پیغام پاکستان اور اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے چارٹر کو نصاب تعلیم کا حصہ بنایا جائے .
پاکستانی معاشرے کے مکالمے کا کلچر تیزی سے ختم ہو رہا ہے ۔
نوجوان نسل کو خدشات سے نکالنے کے لیے انہیں ملکی معاملات میں شرکت کے مواقع فراہم کیے جائیں ۔
سیاسی ، مذہبی اور سماجی رہنماؤں کا مطالبہ
[pullquote]نوٹ : ویڈیو رپورٹ دیکھنے کے لیے درمیان میں کلک کریں [/pullquote]
پاک انسٹی ٹیوٹ فار پیس اسٹڈیز کے زیر اہتمام کوئٹہ میں مختلف علاقوں کی جامعات اور تعلیمی اداروں سے تعلق رکھنے والے منتخب شدہ 80 سے زائد طلبہ و طالبات کے لیے دو ، دو روزہ ورکشاپ کا انعقاد کیا گیا ۔
ورکشاپ کے شرکاٗ سے گفتگو کرتے ہوئے مقررین نے کہا کہ نوجوان نسل کے ذہنوں میں پاکستان کے مستقبل کے بارے میں کئی سوالات اور خدشات ہیں ۔ نوجوانوں کو ملکی معاملات میں شریک کیے بغیر ملک کے مستقبل کو بہتر سمت فراہم نہیں دی جا سکتی ۔
ورکشاپ سے جمیعت علمائے اسلام کے مرکزی رہنما حافظ حسین احمد ، معروف ماہر تعلیم ڈاکٹر سید جعفر احمد ،جماعت اسلامی بلوچستان کے امیر مولانا عبد الحق ہاشمی، شیعہ علما کونسل بلوچستان کے صدر علامہ اکبر علی زاہدی ، پپس کے پراجیکٹ ڈائریکٹر احمد علی ، صفدر حسین سیال ، معروف شاعر علی بابا تاج، فاطمہ اقبال خان ، فائزہ میر، پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کے صدر شہزادہ ذوالفقار، سینئر صحافی وسعت اللہ خان ،ڈان نیوز کوئٹہ کے بیورو چیف سلیم شاہد، معروف محقق اور مصنف یار محمد بادینی اور آئی بی سی اردو کے ایڈیٹرسبوخ سید نے گفتگو کی ۔
ورکشاپ میں طلبہ کو پاکستان کے سماجی اور معاشرتی مسائل ، مختلف اداروں اور پارلیمان کے کردار ، ثقافتی تنوع ، سوشل میڈیا کا کردار ، جمہوریت، آزادی اور معلومات تک رسائی ، پیغام پاکستان ، انسانی حقوق کے عالمی منشور ، سماجی اور مذہبی ہم آہنگی کے ساتھ ساتھ ملک میں بسنے والی اقلیتوں کے ساتھ بعض مقامات پر ہونے والے ناروا سلوک کے اسباب اور تدارک پر بات کی گئی ۔

طلبہ و طالبات سے گفتگو کرتے ہوئے مقررین نے کہا کہ ترقی کے لیے پر امن معاشرت کا قیام انتہائی ناگزیر ہے۔ورکشاپ میں گفتگو کرتے ہوئے مقررین نے کہا کہ جب تک معاشرے میں تصادم موجود رہے گا، معیشت اور ترقی کی خواہش محض خواب ہی رہے گی ۔
مقررین نے کہا کہ انتہا پسندی عالمی سطح پر پاکستان کا چہرہ مسخ کر رہی ہے،پاکستان کا آئین ،پیغام پاکستان اور انسانی حقوق کا عالمی منشور نصاب میں شامل کیا جائے کیونکہ یہ انسانی شعور کی بہترین دستاویزات ہیں ۔
مقررین نے کہا کہ تعلیمی اداروں میں مذہبی ، سماجی اور ثقافتی ہم آہنگی کے قیام کے لیے طلبہ و طالبات کے درمیان شعوری مکالمے کی ضرورت ہے ۔ مقررین نے کہا کہ ثقافت معاشرتی تنوع کو قبول کرنے اور معاشرے کی خوبصورت قدروں کا نام ہے ۔ جو چیز انسانی حق کے خلاف ہے ، اسے ثقافت نہیں کہا جا سکتا ۔

پروگرام میں سوشل میڈیا کے مثبت اور منفی پہلوؤں اور موجودہ دور میں اس کے موثر استعمال پر بھی گفتگو کی ۔ ورکشاپ میں نوجوانوں کو تنقیدی شعور کی بنیاد کیسے قائم کی جائے اور مذہبی اقلیتوں سے متعلق ملکی اور بین الاقوامی قانون کیا کہتا ہے ، اس پر تفصیلی گفتگو کی گئی ۔
ورکشاپ میں کوئٹہ ، لورا لائی، قلعہ سیف اللہ ، قلعہ عبداللہ ، پشین ، چمن ، ڈیرہ بگٹی سمیت قرب و جوار کی جامعات اور کالجز کے 80 سے زائد طلبہ وطالبات نے شرکت کی .