ذمہ دار مولنا شیرانی ہیں

ایک دور تھا، جب سیاست آداب و اقدار اور شرافت و مروت کی علامت تھی۔ سیاست میں اختلافِ رائے کے احترام اور سیاسی مخالفین کے قدر و اکرام کی روایت تھی۔ مخالفت برائے مخالفت کی بجائے حکمت و بصیرت کی بنیاد پر سیاست میں شمولیت ہوتی۔ شخصی تقلید کی بجائے عقل و درایت کی اساس پر سیاسی عمل میں شراکت ہوتی۔ اس کام کو وارثتِ نبوت سے تعبیر کیا جاتا تھا۔ اس تعبیر کی مناسبت سے سیاست کو معاشرے میں سببِ اصلاح، باعثِ فلاح اور ذریعہ تعمیر سمجھا جاتا تھا۔ سیاست و خدمت نہ صرف مترادف شمار ہوتے تھے، بلکہ سیاست کو عبادت قرار دیا جاتا تھا۔

سیاست پرخار وادی تھی، مگر اس میں عطر دار پھول جیسے محترم و مکرم لوگ تھے یا پھر میوہ دار اشجار جیسی عظیم و کریم شخصیات۔ مگر پھر نجانے کب اس کو زمانے کی نظر بد لگ گئی۔ اخلاقیات کا جنازہ نکلا، اقدار کو پسِ پشت ڈالا گیا، روایات کے سارے اصول اور تہذیب کے سارے فلسفے دھرے کے دھرے رہ گئے۔ تقسیم سے پہلے بھی اور بعد از تقسیم بھی لوگ تنظیموں کے اسیر بن گئے ہیں۔ تنظیموں کے خوشنما ناموں سے ہمارے درمیان تفریق کو اقتدار کا مالک بنا دیا گیا ہے۔

یہ ۱۹۲٦ء کی کہانی ہے۔ علامہ محمد اقبال پنجاب مجلسِ قانون ساز کا انتخاب لڑ رہے تھے۔ اقبال کے سیاسی حریف نے ان کے عقائد و ذاتیات کو نشانہ بنایا۔ ایک دن انتخابی مہم کے دوران علامہ اقبال اپنے دوست عبدالحفیظ جالندھری کے ہمراہ اندرونِ شہر کی گلیوں سے گزر رہے تھے۔ چلتے چلتے وہ سب کو سلام بھی کر رہے تھے۔ ان کے حریف کے ایک حامی نے ان کے سلام کے جواب میں اپنی دھوتی اٹھا دی اور ننگا ہوگیا۔ اس بدتمیزی نے اقبال کا دل توڑ دیا، تاہم ان کے اس فعل سے اقبال کی عظمت پر کوئی فرق نہیں پڑا۔ اقبال کی عزت و اقبال میں ہر گزرتے دن کے ساتھ اضافہ ہو رہا ہے مگر ان کا مخالف آج تک وہیں ننگا کھڑا ہے۔

یہ ۱۹٤۲ء ک بات ہے۔ مولنا ابوالکلام آزاد سفر پر تھے، گاڑی چند لمحوں کے لئے علی گڑھ ریلوے اسٹیشن پر رکی۔ مسلم لیگ کی قیادت مولنا ابوالکلام آزاد کی قابلیت اور مقبولیت دونوں سے خائف تھی۔ علی گڑھ تقسیمِ برصغیر کے حامی طلبہ کا گڑھ تھا۔ یہاں مسلم لیگ کے حمایت یافتہ ایک طالب علم لیڈر نے زبردستی ریل کے ڈبے میں گھس کر مولنا کے چہرے پر تھوک دیا، طلبہ نما غنڈوں نے مولنا آزاد کی داڑھی کو بھی نوچا۔ مولنا آزاد اس وقعے سے دلبرداشتہ ضرور ہوئے تاہم لیگی لونڈوں کی اس شرارت نے ان کے قد کو مزید اونچا کر دیا۔ مولنا آزاد آج بھی آزاد برصغیر کا سب سے روشن چہرہ ہے، ان کے چہرے پر تھوکنے والے مگر اب تک اپنے بوٹوں سے اپنی سیاسی تھوک چاٹ رہے ہیں۔

یہ ۱۹٤۳ء کا قصہ ہے۔ مولنا حسین احمد مدنی صوبہ سرحد کے دورے سے واپس آرہے تھے۔ جالندھر ریلوے اسٹیشن پر بعض لیگی کارکنوں نے ان کے ساتھ انتہائی بدتمیزی کا مظاہرہ کیا۔ ان کی پگڑی اتار کر روند دی، چہرے پر طمانچہ مارا، غلیظ گالیاں دیں اور منہ پر تھوک دیا۔ آغا شورش کاشمیری ”بوئے گل نالہ دل دودِ چراغِ محفل“ میں لکھتے ہیں کہ اس وقت کے کسی جلسے میں سید عطاء اللہ شاہ بخاری ننگے سر آئے۔ کسی نے وجہ پوچھی تو فرمایا جب سے میری قوم نے مولنا حسین احمد مدنی کی پگڑی اتاری ہے، میں نے عہد کیا ہے، آئندہ سر پر ٹوپی نہیں رکھوں گا۔ مولنا حسین احمد مدنی کے نام لیوا آج بھی لاکھوں میں ہیں۔ ان کو گالیاں دینے والے تاریخ کے قرطاس پر گندی نالیوں میں ہیں۔

یہ تین کہانیاں گزشتہ صدی کی ہیں۔ بیسویں صدی کے برصغیر کی بیس عظیم سیاسی شخصیات کی فہرست مرتب کی جائے تو اقبال، آزاد اور مدنی سرفہرست ہوں گے۔ جنہوں نے مگر ان اکابر سے بدتہذیبی کی، ہماری اجتماعی تہذیب نے تاریخ کے صفحات سے ان کا نام و نشان حرفِ غلط کی طرح مٹا دیا۔ صدی بدل گئی، سوچ مگر وہیں کے وہیں ہے۔ اکیسویں صدی کا اکیسواں سال ہے۔ سیاست اکیس سالہ لونڈوں کی لونڈی بن گئی ہے۔ سماج میں ہر طرف نراج کا راج ہے۔ کوچہ سیاست عزت و عصمت کی بازارِ حسن بن چکی ہے۔ ہر طرف الزام تراشی اور بہتان طرازی کا بازار گرم ہے۔ بد تمیزی، بد تہذیبی اور بدکلامی کا دور دورہ ہے۔ ان حالات میں کوئی شریف سیاست میں تشریف لاتے ہوئے خوف محسوس کرتا ہے۔

مولنا شیرانی پسماندہ سماج اور قبائلی جہالت کے ماحول میں سیاسی علمیت کے علمبردار ہیں۔ مخالفین کرہ ارض پر جاری جنگ و جدل کے خلاف ان کی جدوجہد کو مخالفتِ جہاد سے تعبیر کرتے ہیں۔ مولنا شیرانی کے پاس فکر ہے اور مخالفین کے ساتھ فتاویٰ برائے تکفیر۔ فتوی بازی کام نہ آئی تو سنگ باری شروع ہوئی۔ ۱۸ جولائی ۲۰۰٤ء کو قلعہ سیف اللہ ژوب روڈ پر چینہ برت خیل کے مقام پر مولنا شیرانی کی گاڑی کو ریموٹ کنٹرول بم سے اڑانے کی سازش ہوئی۔ دھماکہ ان کی گاڑی گزرتے وقت ہوا، گاڑی کو شدید نقصان پہنچا تاہم امامِ سیاست کو قدرت نے بچالیا، مولنا شیرانی کو موت کا پیغام دیا گیا مگر استقامت کے یہ کوہ سلیمان اپنے موقف سے دستبردار ہوئے نہ کسی مقتدر قوت سے اختلاف پر معافی کے خواستگار۔ عزیمت کا یہ کہسار پوری عظمت کے ساتھ اپنے مقام پر سربکف اور سربفلک رہا۔

اختلاف رائے کی بنیاد پر انسانوں کو زندگی کے حق سے محروم کرنے کی خواہش کافی پرانی ہے۔ مولنا شیرانی کا جرم یہ تھا کہ انہوں نے اس فرسودہ نظام کے خلاف علمِ بغاوت بلند کی تھی. بغاوت کا یہ علمبردار ان کے پاپائیت کی نظر میں موت کا حقدار تھا۔ ۲ مارچ ۲۰۰۹ء کو پشین میں ایک مقامی مدرسے کے دورے کے دوران مولنا شیرانی پر خودکش دھماکہ ہوا۔ دھماکے میں چھ افراد جاں بحق اور بارہ زخمی ہوئے۔ مولنا شیرانی مگر کہسارِ عزیمت بن کر اپنے فکری مقام پر ایستادہ رہے، ان کے افکار میں تبدیلی آئی نہ للکار میں۔ گفتار میں کوئی فرق آیا نہ کردار میں۔ وحشت و دہشت پھیلانے والوں کے لئے آج بھی ان کی فکر سوہان روح بنی ہوئی ہے۔

۲ نومبر ۲۰۲۱ء کو مولنا شیرانی مولنا سمیع الحق کی یاد میں منعقدہ ایک تقریب سے خطاب کے لئے تشریف لائے تو کچھ لونڈوں نے اچھل کود شروع کی۔ مولنا شیرانی کے خلاف نعرہ بازی ہوئی۔ انہوں نے شور میں اپنی بات مکمل کی۔ اس شور کا نقصان جو بھی ہو، یہ مگر فائدہ ہوا کہ شور سے مولنا شیرانی کے مخالفین کے شعور کا اندازہ ہوگیا۔ سیاسی وڈیرے کے ڈیرے پر ہمیشہ شور ہوتا ہے، یہ شور اسے سکون دیتا ہے اور شہر میں مشہور کرنے کا سبب بھی ہوتا ہے۔ اس شور میں شر کا پہلو یہ ہے، کہ یہ شعور کی راہ میں رکاوٹ ہوتا ہے۔ شیر مگر جب بھی آتا ہے تو وڈیرے اور ڈیرے دونوں کو اپنے ہی شور میں ڈھیر کر دیتا ہے۔

گزشتہ صدی کے نصفِ اول میں آل انڈیا مسلم لیگ کا نظریہ تھا کہ اس کے علاوہ مسلمانوں کی نمائندگی کا حق کسی اور کو نہیں، موجود صدی کے نصفِ اول میں اس سوچ کی علمبرادر ہماری علمی برادری کے کچھ سیاسی باربردار ہیں۔ خود کو علمائے حق کا خطاب دینے والے یہ سیاسی نابغے مولنا سمیع الحق کے فرزند حامد الحق کو سیاست کا حق دیتے ہیں نہ جماعتِ اسلامی کے امیر سراج الحق کو۔ ان کے ہاں حق بس وہی ہے جو جنرل ضیاء الحق کے سیاسی جانشین نواز شریف کی موجودہ تحقیق کے عین موافق ہے۔ اس موافقت کی مخالفت کو وہ منافقت سے تعبیر کرتے ہیں یا پھر مداہنت سے۔ حقیقت یہ ہے کہ منافقت خود بھی اس منافقت پر حیران و پریشان ہے۔

مولنا شیرانی ایک فرد نہیں، فکرِ آزاد و سندھی کے عصری اسلوب کا نام ہے۔ جس شخصیت کو کراچی کے مولنا فضل محمد یوسفزئی رعب میں لاسکے نہ کوئٹہ کے مولنا فضل محمد بڑیچ۔ جو صوابی کے قاضی فضل اللہ سے مرعوب ہوئے نہ سوات کے ملا فضل اللہ سے، پاکستان کے مولنا فضل الرحمن انہیں مرعوب کرسکے نہ افغانستان کے ملا محمد فاضل۔ اسے جامعہ حقانیہ یا جامعہ معارف الشرعیہ کے نوعمر فضلاء سے مرعوب کرنا فضول بات ہے، بہت ہی فضول۔

جس تنظیم میں تربیت کا فقدان ہو، وہاں نظم و ضبط کی ترتیب ہمیشہ الٹ ہوتی ہے۔ جہاں تعظیم نہ ہو، اسے تنظیم نہیں طنزیم کہتے ہیں۔ اُلٹ پلٹ کی اِس ترتیب میں جلسے بنائے نہیں الٹائے جاتے ہیں۔ ذہن بنائے نہیں بگاڑے جاتے ہیں۔ تاریخ بنائی نہیں مسخ کی جاتی ہے۔ مگر اس ساخت کے نتیجے میں تنظیم کا جو چہرہ سامنے آتا ہے وہ شرارت کی تپش سے سوختہ ہوتا ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ سوختہ تنظیم کی لاش ہمیشہ مسخ شدہ ہوتی ہے۔

مولنا شیرانی فرشتہ نہیں انسان ہیں، اگر انہیں اختلافِ رائے کا حق حاصل ہے تو ان سے اختلافِ رائے بھی کفر نہیں، مگر علمی اور سیاسی ماحول میں بدتمیزی کی اجازت کسی مہذب معاشرے میں نہیں ہے۔ شرارتیوں کی شرارت سے مولنا شیرانی کی عظمت ہمارے دلوں میں دوچند ہوگئی ہے، ان کا قد ہمارے دماغ میں ہمالیہ کی سطح سے بھی بلند ہوگیا ہے۔ تاہم ذمہ دار مولنا شیرانی بھی ہیں۔ وہ نصف صدی تک اس جماعت کے صفِ اول میں کھڑے رہے، جس کی پہلی صف آج بھی ”نعرہ تکبیر“ کے نام سے ”فتنہ تکبر“ میں مبتلا ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے