جوش صاحب کے سلسلے میں سب سے دل چسپ بات غالباً یہ ہے کہ اقتداری علامتوں سے ،ان کی نفرت کا آغاز کسی نہ کسی واقعے سے ہواہے۔یہ بات اپنی جگہ کچھ نہ کچھ اہمیت رکھتی ہے کہ حقیقتاً جوش صاحب کی زندگی میں اس طرح کے واقعات رونما ہوئے یا نہیں،مگر اہم تر بات یہ ہے کہ جو ش صاحب نے مذکورہ نفرت کے آغاز کا بیان کس ڈھنگ سے کیاہے،کیوں کہ اسی کی مدد سے ہم جان سکتے ہیں کہ انھوں نے اپنے شخصی رجحانات کی جڑوں کی تلاش میں، کون سا طریقہ اختیارکیا ہے؟ یہ طریقہ ’بیانیہ ‘ہے۔ وہ ایک کہانی تیار کرتے ہیں،جس کے لیے وہ ایک کلاسیکی انداز کا افسانوی تخیل بروے کار لاتے ہیں۔اسے لکھنوی افسانوی؍داستانی اسلوب میں بیان کرتے ہیں۔ہم یہ کَہ سکتے ہیں کہ ان کی آپ بیتی میں ،اپنی جڑوں کا علم،نوعیت کے اعتبار سے، ’بیانیہ ‘ ہے؛ یعنی یہ تجزیاتی علم کے برعکس ،بیانیاتی علم ہے۔یہ اچنبھے کی بات نہیں کہ بیانیہ بھی ہمیں علم دے سکتا ہے۔
بیانیہ علم، تجزیاتی علم کے مقابلے میں کہیں زیادہ مربوط ومنظم ہوتا ہے۔نیز یہ باور کراتا ہے کہ کوئی شے زمان و مکاں کی اس دنیا سے باہر نہیں؛ہر شے کی علت اسی زمان و مکاں میں موجود ہے۔اس بنا پر’ بیانیاتی علم ‘یہ دعویٰ کرسکتا ہے کہ وہ انسانی پیمانے پر زیادہ مستند ہے ۔اس کے علاوہ ،بیانیہ علم،اس مفہوم میں عوامی ہوتا ہے کہ یہ اس زبان میں پیش ہوتا ہے ،جس سے عوام سب سے زیادہ مانوس ہوتے ہیں ۔کہانی سے جوش صاحب کی دل چسپی کا سبب خود آپ بیتی کی ہیئت بھی ہو سکتی ہے،جو اصلاًکہانی کی ہیئت ہے۔ بہر کیف، جوش صاحب نے بیانیہ اسلوب کی مدد سے اپنا ’نفسیاتی ثقافتی رشتہ‘ لکھنوی روایت سے جوڑاہے ،جسے وہ کعبہ ء تہذیب کہتے ہیں۔ مثلاً فرنگی سے نفرت کا آغاز لکھنئو کے نخاس والے مکان سے ہوا، جہاں وہ اپنی کھلائی کے ساتھ بیٹھے تھے۔ سڑک پر کوئی شخص گھوڑے کو پیٹ رہا تھا۔
بڑی بی جان عالم پیا کویادکرکے رونے لگیں۔ جوش کو بڑی بی نے بتایا کہ ’’ جب سے ان بندر فرنگیوں کا راج ہوا ہے، ان غازی مردوں کو چابکوں سے مارا جانے لگا ہے۔‘‘ بڑی بی کی باتیں سن کر جوش صاحب بلبلا گئے اور انھیں فرنگی سے نفرت ہوگئی۔ ’’اور وہی لڑکپن کی نفرت آگے چل کر میری سیاسی نظموں کے روپ میں شعلہ فشانی کر نے لگی‘‘۔گویا جوش کی فرنگی سے نفرت کا آغاز ،ترقی پسندتحریک کا حصہ بننے سے پہلے ہوچکا تھا،اوراس نفرت کو پیدا کرنے میںاودھ کی اس عمومی ثقافتی فضا کا ہاتھ تھا ،جس میں بادشاہان ِ اودھ سے عوام کی محبت موجود تھی ۔
خیر،آپ بیتی میں جہاں جہاں فرنگیوں کا ذکر ہوا ہے ،ان پر طنز و استہزا کے تیر برسانے میں جوش صاحب نے تامل نہیں کیا۔ فرنگی ،جوش کے لیے سیاسی استعمار ہیں، اور علی گڑھ اس استعمارکے حامیوں کی علامت ہے۔چناں چہ دونوں کے سلسلے میں جوش نے طنز وتنقید و استہزا سے کام لیا ہے۔ بلاشبہ علی گڑھ و سر سید پر جوش کی تنقید میں نیا کچھ نہیں؛اس کا لب لباب وہی ہے جسے اکبر اپنی طنزیہ شاعری میں پیش کرچکے تھے، مگر جوش کی ذہنی دنیا کو سمجھنے کے سلسلے میں بہ ہر حال اہم ہے۔
محمڈن اینگلو اورینٹل کالج : یہ مسلمانوں کو غیر اسلامی خطاب دینے والا، غلامانہ انگریزی نام ،اس کالج کے بانی ،ان سید احمد نے (جن کے کاسہ ء سر میں ’’سر‘‘ کے خطاب کا ہندوستان شکار عقاب اپنا آشیاں بنا چکا تھا)اپنی ذہنیت کے اس تیشہ زبوں سے تراشا تھا،جس سے حب وطن کے پہاڑ کاٹے جاتے تھے، اور ’’عشرت کدہ پرویز‘‘ کی جانب جوئے شیر لائی جاتی تھی۔،اور یہ خدا بخشے انھیں خویش و دشمن و بیگانہ دوست بزرگ کا موروثی اثر ہے جو آج تک ہمارا تعاقب کررہا ہے۔
اس کے بعد جوش صاحب نے ایک ایک کرکے، وہ نقصانات گنوائے ہیں جو علی گڑھ نے ہندوستان کو پہنچائے۔ مثلاً، یہ تحریک اس لیے اٹھائی گئی تھی کہ مسلمانوں کو ۱۸۵۷ء ی جنگ آزادی سے بے تعلق ثابت کیا جائے کہ ’مسلمانوں کا دل حبِ وطن جیسی ذلیل چیز سے قطعی آلودہ نہیں ہے‘؛مسلمانوں کو بس اتنی تعلیم دی جائے کہ وہ بابو یا ڈپٹی کلکٹر بن سکیں؛مسلمان اپنی زبان کو بھول بھال کر انگریزی میں سوچے ، انگریزی میں خواب دیکھے؛نیز مغربیت اختیار کرکے ،مشرق سے اس قدر بے زار ہوجائے کہ اپنی ثقافتی روایت کو ذلیل اور یہاں تک کہ اپنے باپ دادا کو احمق سمجھنے لگے۔
(یہاں اکبر کی آواز صاف محسوس ہورہی ہے:ہم ایسی کل کتابیں قابل ضبطی سمجھتے ہیں؍کہ جن کو پڑھ کے لڑکے باپ کو خبطی سمجھتے ہیں)۔یہاں غور طلب بات یہ ہے کہ جوش صاحب نے علی گڑھ پر کڑی تنقید اور کاٹ دار طنز کرتے ہوئے ،مسلمانوں اور مشرق کا مقدمہ پیش کیا ہے،جس کاذکر یادوں کی برات پر لکھی جانے والی تنقید میں عموماً نہیں ملتا۔جو ش کے نقادوں کی توجہ ،ان کی تعقل پسندی، روایت شکنی، مذہب سے بے زاری پررہی ہے ،اور شاید اس لیے کہ خود جوش نے جگہ جگہ ،ان کاببانگ دہل اظہار کیا ہے؛لیکن بچپن کے ثقافتی ومذہبی اثرات کس کس طرح ،چپکے چپکے ظاہر ہوتے ہیں،اور ’بالغ عمری‘ کے بہت سے دعووں کو تہ وبالا کردیتے ہیں، اس جانب ، جوش کے نقادوں کی کم ہی نگاہ پڑی ہے۔جوش جب سیاسی و ثقافتی اقتدار کی علامتوں کو طنزو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں تو در اصل ان ثقافتی علامتوں کے تحفظ کا مقدمہ لڑرہے ہوتے ہیں،جنھیں استعمار یا اس کے حامیوں نے نقصان پہنچایا۔
نفسیاتی زاویے سے دیکھیں تو ’ثقافتی علامتوں کے تحفظ کا مقدمہ‘ اس لیے لڑاجاتا ہے کہ اپنے ’مستند مَیں‘ کو محفوظ اور مستحکم بنایا جاسکے۔’مَیں‘ اگرچہ ایک داخلی ،نجی ہستی ہے ،مگراسے جو شے مستند بناتی ہے ،وہ خارجی ہے ،یعنی ثقافت ۔ جس ثقافت میں ،مَیں تشکیل پاتا ہے،وہی اس کو حقیقی ہونے کی سند بھی دیتی ہے۔اس لحاظ سے مَیں کی اصل مقامی رہتی ہے۔مَیں خواہ کس قدر عالمی ہونے کا دعویٰ کرے ، یعنی باہر کی طرف پھیلنے ،اور اوپر بلند ہونے کی کوشش کرے، اس کی مقامیت اسے نیچے اور ماضی کی طرف کھینچتی رہتی ہے۔مَیں کے استناد کو سب سے بڑا خطرہ ان ثقافتی اثرات سے ہوتا ہے ،جن کی نوعیت استعماری ہوتی ہے۔ اگر غیراستعماری اثرات،کسی ثقافت کو نیا خون دیتے ہیں تو استعماری اثرات اس کا خون نچوڑ لیتے ہیں؛وہ جڑوں پر وار کرتے ہیں،اور لوگوں کو بیگانگی و اجنبیت وبے معنویت کے احساسات سے دوچار کرتے ہیں ۔جوش کے یہاں بھی یہ احساسات ہیں،اور ان کے طنز کا محرک ہیں۔
گویا ان کے طنزکا ہدف ،ان کے داخلی ثقافتی وجود پر حملہ آور ہونے والے بیرونی ،استعماری عناصر ہیں۔ جوش کی ذہنی تشکیل’ لکھنوی ثقافت ‘کے تحت ہوئی؛ملیح آباد لکھنئو ہی کا ایک نواحی قصبہ تھا؛جو ش کے گھر لکھنوی شعرا کا مسلسل آنا جانا تھا؛جو ش کی شیعت بھی ، لکھنئو کی دین ہے؛جوش نے بچپن میں لکھنوی کہانیاں سنیں ۔اسی لکھنئو پر ،جسے جوش کعبہ ء تہذیب کہتے ہیں، فرنگی نے غاصبانہ قبضہ کیا۔فرنگی سے نفرت کا آغاز بھی جان عالم پیا کے اس ناستلجیائی ذکر سے ہوا،جو ایک بوڑھی عورت نے جوش کے سامنے کیا۔ خود اس بوڑھی عورت کے لفظوں میں فرنگی کے لیے طنز کے نشتر تھے ،اور اس طنز کی جڑیں بھی ماضی کے لکھنئو سے والہانہ محبت میں تھیں۔جان عالم پیا اہل لکھنئو کی ،لکھنوی ثقافت سے محبت کا استعارہ تھا۔
(جوش صاحب کی آپ بیتی "یادوں کی برات” پر اپنے مضمون (مشمولہ عالمگیریت اور اردو ) سے اقتباس)