پہلے تو مجھے اپنے ذہنی حالت پر کچھ شک ہوا اورمیں نے سوچاکہ کسی ڈاکٹر کے پاس جاؤں ۔ پھر پتہ چلا کہ یہ ذہنی مسئلہ صرف میرا نہیں بلکہ پورے پاکستان کا ہے۔ اس ملک خدادادمیں‘ میں اکیلا کنفیوز نہیں بلکہ پور ی قوم کا حال یہی ہے۔میرے پیارے دوست و احباب بہت دکھی اور اداس ہیں۔ اس لئے نہیں کہ۱۶ دسمبر ہمارے ملک کے دو لخت ہونے کا دن ہے بلکہ سولہ دسمبر کا دن سانحہ اے پی ایس کے نوحوں کا دن بن چکا ہے۔ قوم اس دن پاک سرزمین کے مقدس وجود پر کلہاڑی چلنے کو یکسر بھلا چکی ہے۔
پاکستانی قوم پر پچھلے بیالیس سال سے دسمبر آتا بھی ہے اور جاتا بھی ہے لیکن میرا پاکستان جو انا پرست حکمرانوں کی ضد کی بھینٹ چڑھ کر دو حصوں میں بٹ گیا تھا‘ اس پر دھرتی ماں تو ضرور رورہی ہے مگر سولہ دسمبر کو کوئی بھی پاکستانی اس ناقابل برداشت دکھ پر نوحہ کناں نہیں۔اے پی ایس کا دکھ لے کر آج کے دن پوری قوم افسردہ ہے۔
ہاں!اتنے افسردہ کہ سقوط ڈھاکہ کا غم مکمل طورپر دفن کر دیا گیا ہے۔اس صورت حال میں پورے ملک کی طرح میں بھی کنفیوز ہوگیا اور سقوط ڈھاکہ کو بھول کرباجوڑ مدرسے کے ان معصوم شہیدوں کو یاد کرکے رونے لگا جنہیں امریکی ڈرون نے نشانہ بنا ڈالا تھا ۔ جی ڈرون جو پاکستان کے ائیر بیس سے اڑتے تھے اور پاکستانیوں کو ہی نشانہ بناتے تھے۔
میں کنفیوز تھا پورے پاکستان کی طرح کیونکہ اتنے بڑے سانحات کی یادیں آہستہ آہستہ ہم سے چھینی جارہی تھیں اور اتنے بڑے دکھ تاریخ کے کوڑے دان کی نذر ہو رہے ہیں ۔پھر میرے دوست نویدعالم نے بتایا کہ ہم آج کے دن نہ سقوط ڈھاکہ ہمارے لئے بڑا دکھ ہے اور نہ باجوڑ وڈمہ ڈولاکے دینی مدرسوں میں قرآن کا ورد کرنے والے تین سو سے زائد معصوم بچوں کو بے خبری کے عالم ٹکڑے ٹکڑے کرنے پر کوئی غم ہے بلکہ ہمیں آج کے دن بس صرف ایک ہی غم ہے جوپاکستان کی تاریخ کا سب سے دردناک دکھ ہے اور وہ ہے سانحہ اے پی ایس ۔
باجوڑ اور ڈمہ ڈولہ کے مدرسوں میں سینکڑوں شہید معصوموں پر نہ تو میڈیا میں بین ہوا اور نہ ہی اس وقت کے ارباب بست و کشادنے ان معصوموں کی چیخ و پکار پر کان دھرے مگر سانحہ اے پی ایس پر آج میڈیا بھی آنسو بہاتا رہا اور حکمرانوں کی آوازمیں بھی دکھ جھلکتا نظر آیا۔ ہم تو آج تک دہشت گردی کے خلاف جنگ میں کام آنے والے ان ساٹھ ہزار پاکستانیوں کے بارے میں یہ فیصلہ نہیں کر سکے کہ آیا وہ شہید ہوئے ہیں یامردار۔
یار لوگوں نے میری اور تمام پاکستانیوں کی کنفیوژن کا صرف ایک ہی علاج ڈھونڈا ہے ۔ وہ یہ کہ چاہے جو بھی ہو، جیسا بھی ہو‘ جہاں بھی ہو‘ ہمارے لئے سانحہ اے پی ایس سے بڑا واقعہ اور اس سے عظیم ظلم کوئی بھی نہیں۔ میں نے دھرتی ماں کے دامن پر پڑے آنسوؤں سے صرف نظر کرکے اورتمام پرانے زخموں سے آنکھیں موڑ کر اپنی فیس بک ڈی پی تبدیل کر دی اورپوری قوم کے ساتھ مل کر سانحہ اے پی ایس پر رونے لگا۔