کرتا ہوں لیکن میرے ساتھ سب ظلم کرتے ہیں ۔ میں سچ بولتا ہوں لیکن باقی سب جھوٹ بولتے ہیں ۔

سب ظالم ہیں ، میں مظلوم ہوں ، سب کاذب ہیں ، میں صادق اور امین ہوں ۔

یہ رویہ کبھی کسی انسان کو خود احتسابی پر آمادہ نہیں ہونے دیتا ۔ دوسرے کا موقف سننا اور سمجھنا آرٹ آف لائف ہے جسے سیکھنے میں عمریں کھپ جاتی ہیں ۔

ہمارے مزاج میں ہر بات کرنے کا انداز معرکہ حق وباطل بن جاتا ہے ۔ ہم گفتگو نہیں کرتے ، مجادلہ اور مناظرہ کرتے ہیں ۔ ہم اپنے موقف پر ڈٹ جاتے ہیں ، کٹ جاتے ہیں لیکن موقف پر غور نہیں کرتے ۔

ہم اپنے مسائل حل کرنے سے زیادہ مسائل سے فرار میں دلچسبی لیتے ہیں ۔ ہم خوفزدہ ہیں کہ اگر کہیں ہمارے موقف میں غلطی نمایاں ہوگئی تو ہم رسوا ہو جائیں گے اس لیے ہم غلطی واضح ہونے سے پہلے ہی جنگ کا ماحول بنا دیتے ہیں ۔ اس طرح ہم جیت تو جاتے ہیں لیکن ہمارا غور و فکر کا سارا نظام تباہ ہو جاتا ہے ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے