روٹی، کپڑا اور مکان ہائے رے میرا پاکستان

”اس ملک میں مذہب ، مسلک ، رنگ و نسل اورزبان پر کوئی تفریق نہیں ہو گی اور پاکستان میں رہنے والے ہر شہری کو مساوی حقوق حاصل ہونگے۔ جمہوریت مسلمانوں کے خون میں ہے ، جو انسانیت کی مکمل مساوات پر نگاہ رکھتے ہیں ، اور بھائی چارہ ، مساوات اور آزادی پر یقین رکھتے ہیں۔“ قائداعظم محمد علی جناح کی اس تقریر نے لوگوں کے جذبے کو ابھارا اور یوں آزادی کاخواب لئے عوام کا جم غفیر ہجرت کر کے پاکستان آگیا۔ راتوں رات پاکستان کو اسلام کا قلعہ قرار دے دیا گیا اور اس ہجرت کو اسلام کی سب سے بڑی ہجرت ٹھہرایا گیا۔ لیکن وقت کے ساتھ ساتھ یہ تقریر قائد اعظم کے ساتھ ہی دفن ہو گئی۔ ملک میں مذہب، مسلک، رنگ و نسل اور زبان کی آڑ میں وہ گھناؤنا کھیل رچایا گیا جس نے جہاں عوام کو مساوی حقوق سے محروم رکھا وہی جمہوریت کا دعویدار یہ ملک اگلے 23 سال آمریت کے زیر اثر رہا۔ 1970ء کے الیکشن میں درمیانہ طبقے کا اوپر آنا ایلیٹ کلاس کے لئے تشویش ناک گزرا۔ ”فکر اور شعور کا یہی حال رہا تو جلد یا بدیر مڈل کلاس طبقہ ہم ایلیٹ کلاس کو بہا لے جائے گا. اسے ہر صورت روکا جائے۔“ آنا فاناً اس پر ایک کمیٹی تشکیل دیدی گئی کہ ایسے کون کون سے عوامل ہیں جن کا سدباب ان وجوہات کے خاتمہ کیلئے ضروری ہے۔ سب سے پہلی وجہ یہ سامنے آئی کہ لوگ اپنے گھروں کے باہر چبوتروں پر بیٹھ کر امور سیاست پر تبصرہ کرتے ہیں۔ شاہی فرمان جاری ہوا اور چبوترے غیر قانونی قرار دے دیے گئے۔ تجاوزات کی مد میں شعور کی پہلی منزل کا خاتمہ ہوا کہ نہ رہے گا بانس نہ بجے گی بانسری۔

کمیٹی کی رپورٹ میں دوسرا انکشاف یہ ہوا کہ لوگ پارک اور باغات میں بیٹھ کر ملکی صورت حال پر تبادلہ خیال کرتے ہیں۔ حکومتی آرڈر جاری ہوا اور ان پر ٹیکس عائد کر دیا گیا۔ یوں لوگ مفت کی تفریح سے بھی گئے۔ اخبارات اور دوسرے جرائد کا سستا اور عام ہونا بھی حکمرانوں کی سالمیت کا خطرہ ثابت ہوا۔ پس اسے بھی مہنگا کر دیا گیا کہ لوگ احتراز ہی کریں تو بہتر ہے۔ کمیٹی کی رپورٹ میں اہم ترین نکتہ یہ تھا کہ لوگ چائے خانوں میں بیٹھ کر لمبی لمبی ہانکتیں ہیں۔ اور سیاست پر گھنٹوں سیر حاصل گفتگو کرتے ہیں اور ویسے بھی چائے کو Intellectual Drink کہا گیا ہے۔ پس اسے بھی مہنگا کر دیا گیا اور دو آنہ کی چائے تیس سے پچاس روپے تک چلی گئی۔مہنگائی، روز مرہ کے بیکار دھندے، گھریلو جھگڑے اور اس قسم کے درجنوں مسائل انسانی سوچ میں رکاوٹ بنا دیے گئے ہیں۔ نہ ان سے چھٹکارا ملے اور نہ ہی کچھ اور طرف سوچا جائے۔ عام آدمی روٹی کپڑا اور مکان کے حصول میں محد سے لحد تک جا پہنچتا ہے اور پیچھے اس کی مان مرریادھا کا انتم سنسکار۔ ارتقائی مراحل میں لوگوں کی سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سلب کر دی گئی۔

مذہب اور وطن کی محبت کا چورن اس کی ہڈیوں میں بھر دیا گیا۔ جب اسی محبت نے شدت اختیار کی تو وحشت جنون میں شدت پسند ٹھہرا۔ تبھی کہا جاتا ہے کہ جو شخص ضرورت سے زیادہ محب وطن یا محب مذہب ہو اس سے بچا جائے کہ وہ شدت پسند ہو جاتا ہے۔ خود ہمارا مذہب اسلام بھی اعتدال اور میانہ روی کا درس دیتا ہے۔

روٹی کپڑا اور مکان کا نعرہ مجموعی طور پر قوم کی خستہ حالی کا واضح اعلان ہے۔ یہ ثابت کرتا ہے کہ قوم ان تین بنیادی حقوق سے روز اول سے محروم ہے۔ مغرب طرز حکمرانی پر تنقید اور عالمی سطح پر حکومت کا خواب دیکھنے والی قوم ستاروں پر کمند کیسے ڈالے گی جو ابھی تک ان بنیادی سہولیات کے فقدان کا شکار ہے۔ بھٹو خاندان اس نعرہ کے ذریعے پاکستان پر تین نسلوں سے راج کر رہا ہے اور اس میں شبہ نہیں کہ روٹی کپڑا اور مکان عوام سے ممکنہ حد تک چھین لیا گیا ہے۔

سندھ وسیب کا مان محترمہ نور الہدی شاہ اسی تناظر میں لکھتی ہیں کہ ”انساني فکر و شعور کو طاقتور قوتیں، طاقت کے بل پر بھی اپنی مرضی کے دائرے میں قید نہیں کرسکتیں، مگر ماورائی نرگسیت فکر و شعور کی موت ثابت ہوتی ہے۔جہاں سماجی و سیاسی تنقید کو بھی حرام اور حلال کے فتوے کا سامنا کرنا پڑے، وہاں سے تمام راستے بےموت، موت کی طرف مڑ جاتے ہیں اور انسان ذہنی طور پر اجتماعی موت مر جاتے ہیں۔ایسے میں ہم جسے قوم سمجھتے ہیں، وہ دراصل بےجان چہروں اور جسموں کا ہجوم ہوتی ہیں۔“
سچ یہی ہے کہ یہ قوم نہیں، ہجوم ہے اور ہجوم کا کوئی مذہب یا طریقہ کار نہیں ہوتا جس کے تحت زندگی گزاری جا سکے۔ آخر میں نورالہدی شاہ کی نظم اسی تناظر میں
"تھیٹر”

چہرے بگڑ گئے ہیں
وقت بدل گیا ہے
اسٹیج کا سیاہ پردہ گر چکا ہے
اُس طرف رہ گئے کردار گر چکے پردے سے الجھ الجھ کر باہر آنے کی کوشش کر رہے ہیں
مگر گر چکے سیاہ پردے میں سب ہی کردار پھنس چکے ہیں
ہال کی بتیاں ابھی جلی نہیں
اندھیرا ابھی بجھا نہیں
شاید کھیل ابھی اختتام کو نہیں پہنچا!
شاید یہ منظر بھی کھیل ہی کا حصّہ ہو!
اسی امید پر آڈیئنس کرسیوں میں دھنسی پڑی ہے
مگر یہ جو پھٹے کاغذ کے ٹکڑے، آڈیئنس کے سروں پر برس رہے ہیں،
یہی تو اسکرپٹ تھا جس کی کہانی انہیں کھینچ لائی تھی!
مگر اسکرپٹ لیر لیر کردیا گیا ہے
آڈیئنس سروں پر برستے پھٹے کاغذ کے ٹکڑوں میں کہانی کا اختتام ڈھونڈ رہے ہیں
کہانی ختم ہوگئی کیا!
کہانی ختم ہو گئی کیا؟
کہانی گر ختم ہو بھی گئی ہو، مگر ہال کے دروازے ابھی تک بند ہیں
ہر دروازے کا قفل باہر سے لگا ہے
ہر قفل کی چابی گیٹ کیپر کی جیب میں تھی
آڈیئنس کو نہیں معلوم کہ گیٹ کیپر دروازوں کی چابیاں فروخت کرنے نکل چکا ہے
جیسے کھیل کے سب ہی کردار گر چکے پردے کو نوچ رہے ہیں!
بلکل اسی طرح آڈیئنس اندھیرے میں پھٹے اسکرپٹ کے ٹکڑوں کو نوچ رہی ہے
پھٹ چکے اسکرپٹ کا رائٹر اپنی قبر میں نجانے کب سے سکون کی نیند سو رہا ہے
ہدایتکار چیخ رہا ہے
انتظار کرو
انتظار کرو
کھیل ابھی باقی تھا!
کھیل ابھی باقی ہے
گیٹ کیپر تھیٹر سے کہیں دور اب اپنی گرل فرینڈ کے ساتھ رقص میں ہے
چابیوں کو بیچ کر اس نے جو مالا خریدی تھی
وہ وفا کا تمغہ بنی اس کی گرل فرینڈ کے گلے میں جھول رہی ہے

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے