لاشعور۔

کسی دن تجربہ کرکے دیکھ لیں۔ آپ کو یقین آجائے گا۔

آپ کے پاس کوئی الارم کوئی موبائل فون کوئی جگانے والا نہ ہو آپ رات کو تہیہ کرکے سوجائیں یا سچے دل سے دعا مانگ کر سو جائیں کہ صبح فلاں وقت پر مثلاً چار بجے یا چھ بجے اٹھ جاؤں گا۔ضرور اٹھ جاؤں گا۔ ہر صورت اٹھ جاؤں گا۔ اے باری تعالی’ ! دیکھ مجھے صبح سویرے بہت اہم میٹنگ پر جانا ہے۔ اے بھگوان ! او گاڈ ! اے یسوع مسیح صبح پانچ بجے میری فلائٹ ہے۔لہذا مجھے جگا دینا۔

یا پھر خود کو سونے سے پہلے بار بار یہی ریمائنڈ کراتے سوجائیں آپ حیرت انگیز طور پر بغیر کسی الارم کے عین مقررہ وقت پر جاگ جائیں گے۔ کئی لوگوں کو اس کا تجربہ بھی ہوا ہوگا۔ خود میں کئی بار تجربہ کر چکا ہوں۔

یہ ہے "لاشعور” کی طاقت۔

یہ لاشعور یا سب کانشیئس برین دماغ کا بے حد طاقتور اور بے انتہا پوٹینشل پاور رکھنے والا حصہ ہے۔ یہ ہمارے نظریات ،عقائد ،پسند ،نا پسند ،خوف ، خوشی ،جذبات اور بے شمار دوسرے عوامل کو کنٹرول کرتا ہے۔

جو کچھ ہم بیدار دماغ یا ایکٹو برین سے حواس خمسہ کے ذریعے پراسس کرتے ہیں اس کے ایک ایک لمحے ایک ایک احساس اور ایک ایک پکسل کا ڈیٹا اس لاشعور کے بیک اپ میں سِنکرونائز Sync ہوتا جاتا ہے۔ بالکل ویسے جیسے آپ کا سام سنگ گلیکسی سمارٹ فون آپ کے گوگل اکاؤنٹ یا سام سنگ اکاؤنٹ پر آپ کی میموریز، کانٹیکٹس اور دیگر ڈیٹا کو سِنک کرتا رہتا ہے۔سنک کے بعد اگلا مرحلہ اس بے ہنگم ڈیٹا کی پراسسنگ کا آتا ہے۔یہ انتہائی پیچیدہ مرحلہ ہوتا ہے۔ اس کا بیشتر حصہ نیند کے دوران مکمل کیا جاتا ہے۔ اس مرحلے کے بعد اس ڈیٹا سے حیران کن طور پر سپر کمپیوٹر اور آرٹیفیشل اںٹیلیجنس سے بھی آگے کے لیول کی پراسسنگ کے بعد انتہائی ٹھوس ،مضبوط اور خود کار طرح کے سوفٹ وئیرز کی طرح کی معلومات اخذ کر کے پروگرامنگ کی جاتی ہے۔اور یہ پروگرامنگ ، یہ میموری، یہ سافٹ وئیرز روز مرہ روٹین کے دوران ہمارے نظریات و عقائد ، پسند نا پسند، جذبات، سٹیمنا اور تھنکنگ پراسس کو پوری طرح کنٹرول کرتے اور چلاتے ہیں۔

یہ بالکل ایک جینیٹک کوڈ کی طرح ہمارے دماغ کے نہاں خانوں کی ڈرائیو پر انسٹال کیا گیا اینڈرائیڈ یا آئی او ایس کا ایک ورژن ہوتا ہے۔

یہ ہماری حرکات و سکنات تک کو کنٹرول کرتا ہے۔اس میں تبدیلی ناممکن تو نہیں لیکن قدرے مشکل ضرور ہوتی ہے۔

ہم مختلف بیرونی عوامل کے پریشر سے کانشیئس برین یعنی بیدار دماغ کو اپنی مرضی کے پریشرائزڈ سٹمولائی (محرکات) دے کر سب کانشیئس برین کے سافٹ وئیر پر کسی حد تک غلبہ پاسکتے ہیں۔
لیکن مکمل غلبہ پانا ابھی ہمارے بس میں نہیں ہے۔ یہ جو آپ طنز و مزاح میں سافٹ وئیر اپ ڈیٹ سنتے رہتے ہیں یہ اِنہیں بیرونی محرکات کے زیر اثر وقتی غلبہ ہوتا ہے جو ہم لاشعور پر پاتے ہیں۔ ہم اس وقتی غلبے کو طول ضرور دے سکتے ہیں۔لیکن ایک سپرنگ کے مانند جب بیرونی طاقت ہٹائی جاتی ہے تو لاشعوری سافٹ وئیر اپنی اصل پر واپس آنے کی کوشش کرتا ضرور ہے۔ ارتقا کے نتیجے میں نسل در نسل ہمارے لاشعور میں معلومات اور ڈیٹا کے سمندر کے سمندر قید ہوچکے ہیں۔

مثلاً جب بھی ہم جسمانی ورزش کرتے ہیں یا تیز بھاگتے ہیں یا کوئی سپورٹس چیلنج سمجھ کر کھیلتے ہیں اور پسینہ پسینہ ہوجاتے ہیں اور ایک ریکارڈ توڑتے ہیں تو جس لمحے ہمارا سانس دھونکنی کی طرح چل رہا ہوتا ہے اور ہم ٹریڈ مل پر سیٹ ٹائم کو اچیو کرکے نیچے فرش پر بیٹھتے ہیں تو ایک عجیب سی خوش گوار لہر ہمارے بدن میں سر تا پا دوڑتی ہے۔ ایک انجانی خوشی کا احساس ہوتا ہے۔ موڈ فریش سا ہوجاتا ہے۔ یہ اسی لاشعور کے زیر اثر ہمارے خارج ہونے والے ڈوپامین اور ایپی نیفرین کے باعث ہوتا ہے کیونکہ ہمارے اجداد جب پتھر اور غاروں کی زندگی میں اپنے شکار کے پیچھے بھاگ کر پسینے میں شرابور ہوکر اس پر غلبہ پاتے تھے تو یہی فیلنگ ان کے ہارمونز کی بدولت ان میں آتی تھیں۔ یہ جینیٹک کوڈز اور سافٹ ویئرز صدیوں کا فاصلہ طے کرکے ہم تک پہنچے ہیں۔اس طرح کی بے شمار مثالیں موجود ہیں۔

اسی ضمن میں آپ کو ایک مزیدار مگر سچا واقعہ سناتے ہیں۔

ایک بڑے میاں کٹر اور پکے ٹھکے آرتھوڈوکس رومن کیتھولک تھے اور زندگی کے آخری ایام گن گن کر گزارتے تھے۔آسٹریلیا میں رہتے تھے۔

ان کو ایک جان لیوا مرض کی تشخیص ہو گئی۔آسٹریلیئن میڈیکل بورڈ کے ٹاپ ڈاکٹروں کے مطابق ان کے پاس فقط ایک ماہ کا وقت بچا تھا۔خاندان نے ان کے بیٹے کو امریکہ میں اطلاع کر دی۔ بیٹے کے پاؤں تلے سے زمین نکل گئی۔

بیٹا راتوں رات آسٹریلیا پہنچا اور افسردگی میں گھر کی جانب چلتا جاتا تھا کہ برقی لہر کی مانند اسے مشہور امریکی مصنف جوزف مرفی کا ایک لیکچر یاد آیا جو "لاشعور کی طاقت” اور "نظام یقین” Belief system پر تھا۔

اس اچھوتے خیال کے آتے ہی اس لڑکے نے سڑک سے ایک فالتو لکڑی کا تنکا سا اٹھایا اور ایک سنار سے اسے ایک انگوٹھی میں قید کروا لیا۔اور گھر آگیا۔

آتے ہی باپ کے گلے لگا۔ باپ جب رو رو کر ساری روداد بیان کر چکا تو اس نے اچانک بہت رازداری سے اس کے کان میں کہا،
"زندگی موت تو خیر صدیوں سے جاری نارمل عوامل ہیں لیکن ایک راز کی بات بتاؤں؟

جس صلیب پر یسوع مسیح ع مصلوب کیا گیا تھا اس کی لکڑی کا ایک ٹکڑا آپ کو معلوم ہے کس عجائب گھر میں رکھا ہے؟

بوڑھے کو عیسائی مذہب چونکہ زبانی یاد تھا جھٹ سے بولا فلاں ملک میں ،فلاں گرجے کے فلاں حصے میں تھا وہاں سے کچھ حصہ عام زیارت کے لئے فلاں ،فلاں اور فلاں میوزیم میں موجود ہے۔ مگر تم یہ کیوں پوچھتے ہو؟

"کیونکہ میں جان کی بازی لگا کر ان میں سے ایک معمولی سا حصہ لے آیا ہوں۔ فادر کو مجھ پر رحم آگیا۔ ”

بس وہ پیر مغاں جو کروٹ لینے سے بھی قاصر تھا فرط جذبات سے کانپتے ہوئے بستر سے گھسٹ کر آدھا بدن تکیئے کی پشت پر ٹیک لگاتے ہوئے چنگھاڑتے ہوئے بولا
"کہاں ہے؟”

لڑکے نے انگوٹھی نکالی اور اس کے حوالے کر دی۔

بوڑھا انگوٹھی کو لے کر دیوانہ وار چومتا جاتا ،روتا جاتا ،انکھوں سے مس کرتا ،بوسہ دیتا ،پیشانی سے لگاتا اور آسمان کی طرف دیکھ دیکھ کر یسوع مسیح ع کو مخاطب کرتا جاتا اور شکریہ ادا کرتا جاتا۔ یوں لگتا تھا کہ اس پر دیوانگی کا دورہ پڑا ہے۔

وہ دنیا مافیہا سے بے خبر ہوچکا تھا۔

لڑکا خاموشی سے روشنی بجھا کر باہر چلا آیا اور اپنے کمرے میں جا کر سو گیا۔

صبح ناشتے کی میز پر باپ لڑکے سے پہلے نہا دھو کر تیار بیٹھا ناشتہ کر رہا تھا ۔ اور اس کے چہرے،موڈ اور قہقہوں میں موت اور بیماری کا خوف جیسے دریا برد ہوچکا تھا۔

بوڑھا جس کے پاس ایک ماہ کا قلیل وقت بچا تھا اس واقعے کے اٹھارہ برس بعد فوت ہوا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے