اپنے پچھلے کالم میں یہ ذکر کیا تھا کہ کرونا نے کس طرح لوگوں کے بزنس کا نقصان کیا اور نوکریاں ختم ہو گئیں، پاکستان میں جب کرونا کی تشخیص ہوئی تو لوگوں میں ایک خوف وہراس پھیل گیا تھا کہ نہ جانے کسی وبا ہے اور کتنے لوگوں کی زندگیاں نگلے گی ، ہوا وہی کہ بہت سے لوگ اس وبا کا شکار ہوئے اور اس دنیا سے رخصت ہو گئے، جو اس دنیا میں آیا ہے اس نے ایک دن واپس جانا ہے ہر لیکن احتیاط بھی ضروری ہے ، کہیں لوگوں نے اس وبا سے احتیاط بھی کی اور کہیں لوگوں نے نہیں بھی کی ، پاکستان میں کرونا کیسز کے آنے کے بعد حکومت نے لاک ڈوان کی طرف جانا چاہا اور پھر کیسز کے بڑھتے پیش نظر لاک ڈاؤن لگایا ، جس میں تعلیم ادارے اور دیگر دکانیں ، ہوٹل وغیرہ وغیرہ بند کر دئیے۔
لاک ڈاؤن کی وجہ سے تعلیمی اداروں کو بند کرنا پڑا تاکہ کرونا سے بچے اور اساتذہ شکار نہ ہو، حکومت کی یہ پالیسی کچھ ہد تک بہتر تھی لیکن اس نے بچوں کی تعلیم کا نقصان کرنا شروع کر دیا ، حکومت نے آن لائن سسٹم کی طرف جانے کا کہا لیکن پاکستان میں ویسی سہولیات نہیں ہیں اور نہ ہی حکومت نے دی کہ بچے اس سے مستفید ہوں اور اپنی تعلیم گھر پر بیٹھ کر جاری رکھیں، آن لائن پالیسی کی وجہ سے بچوں نے بڑا فائدہ اٹھایا اور کلاس میں ان لائن ہوکر کیمرہ بند کردیا اور بیٹھ کر پیپ جی کھیلتے رہے، حکومت کی جانب سے کوئی ایسا خاطر خواہ انتظامات نہیں کئیے گئے کہ بچوں کو بہتر تعلیم دی جاسکے ، بچوں نے لاک ڈاؤن کا فائدہ اٹھایا بس کھیل کود میں لگے رہے کیوں کہ حکومت نے بچوں کو بغیر امتحانات کے پروموٹ کرنے کا جو فیصلہ کر لیا تھا ، بچوں نے اس چیز کا فائدہ اور پڑھائی کی طرف توجہ نہیں دی۔
بچوں کو تو کوئی فکر نہیں تھی کہ ان کی تعلیم کا کتنا نقصان ہورہا ہے لیکن ان کے والدین اس چیز پر فکر مند تھے کہ ہمارے بچوں کا مستقبل کیا ہوگا، سکول بند ہونے سے پرائیویٹ سکولز کے اساتذہ کو اپنی نوکری کی فکر پڑ گئی اور جائز بھی تھی کیوں وہی ان کی روزی روٹی کا ذریعہ تھا ان نے بھی اپنے بچوں کی فیسز اور گھر کے اخراجات چلانے تھے ، لیکن حکومت نے نہ بچوں کے مستقبل کا سوچا اور نہ ان اساتذہ کا سوچا اور لاک ڈوان لگا دیا اور غریب کے گھر کے چولھے بند کر ڈئیے۔
سرکاری سکولوں کی فیسز نہیں ہیں لیکن جن کے بچے پرائیویٹ سکولز میں پڑہتے ہیں ان کے لئیے لاک ڈاؤن ایک طوفان سے کم نہ تھا کیوں کہ سکول بھی بند تھے بچے گھر پر کھیل رہے تھے لیکن سکول مالکان نے اپنی فیسز لینا نہ چھوڑی ، ایک سال سے زیادہ بچے گھر پر رہے اور پرائیوٹ سکول مالکان نے ماہانہ کی بنیاد پر فیسز لیں لیکن اساتزہ کو تنخواہیں نہ دی جب تک لاک ڈاؤن تھا ، سکول مالکان نے جس طرح ہوسکا والدین کا لاک ڈاؤن میں خون چوسا اور بچارے والدین مجبور بھی تھے۔
موجودہ حکومت نے اقتدار میں آنے سے پہلے بڑے عوام کے ساتھ وعدے کئیے لیکن اس وبا کے آنے کے بعد حکومت کے پاس عوام کو بے وقوف بنانے کا سہی موقع مل گیا اور کرونا کے دوران عوام کے لئیے کچھ نہیں کیا ، اور جب بھی سوال کیا گیا تو سارا ملبہ پچھلی حکومت پر ڈالتے رہے۔
حکومت کے آپس اب بھی وقت ہے کہ وہ عوام میں اپنا بھروسہ قائم رکھے ورنہ عوام جتنی اس حکومت سے تنگ ہے شاید کوئی حکومت گزری ہو جس سے عوام اتنی تنگ ہوئی ہو۔