گوئٹے کا نغمہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم

عظیم جرمن قومی شاعر گوئٹے نے اپنی زندگی کا ایک طویل حصہ ملت ابراہیمی یعنی یہودیت عیسائیت اور اسلام میں بنیادی روحانی یگانگت پر غور وفکر میں صرف کیا ۔آغاز شباب ہی میں گوئٹے نے یہودیت اور اسلام پر تین سلسلہ وار ڈرامے تخلیق کرنے کا پروگرام بنایا تھا ۔اسلام کے موضوع پر اپنے مجوزہ ڈراما میں گوئٹے نے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت و کردار کو مرکزی حیثیت دینے کا ارادہ کیا تھا ۔اپنی خودنوشت ‘شاعری اور صداقت ٬ میں گوئٹے نے ایک بیانیہ میں اس تمثیل کی تمنا کی صورت گری کی ہے ۔

لکھتے ہیں ، میرے دل میں یہ خیال تقویت پکڑتا ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ پر لکھوں جنہیں میں نے ہمیشہ صادق پایا اور جن کے نکتہ چینوں کو میں نے ہمیشہ گمراہ سمجھا ۔جب یہ خیال میرے دل میں آیا تو میں اس کام کے لئے بخوبی تیار تھا ۔کیونکہ میں اس سے پیشتر آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات و کردار کا بنظر غائر مطالعہ کرچکا تھا ۔یہ تحریر ایک مناجات سے شروع ہوتی ہے ۔”
اس کے بعد گوئٹے عرب جاہلیت کے خلاف آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے جہاد کے آغاز سے لے کر واقع معراج تک اسلام کی سرگزشت لکھتے ہیں ۔

دنیا بھر کے نعتیہ کلام میں اپنا ثانی نہ رکھنے والا یہ نغمہ محمد

صلی اللہ علیہ وسلم بعد میں گوئٹے نے اپنے East West Ostlicher Diwan میں شامل کردیا ۔اور بعد ازاں اسے علامہ اقبال نے جوئے آب کے عنوان سے فارسی کا خوبصورت پیرہن بخش دیا تھا ۔

اپنے دیوان مشرق کی تفسیر و تعبیر کرتے ہوئے گوئٹے نے قرآن مجید کی حقانیت کے اثبات میں لکھا کہ ” توحید عبدیت اور رسالت یہ تمام تصورات ہمارے اپنے دینی عقائد سے گہری مماثلت رکھتے ہیں اور ہماری مقدس کتابیں ہی بڑی حد تک مسلمانوں کی مقدس کتابیں ہیں ۔اساسی معاملات میں ہمارے اور ان کے عقائد ہمارا اور ان کا طرز فکر یکساں ہے ۔”

گوئٹے نے آنحضور کو ایک رواں دواں اور ابدیت بہ کنار جوئے آب سے تشبیہہ دی ہے ۔نغمہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا آخری بند یہ ہے ۔
دریائے پر خروش ز بند و شکن گزشت
از تنگنائے وادی و کوہ و دمن گزشت
زی بحر بیکرانہ چہ مستانہ می رود
در خود یگانہ از ہمہ بیگانہ می رود ۔
مترجم علامہ اقبال ۔

پیغمبر اسلام سے یہ گہری عقیدت اور جبلی محبت اسلام کی انقلابی روح سے یہ جذباتی لگاؤ مغربی ادب میں کہیں نہیں ملتا ۔گوئٹے واقعتا اپنے ہم عصر مسلمان شاعروں کا ہم نفس تھا ۔حیرت یہ ہے کہ اس کی اسلام شناسی دنیائے مغرب کے لئے ہنوز پردوں میں چھپی ہوئی ہے ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

تجزیے و تبصرے