بندہ و آقا!

چند روز قبل میرا موڈ بہت اچھا تھا، چنانچہ آفس جاتے ہوئے میں ڈرائیور سے خوش گپیوں میں مشغول ہو گیا۔ میں نے کہا سنا بھئی رحیم بخشا کیا حال چال ہے؟ بولا اللہ کا شکر ہے صاحب جی! میں نے پوچھا 20ہزار روپے ماہوار میں اچھا گزارا ہو جاتا ہوگا؟ کہنے لگا، صاحب جی کیا باتیں کر رہے ہیں، میں اور میرے بچے تو صبح شام آپ کے لئے دعائیں کرتے ہیں۔ میں نے کہا وہ تو ٹھیک ہے لیکن اتنے پیسوں میں گزارا ٹھیک ہوتا ہے نا؟ اس پر اسے کھانسی کا دورہ پڑا جب ذرا سنبھلا تو بولا صاحب جی گزارا؟ ہم سے تو ساری تنخواہ خرچ ہی نہیں ہوتی، مکان کا کرایہ دیتے ہیں، اچھے سے اچھا کھانا کھاتے ہیں، بچے اسکولوں میں پڑھ رہے ہیں، گھر میں کوئی بیمار پڑ جائے تو اللہ کا شکر ہے، یہ فکر نہیں ہوتی کہ دوا دارو کے پیسے کہاں سے آئیں گے، مہمان آ جائیں تو ان کی خدمت خاطر خوب کرتے ہیں اور رشتے داروں میں شادی بیاہ پر سب سے زیادہ ہم خرچ کرتے ہیں، دو بچیوں کا پورا جہیز ہم نے اسی تنخواہ میں تیار بھی کر لیا ہے، اس کے باوجود ہر مہینے پانچ چھ ہزار بچ جاتے ہیں!

مجھے یہ سن کر بہت خوشی ہوئی کہ کوئی تو ہے جو کفرانِ نعمت نہیں کرتا۔ میں نے کہا تم صبح سے رات گئے تک میرے ساتھ ڈیوٹی کرتے ہو، بازار سے سودا سلف کون لاتا ہے؟ بولا صاحب جی میرا بیٹا صبح اپنی ماں سے پیسے لیکر نکلتا ہے سبزیاں، گوشت، دودھ، دہی، مکھن اور دوسری ضرورت کی چیزیں وہ خرید لاتا ہے۔ صاحب جی اللہ بھلا کرے حکومت کا اتنا سستا زمانہ میں نے کبھی نہیں دیکھا، سبزیاں کوڑیوں کے مول ہیں، گوشت اتنا سستا ہے کہ میں سوچتا ہوں قصائی کو کیا بچتا ہوگا، دودھ دہی تو قریباً مفت کے برابر ہے اور گھی؟ اللہ بھلے کرے حکومت کا میرے بچے صبح شام پراٹھے کھاتے ہیں اور صاحب جی میں تو حیران ہوں انڈے اتنے سستے کیسے ہو گئے ہیں، آج کل پورا شہر انڈوں کے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑا ہوا ہے۔ بیچاری مرغیاں اوور ٹائم لگاتی ہوں گی۔ اس کی اس بات پر میری ہنسی نکل گئی، میں نے کہا رحیم بخشا تمہاری یہ زندہ دلی تمہاری خوشحالی کی وجہ سے ہے، ورنہ میں نے دیکھا ہے کہ ہر کوئی مہنگائی کا رونا روتا ہے، ایک تم ہو یا حکومت کے وزیر اور مشیر ہیں، جو صحیح صورتحال پیش کرتے ہیں ورنہ نا شکرے لوگ حکومت اور اللہ کا شکر ادا کرنا ہی بھول گئے ہیں۔ اس دوران میں نے کھڑکی سے باہر دیکھا تو محسوس کیا کہ یہ تو میرے آفس کا راستہ نہیں، میں نے کہا رحیم بخشا یہ آج کوئی نیا روٹ لیا ہے بولا جی یہ ذرا شارٹ کٹ ہے مگر یہ شارٹ کٹ نہیں تھا کچھ دیر بعد تو ٹول پلازہ آنے والا تھا جہاں سے اسلام آباد کی موٹر وے آتی ہے۔ میں نے رحیم بخش کو غصے سے کہا ’’تمہارا دماغ تو صحیح ہے، واپس کرو یہاں سے، اس نے یہ سن کر ادھر ادھر دیکھے بغیر ایسے یوٹرن لیا کہ آس پاس کی گاڑیوں کے ٹائروں کی چیخیں نکل گئیں اور اس کے بعد ایک گھنٹے تک ٹریفک جام رہا!

اس روز دفتر میں، میں نے ورکرز یونین کی میٹنگ بلائی ہوئی تھی، میں وہاں پہنچا تو دیکھا سب عہدیدار باہر ہی کھڑے تھے، ان کے ساتھ تیس چالیس ورکرز بھی تھے، مجھے خوشی ہوئی کہ اپنی خوشحالی کا شکریہ ادا کرنے کے لئے یہ سب میرا شکریہ ادا کرنے باہر کھڑے ہو کر میرا استقبال کر رہے ہیں مگر میں نے محسوس کیا کہ ان کے چہرے تنے ہوئے ہیں اور کئی ایک نے بینربھی اٹھائے ہوئے ہیں جن پر اپنے مطالبات کے علاوہ میرے خلاف کچھ غلط قسم کے نعرے لکھے ہوئے ہیں۔ اس کے ساتھ وہ میرا نام لیکر ہائے ہائے کے نعرے بھی بلند کر رہے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ مہنگائی نے ان کا جینا دوبھر کر دیا ہے، انہیں جو تنخواہیں دی جا رہی ہیں ان سے گھر کا چولہا بھی نہیں جلتا۔ میں نے سوچا ایک یہ ناشکرے ہیں اور ایک صابر شاکر رحیم بخش ہے جو عیش کی زندگی بسر کر رہا ہے حالانکہ اس کی تنخواہ ان سب سے کم ہے۔ میں نے مظاہرین کو مخاطب کیا اور کہا میں تمہاری بات سنتا ہوں، اس سے پہلے رحیم بخش کی بات سن لو، پھر میں نے رحیمے کو مخاطب کیا اور کہا محترم رحیم بخش صاحب میں چاہتا ہوں کہ مجھ سے پہلے آپ ان سے خطاب کریں، چنانچہ رحیم بخش آگے بڑھا اور اس نے ابھی گفتگو شروع ہی کی تھی کہ اسے کھانسی کا شدید دورہ پڑا اور وہ زمین پر گر گیا یہ صورتحال دیکھ کر مظاہرین رحیم بخش کی طرف بڑھے اور اسے اسپتال لے جانے کی تیاری کرنے لگے، میں نے اس وقت وہاں کھڑے رہنا مناسب نہیں سمجھا چنانچہ اپنی گاڑی کی طرف بڑھا اور خود ڈرائیو کرکے وہاں سے نکل گیا۔ مظاہرین کا میری طرف دھیان ہی نہیں گیا، وہ اپنے ساتھی کی دیکھ بھال میں جو لگے ہوئے تھے۔

جیسا کہ میں نے آپ کو شروع میں بتایا تھا کہ میں یہ روداد چند روز پہلے کی سنا رہا تھا اس کے بعد رحیم بخش کئی روز تک کام پر نہ آیا، میں اپنے دوسرے ڈرائیور کے ساتھ اپنے کام چلاتا رہا، کل میں نے سوچا کہ یہ بدبخت اتنے دنوں سے نہیں آ رہا اور یوں حرام کی کھا رہا ہے چنانچہ میں نے آج اپنے ایک ملازم کو اس کے گھر بھیجا اور یہ پیغام دیا کہ کل اگر ڈیوٹی پر نہ آئے تو نوکری سے فارغ کر دیا جائے گا۔ کچھ دیر بعد وہ ملازم واپس آیا میں نے پوچھا کیا کہتا ہے وہ؟ ملازم نے کہا کچھ نہیں کیونکہ وہ فوت ہو گیا ہے، میں حیران ہوا اور کہا کہ وہ ہٹا کٹا مسٹنڈا کیسے مر گیا؟ ملازم نے بتایا کہ اس روز گھر جاتے ہی شدید بیمار ہو گیا تھا، اسے سانس لینے میں مشکل پیش آ رہی تھی، دراصل کافی عرصے سے اس کے گھر میں بھوک ننگ تھی جس کی وجہ سے اس کا دماغی توازن اکثر بگڑ جاتا تھا۔ آج صبح اللہ جانے اسے کیا ہوا کہ پنکھے سے لٹک کر اس نے خودکشی کر لی۔ اس کے گھر میں ماتم بپا تھا اور ان کے پاس تدفین کے پیسے بھی نہیں تھے۔ میری جیب میں کچھ پیسے تھے میں نے اس کی بیوہ کو دے دیے، صاحب جی وہ آپ کا بہت وفادار ملازم تھا اس کی طرف جائیں اور ان کی مشکل دور کریں۔ یہ سن کر میں نے دعا کے لئے ہاتھ اٹھائے اور کہا ’’باری تعالیٰ ان کی مشکل دور کر، وہ تیرا بہت شکر گزار بندہ تھا …آمین‘‘ اور پھر گولف کھیلنے چلا گیا!

بشکریہ جنگ

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے