محفوظ بچپن اور خاندان کا کردار

معاملہ کئی روز سے جاری ہے، ایک لڑکی کو ایک ایسے شخص نے بےدردی سے قتل کر دیا جسے وہ جانتی تھی۔ مرد نا صرف پڑھا لکھا، سمجھدار، زمانہ شناس تھا بلکہ فی زمانہ بہترین معیار زندگی سمجھی جانے والی سہلولیات اور آسائیش سے لبریز زندگی گراز رہا تھا۔ اس کے پاس کوئی کسی کمی کی شکایت، آنے والے کل کا کوئی خوف، کوئی کمی نہیں تھی۔ سامان زندگی،روپیہ پیسہ، اثر رسوخ، عیش و عشرت کے باجود آخر کہیں تو کوئی رخنہ رہ ہی گیا تھا۔

نفسیات کے ماہرکہتے ہیں اس طرح کے کیسز میں خاندانی پس منظرکو مدنظر رکھنا چاہئے۔ تو اس مرد کی ماں اعلٰی تعلیم یافتہ ہے، بلکہ خود ماہر نفسیات ہے، باپ بھی پڑھا لکھا، کامیاب کاروباری ہے۔ لیکن کہیں توگنجل ہے اس کہانی میں، جس کا سرا ۃاتھ نہیں آرہا۔

چلئے ایک تصوراتی کہانی بنتے ہیں، ایک امیرکبیر گھرانے میں ایک صحت مند بچہ جنم لیتا ہے۔ اس کے ماں باپ خوش تو ہیں مگر انہیں ابھی بچہ پالنا نہیں ہے، کیوںکہ وہ ابھی اپنے کاروبار کو آگے بڑھانے میں وقت لگانا چاہتے ہیں، بچے کے لئے ایک نرسری بنا کر اسے آیا کے سپرد کر دیا جاتا ہے۔ بچہ کھاتا، پیتا ہے، بہترین لباس میں صاف ستھرا رہتا ہے، وہ بالنا ،چلنا، چیزوں کے پہچھے بھاگنا سیکھ رہا ہے، بس اسے ‘محبت” کا بنیادی احساس نہیں ہے۔

ایک دوسرے رخ سے اسی کہانی کو دیکھتے ہیں، بچہ اور ماں ساتھ نہیں رہ سکتے کیونکہ باپ کو ماں کی ضرورت ہے، وہ اسے اپنے ساتھ بزنس میٹنگز میں لیجاتا ہے۔ ماں واپس تو آتی ہے مگر بچے کے لئے وہ اجنبی رہتی ہے۔ وہ اپنی تھکاوٹ کے باعث بچے کو دھتکار دیتی ہے۔ نظر انداز کرتی ہے۔

ایک تیسری کہانی یوں ہے کہ ماں باپ میں سے ایک نشہ کا عادی ہے، بچہ ان سے مناسب دوری پر رکھا جاتا ہے تا کہ اسے نشئی والدین سے بچا کر پالا جائے۔ لیکن موقع ملتے ہی نشئی باپ بچے کو دھنک کے رکھ دیتا ہے، اس کو گالیاں دیتا ہے یا کمرے سے نکال دیتا ہے۔

ایک اور کہانی یوں ہے کہ ماں اور باپ کے درمیان گھریلو ناچاقی ہے مگر وہ اپنے مالی مفادات کی وجہ سے الگ بھی نہیں ہو رہے، اس لئے وہ لائم لائٹ میں ایک ایڈیل کپل کی طرح نظر آتے ہیں لیکن گھر کی چار دیواری میں ایک دوسرے کی عزت کا فالودہ بنا دیتے ہیں، بچہ اس دوغلے روئے کو دیکھتا ہوا بڑا ہو رہا ہے۔ ایک دوسرے کو اذیت دینے کےلئے دونوں یا کوئی ایک بچے کو مار پیٹ کرتے ہیں، اس کو بےعزت کرتے ہیں۔

یا ایک کہانی یوں بھی ہو سکتی ہے، بچہ کسی ایسے شخص کے ہاتھ چڑھ گیا ہے جو اسے جنسی طور یرغمال بنا کے رکھتا ہے، لیکن والدین کو اس معاملے کی کوئی خبر نہیں، وہ اپنی زندگی میں مگن ہیں۔

ایک کہانی اس طرح بھی بن سکتی ہے کہ بچے کو والدین نے دادا دادی، یا نانا نانی کے حوالے کر دیا کیونکہ والدین کے پاس جلد ہی ایک اور بچے کی پیدائیش ہوگئی، اور ان کے لئے بیک وقت دو بچوں کو سمبھالنا ممکن نہیں تھا۔

اس کے علاوہ بھی لاتعداد ایسے خاکے بنے جا سکتے ہیں،لیکن ان تمام میں ایک چیز کو مشترک ہے وہ کے ” ڈس فنکشنل فیملی” یا غیر موثر خاندان۔ ایسا خاندان جہاں بچے کو نظر انداز کیا جائے،اسے دھتکارہ جائے، اس کے ساتھ کوئی جزباتی تعلق نا استوار کیا جائے۔ بچے کا ایک ایسے ماحول میں بڑا ہونا جہاں اسے وافر مقدار میں چیزیں تو میسر ہیں لیکن اس کے احساس کی نشونما ، کردار سازی، جذباتی اٹھان کے لئے کوئی اہتمام نا کیا جائے۔ بچے کی شخصیت میں نرمی، محبت، ہمدردی، دوسروں کا خیال رکھنا، گھل مل کر رہنا جیسی ضروری عادتوں کی نگھبانی نا ہو سکے تو نتیجہ ایک ڈس فنکشنل ہیومین بینگ یا غیر موثر انسان کی صورت میں نکلتا ہے۔ اب یہ احساس کمتری کا شکار شخص ہر اس چیز میں دلچسپی لیتا ہے جو اس کے اندر کے خلا کو وقتی طور پرسہی مگر بھر دیتی ہے، جیسے نشہ، جنسی تعلقات، غیر اخلاقی مواد کی جانب رغبت، دوسروں کو ذلیل کرنا، تشدد اور اگر وسائل کی کوئی کمی بھی نا ہو تو ایسے شخص کے لئے قانون ہاتھ میں لینا کوئی مشکل نہیں رہتا۔ ہتھار رکھنا، ان کا کھلم کھلا استعمال، گاڑیوں اور بندوقوں کی نمائیش کرنا اور اپنے سے کمزور پر ظلم ڈھانا ان کی فطرت بن جاتی ہے۔

اور جب معاملات حد سے بڑھ جائیں تو ایسے لوگ قتل کرنے سے بھی نہیں ہچکچاتے، اور بےحسی ، جنون میں بدل جائے تو قتل کو ہولناک ترین بنانے کےلئے مقتول کو اذیتیں دے کر مارتے ہیں، یا مارے کے بعد اس کے جسم کی بے حرمتی کرتے ہیں۔

لیکن یاد رہے یہ ظالم شخص بھی کبھی ایک ننھا بچہ تھا جیسے اس کے خاندان نے توجہ، محبت اور عزت سے محروم رکھا۔

اس لئے اگر قدرت نے آپ کو اولاد جیسی نعمت سے نوازا ہے تو اس پر توجہ دیں، بچوں کو اہنی محبت دیں، انہیں ترجیح دیں، ان کی پرورش کریں، انہیں اچھا فعال،موثر فرد بنائیں۔ محفوظ بچپن کلید ہے محفوظ معاشرے کی۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے