کراچی کا لالو کھیت اور عمر شریف

وہ تقریباً چار دہائیوں تک مسکراہٹیں بکھیرتا رہا، اس نے دم توڑتے اسٹیج کو زندہ کرکے فن کاروں کو ایک اور پلیٹ فارم مہیا کیا، اگر اردو زبان میں اسٹینڈ اپ کامیڈی کا کوئی وجود ہے تو اس کی بنیادوں کو عمر شریف نے مضبوط کیا ہے اور کچھ دوست کہتے ہیں کہ وہ عظیم فن کار نہیں تھا۔

مختلف خیال پیش کرنا ایک بہترین عمل ہے، اختلاف رائے اہل جرات کا مسلک ہے، سماج کی عمومی رائے کے برخلاف ایک نقطہ نظر پیش کرنا کوئی معمولی بات نہیں تاہم کسی بھی رائے کو پیش کرنے سے قبل اس کے جواز مضبوط ہونے چاہئیں، ذاتی پسند و ناپسند رائے کا معیار ہونا نامناسب بات ہے، عمرشریف ایک سکہ بند کامیڈین ہے، جس کی کوئی دوسری مثال نہیں۔

گو کسی مایہ ناز فن کار کا دوسرے فن کار سے موازنہ ممکن ہی نہیں، سب اپنے اپنے دائرے میں ایک جہان ہوتے ہیں تاہم یہ عین ممکن ہے کہ ذاتی پسند و ناپسند کی بنیاد پر ان کی درجہ بندی کی جائے، فنی پختگی کی جہاں تک بات ہے تو معین اختر کا اپنا ایک مقام ہے، ان کا مزاح سنجیدہ ناظرین کو زیادہ متاثر کرتا ہے جبکہ عمر شریف عوامی مزاج رکھتے ہیں، یہ فٹ پاتھ والوں کی زبان میں ان کے مسائل کو مزاح کے انداز میں پیش کرتے ہیں اور شاید اشرافیہ کے لئے یہ Stupidity ہے، امان اللہ، مستانہ، ببو برال اور سہیل احمد کی جگتوں کا بھی عوامی انداز ہے اور عمر شریف نہ صرف پاکستانی بلکہ ذاکر خان، ابیش میتھیو، نیتی پالتا، ویر داس، گورو گپتا جیسے بھارتی کامیڈین کے لئے بھی ایک مشعل راہ ہیں۔

کراچی کے لالوکھیت نے بڑے بڑے ہیرے پیدا کئے، مہدی حسن سے صابری برادران، استاد قمرجلالوی سے نقاش کاظمی، اشرف شاد اور معین اختر تک لالوکھیت میں ان گنت چمکتے ستارے ہیں، عمرشریف بھی لالوکھیت کے ایک بیٹے ہیں، لالوکھیت کو تو مہاجر نسل پرستی نے نگل لیا مگر رہتی دنیا تک ان عظیم لوگوں کا نام زندہ رہے گا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے