میں کسی کام سے نہیں آیا!

میرا آج کا کالم پرانا اور اسلم کولسری کے اس شعر کی تفسیر ہے:؎

کھل کے بیٹھو کہ ملنے آیا ہوں

میں کسی کام سے نہیں آیا

گزشتہ روز میں اپنے ایک دوست سے ملنے اس کے دفتر گیا۔ اچانک میری نظر اس کی میز پر دھری ایک تختی پر پڑی جس پر لکھا تھا ’’روزگار کیلئے دفترِ روزگار سے رجوع کریں‘‘ مجھے یہ عبارت پڑھ کر ہنسی بھی آئی اور حیرت بھی ہوئی۔ میں نے اپنے اس بےتکلف دوست سے جو ایک ملک گیر کارپوریشن میں بہت بڑا افسر ہے، پوچھا ’’یہ تم نے کیا بےمعنی تختی یہاں لگائی ہوئی ہے‘‘؟ اس نے کہا ’’تم آج کا دن میرے ساتھ گزارو میں کام کرتا رہتا ہوں تم چپ چاپ بیٹھے رہو۔ چائے پینی ہو، کھانا کھانے کا موڈ ہو، بیل دو، نائب قاصد آئے گا اسے آرڈر کر دینا‘‘۔ اس کے بعد میرا یہ دوست اپنے کام میں مصروف ہو گیا۔ تھوڑی دیر بعد نائب قاصد کمرے میں داخل ہوا اور اس نے ایک وزیٹنگ کارڈ صاحب کی میز پر رکھ دیا۔ صاحب نے ایک نظر اس پر ڈالی اور نائب قاصد کو اشارے سے اسے اندر بھیجنے کو کہا۔ پھردفتر کا دروازہ کھلا اور ایک صاحب اندر تشریف لائے۔ خاصے معزز سےانسان تھے۔ میرے دوست نے بہت خوش دلی سے کھڑے ہو کر ان کا استقبال کیا اور بیٹھنے کو کہا۔ انہوں نے پہلے اِدھر اُدھر کی باتیں کیں اور پھر بولے ’’مجھے جب پتہ چلا کہ آپ اس منصب پر فائز ہوئے ہیں تو ہمارے سارے خاندان میں خوشی کی لہر دوڑ گئی‘‘ دوست نے کہا، ’’ظاہر ہے آپ سے جتنے پرانےتعلقات ہیں سب اہل خاندان کو خوشی تو ہونا ہی تھی‘‘۔ اس پر ان صاحب نے جیب سے کاغذوں کا ایک پلندہ نکالا اور بولے ’’ان میں سے ایک میرے بیٹے اور ایک میرے بھتیجے کی سی وی ہے۔

بس آپ انہیں اپنے ادارے میں جگہ دیں۔ تین چار لاکھ روپے کے پیکیج سے کم پیکیج نہیں ہونا چاہئے‘‘۔ اتنے میں ان صاحب کی نظر اس تختی پر پڑی جس پر لکھا تھا ’’روزگار کیلئے دفتر روزگار سے رجوع کریں‘‘ انہوں نے ہاتھ بڑھا کر وہ تختی اٹھائی اور اسے میز پر الٹا رکھتے ہوئے ہنس کر کہا ’’ظاہر ہے یہ ہدایت نامہ تو غیروں کیلئے ہے، اپنوں کیلئے نہیں!‘‘ اس پر دوست نے منافقانہ ہنسی ہنستے ہوئے کہا ’’یہ تو آپ نے ٹھیک کہا‘‘ اور پھر ان کے بیٹے اور بھتیجے کی سی وی اپنی دراز میں رکھ دی۔ یہ دیکھ کروہ صاحب اپنی نشست سے اٹھے، ڈھیروں شکریہ ادا کیا اور ہاتھ ملاتے ہوئے کہا ’’آپ کے بھتیجے کب آ کر اپنا اپائنٹمنٹ لیٹر لے جائیں؟‘‘ میرے دوست نے ان کے ہاتھ کو گرمجوشی سے جھٹکے دیتے ہوئے کہا ’’بس مجھے کچھ دن دیں۔ میں خود گھر حاضر ہو کر آپ کو صورتحال سے آگاہ کروں گا‘‘۔ یہ سن کر ان صاحب نے قدرے خفگی سے کہا ’’یہ تو برادرانہ بات نہ ہوئی۔ مجھے دو چار دنوں کے اندر اپائنمنٹ لیٹر چاہئے‘‘۔ دوست نےکہا ’’بس آپ دعا کریں‘‘ جس پر وہ صاحب ناخوش سے نظر آئے اور باہر نکل گئے۔میں نے دوست سے درخواست کی اور کہا:

کھل کے بیٹھو کہ ملنے آیا ہوں

میں کسی کام سے نہیں آیا

صرف ایک کپ چائے کا خواہشمند ہوں۔ مجھے اس کیلئے دفتر روزگار سے تو رجوع نہیں کرنا پڑے گا، دوست نے ہنستے ہوئے چائے کا آرڈر دیا اور دوبارہ فائلوں میں گم ہو گیا۔ نائب قاصد میرے لئے چائے کے ساتھ، ملاقات کے خواہشمند ایک صاحب کی چٹ بھی لایا تھا۔ صاحب نے اسے بھی اندر بلا لیا۔ یہ ان کا پرانا اسٹینو گرافر تھا جو ریٹائر ہو چکا تھا۔ اس نے کھڑے کھڑے کہا ’’سر! میرا بیٹا آپ کےزیر سایہ کام کر رہا ہے۔ آپ نے ہی اسے بھرتی کیا تھا جس کیلئے میں ساری عمر دعاگو رہوں گا۔ وہ پانچ سال تک بغیر تنخواہ رخصت پر تعلیم کیلئے بیرون ملک ہے۔ ابھی اس کی تعلیم رہتی ہے۔ ازراہِ بندہ پروری اس کی مزید رخصت منظور فرما دیں‘‘۔ صاحب نے کہا ’’نور محمد تم درخواست دے جائو، دیکھیں گے‘‘ جس پر وہ سلام کرکے رخصت ہو گیا۔ اس کے جانے کے بعد دوست نے مجھے بتایا کہ اس کا بیٹا باہر تعلیم کیلئے نہیں ڈالر کمانے گیا ہوا ہے۔ اسے گرین کارڈ ملنے والا ہے اس وقت تک وہ ملازمت پر قبضہ برقرار رکھنا چاہتا ہے۔ بہرحال دفتری اوقات کے دوران لوگ اپنے اور اپنے بیٹوں، بھتیجوں، بھانجوں اور دوسرے عزیز و اقارب کیلئے لوگ سی ویاں جمع کراتے رہے۔ اس دوران مجھ پر شدید گھبراہٹ طاری ہوگئی تھی، مجھے یہ سب کچھ پاگل کر دینے والا لگتا تھا۔

دوست نے میری حالت غیر دیکھی تو پوچھا کہ اس تختی کی معنویت سمجھ آئی جس پر تم نے آتے ہی اعتراض کیا تھا۔ میں نے کہا سمجھ آگئی، مگر دو باتوں کی سمجھ نہیں آئی، ایک تو تم ہر ایک کو ملاقات کیلئے اندر بلا لیتے ہو اور دوسرے ان کی بات تفصیل سے سنتے ہو مگر کام کا وعدہ نہیں کرتے، اس کی کیا وجہ ہے؟ دوست نے جواب دیا ’’جسے اندر نہیں بلائوں گا، اسے برا لگے گا اور اس سے زیادہ برا مجھے لگے گا کہ یہ بات میری تربیت کے منافی ہے۔ دوسرے کام ہونے کا وعدہ اس لئے نہیں کرتا کہ یہ شعبہ براہ راست میرے پاس نہیں ہے، میں یہ سی ویاں متعلقہ شعبے کو فارورڈ کر دیتا ہوں جو ان پر میرٹ کے مطابق کارروائی کرتا ہے۔ میں شروع میں سائلوں کو یہ بات بتایا کرتا تھا لیکن وہ کہتے تھے کہ اگر کام نہیں کرنا تو سیدھی طرح کہو، ٹرخاتے کیوں ہو؟ چلو دفع کرو، یہ بتائو تمہیں آج میری یاد کیسے ستائی؟ میں نے کہا ’’ایک تو تمہیں ملے ہوئے بہت عرصہ ہوگیا تھا اور دوسرے ریٹائرمنٹ کے بعد گھر بیٹھے بیٹھے بور ہو جاتا ہوں۔ یار تم مجھے اپنے پاس کوئی نوکری دے دو۔ ذرا دل بہلا رہے گا‘‘۔ یہ سن کر میرے ستم ظریف دوست نے وہ تختی دوبارہ سیدھی کر کے میرے سامنے رکھ دی جس پر لکھا تھا ’’روزگار کیلئے دفتر روزگار سے رجوع کریں!‘‘

بشکریہ جنگ

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے