اسے پاکستان کی خوش قسمتی کہیے یا ہماری نسل کا امتحان، ہم نوجوان اکثریت کا ملک ہیں۔ یہ وہ خزانہ ہے جو جہاں ہو وہاں ترقی کی نئی راہیں نکل آتی ہیں۔ لیکن اس بیش قیمت خزانے کو سنبھالنا پڑتا ہے۔ اس کی مثال ایسے کھیت کی ہے جسے ہل چلا کر، صبح تڑکے پانی لگانا پڑتا ہے۔ پہلے زمین نرم پو تو کھاد ملا کر مٹی تیار ہونے پر بیج بوئے جاتے ہیں۔ پھر مسلسل آبیاری، کانٹ چھانٹ کی جاتی ہے۔ دیکھ ریکھ کے کئی موسم گزر جاتے ہیں تو فصل تیار ہوتی ہے۔
آج کا نوجوان صرف ایک تہذیب کا عادی نہیں ہے بلکہ اس کی رسائی انٹرنیٹ اور سمارٹ فون کی وساطت سے عالمی ثقافت تک ہے۔ اسی لحاظ سے وقت کے بدلتے تقاضے اس کے ذہن و روح کو بے چین بھی کرتے ہیں اور سوال بھی اٹھتے ہیں۔ یہ چیلنج ایک نسبتاُ پسماندہ سماج کے لئے مشکل ہے۔ اس کا حل نا تو روائیتی تعلیم اور ڈگریاں فراہم کرتی ہیں اور نا ہی ذرائع ابلاغ کی مروجہ روش ان مسائل کی گہرائی کو ماپ سکتی ہے۔ آج کا نوجوان اپنی شناخت اور وجودیت کی پہیلی میں الجھا نظر آتا ہے۔ نظریات کا ایک طوفان کے جو حق اور باطل کو اس طرح ملا رہا ہے کہ سماجی اقداراور آفاقی قوانین میں فرق کرنا کسی عام ذہن کے بس میں نہیں رہا۔
وقت کا استاد تاریخ کے صفحات سے ایک بار پھر بیسویں صدی کے مفکر، شاعر اور اسلامی سکالر ڈاکٹر علامہ محمد اقبال کی سوچ کا حوالہ دیتا ہے۔ علامہ اقبال کا فلسفہ خودی ہی وہ جواب ہے جو اگر ہماری نوجوان نسل کو پیش کیا جائے تو ان کے بہت سے سوالات کے جواب بھی مل جایئں گے اور ان کی خود شناسی کی الجھن کو بھی تشفی ملے گی۔
گذشتہ صدی میں دو عالمی جنگوں نے جہاں لوگوں کو مالی مسائل میں الجھا کر رکھ دیا وہیں ٹیکنالوجی کی تیز تر ترقی نے مسابقت کی نا ختم ہونے والی دوڑکا بھی آغاذ کر دیا۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد کی نسل نے کام کرنے اور پیسے کمانے میں اپنی توانائیوں کو صرف کیا اور نسل نو کو نفسیاتی الجھنوں کا ورثہ دیا۔ روحانی خلا نے کبھی ہپی ازم کو فروغ دیا تو کبھی منشیات کا جال پھیلایا۔ اس اندرونی کشمکش کا علاج “خودی’ ہے۔ اقبال جوانوں کو ترغیب دیتے ہین کے مروجہ عقلی پیمانے اس روحانی کشمکش کو نہیں ماپ سکتے۔ اس کے لئے ایک ایسی نگاہ چاہیے جو جز کے بجائے کل کے وسیع آسمان کا احاطہ کرے۔
خرد کے پاس خبر کے سوا کچھ اور نہیں
ترا علاج نظر کے سوا کچھ اور نہیں
ہر اک مقام سے آگے مقام تیرا ہے
حیات ذوق سفر کے سوا کچھ اور نہیں
بیسویں صدی کا آغاز ایک گہماگہمی سے ہوا، اور اقبال نے اس دور کشاکش میں ہندوستان کا بدلتا رجحان مشاہدہ کیا۔ وہ انگلستان کے شب و روز سے بھی واقف تھے اور اہل مغرب کے افکار بھی ان پے اشکار تھے۔ اقبال نے نوجوانوں کو بدلتے زمانے کے حالات میں ایک رجعت و جدت کے درمیان معلق دیکھا۔ آج بھی حالات کا رخ اسی طرح ہے۔ خاص طور پرگذشتہ تین دہائیوں میں پاکستان کے نوجوانوں کے ذہنوں میں بہت سے ابہام پیدا ہوئے ہیں۔ ان میں شدت پسندی کے پے در پے واقعات نے نوجوانوں میں بد دلی کو جنم دیا ہے۔ وہ اپنی اقدار پر سوالیہ نشان لگانے لگے ہیں؟ ان کو اپنی ثقافت بوسیدہ اور اپنی اقدار پسماندہ لگتی ہیں۔ ایک نظریاتی تقسیم ہے جو ذہنوں کو مسلسل پراگندہ کر رہی ہے۔ مغربی اطوار انہیں ترقی کا زینہ معلوم ہوتے ہیں۔ اسی نبض پر اقبال نے ایک صدی پہلے ہاتھ رکھا تھا۔ فرانس میں لکھے گئے اقبال کے اشعار کچھ یوں ہیں۔
ڈھونڈ رہا ہے فرنگ عیش جہاں کا دوام
وائے تمنا ے خام ! وائے تمنا ے خام !
اقبال کی شاعری نا صرف نوجوانوں کو روائتی دینی استاد سے سوال کرنے پر اکساتی ہے بلکہ جدیدیت کو من و عن قبول کرنے سے بھی روکتی ہے۔ وہ فرد کے محدود ہونے کے قائل نہیں بلکہ اسے ایک الہامی سکیم کا اہم مہرہ سمجھتے ہیں۔ وہ اقوام کو العموم اور مسلمانوں کو الخصوص کائنات کے اسرار و رموز جاننے کے لئے آمادہ کرتے ہیں۔ یہ وہ عالمی برادری کا نظریہ ہے جس پر آج اقوام عالم میں مباحثہ ہے۔ جس درد دل کو آج کشمیر کے مظلوم پکار رہے ہیں۔ اور پاکستان اقوام متحدہ کے پلیٹ فارم پر صدا دیتا نظرآتا ہے۔ اقبال اس فکری اجتماع پر زور دیتے ہیں۔ اقبال کا کلام ایک ایسی مسلم امت کا خواب دکھاتا ہے جس میں سب کے باہم سیسہ پلائی دیوارہیں۔ اور اس کا سرخیل دور حاضر کا نوجوان ہے۔ جو زہنی، جسمانی اور روحانی طور پر ابھرتے چیلنجز سے نمبٹنے کے کئے تیار ہے ۔
اقبال کا شاہین صرف کتاب پڑھنا ہی نہیں جانتا بلکہ اس کی گرفت جدید ٹیکنالوجی پر بھی ہے، وہ سیاروں اور ستاروں کے جہانوں کا مسافر ہے اور اس کے قدموں میں زمین سمٹ جاتی ہے۔
اس مثالی جوان میں سستی و کاہلی نہیں ، جہالت اور بزدلی نہیں۔ یہ جوان چاک و چوبند ہے، جو زمانے کی رفتار کے ساتھ فضا میں پرواز کا ہنر جانتا اور گہرے پانیوں میں اٹھتی لہروں کا بےخوف تیراک ہے۔ وہ علم و عقل کے ہتھیاروں سے بھی واقف ہے اور عشق و مستی کے سرور کا بھی رازداں ہے۔
اے اہل نظر، ذوق نظر خوب ہے لیکن
جو شے کی حقیقت کو نہ دیکھے، وہ نظر کیا
اور اس منزل کا حصول صرف “خودی” سے ممکن ہے۔ خودی جو انا ہے، جو فرد کی تکمیل کا استعارہ ہے۔ خودی دراصل وہ احساس ذات ہے جو انسان کو بےنیازی عطا کرتا ہے، جو فقط بندے اور خدا کا رشتہ ہے، جو کسی دوسرے پر انحصار کے خیال کو ختم کرتے ہوئے راہ گم گشتہ میں شعور ذات کو راہبر بنا دیتا ہے۔
یہ احساس اگر اجتعماعی طور پر پنپنے لگے تو قوموں کا چلن بدل بھی سکتا ہے۔ زوال کی تاریکی سے اجلا مقدر طلوع ہو سکتا ہے۔ بس خود پے اعتماد بحال کرنا ہے۔ ذرا تھم کر اپنے غمگسار اقبال کی نوا کو سننا ہے سمجھنا پے۔ ابھی تو اس مٹی نے امت مسلماں کی رہنمائی کرنی ہے۔
دیکھے تو زمانے کو اگر اپنی نظر سے
افلاک منور ہوں ترے نور سحر سے
خورشید کرے کسب ضیا تیرے ششر سے!
ظاہر تیری تقدیر ہو سیمائے قمر سے !
اقبال کو اگر انسان پسند کہا جائے تو بےجا نا ہو گا، وہ ہر دور میں انسان کے مقام عالی کے گرویدہ نظر آتے ہیں۔ وہ ادمی کو کائنات کی ہر مخلوق سے اول اور رازدار یزداں جانتے ہیں۔ ان کی مجلس میں بیٹھنے والے ان کی حب رسالت ؐآب حضرت محمدﷺ کی گواہی دیا کرتے تھے۔ اور انسانیت کی معراج اصل میں مقام محمود ہے جو آنحضرتﷺ کو بخشا گیا۔ اور اقبال اسی لئے تقلید رسولﷺ کو معراج انسانیت جانتے ہیں۔ وہ حضور بنی کریمﷺکی ذات باصفا میں وہ تجلی دیکھتے ہیں جو خودی کی بین مثل ہے۔اسیلئے اقبال کے کلام میں جو حرارت عشق مصطفیٰﷺ کی محسوس ہوتی ہے اس سے سننے والوں اور پڑھنے والوں پر بھی رقت طاری ہو جاتی ہے۔ یہ پیغام محبت آج کے مسلمان پر بھی اسی طرح اثرپذیر ہوتا ہے۔ اقبال نے جو خواہش تھی کی مسلم اتحاد قائم ہو، طبقاتی تقسیم سے نکل کر سب عشق نبیﷺ کی چھاوں میں آجائیں۔
قوت عشق سے ہر پست کو بالا کر دے
دہر میں عشق محمدﷺ سے اجالا کردے
آج کے دور کا المیہ کچھ اسطرح ہے کہ معاشی کامیابی کو ہی اصل کامیابی سمجھ لیا گیا ہے، یورپ اور امریکہ کا سرمایہ داری نظام ترقی پذیر ممالک کو محض تجارتی منڈی کی صورت دیکھتا اور برتتا ہے۔ کمرشل ازم نے نیم خواندہ اور ترقی پذیر معاشروں کو کنزومر یا صارف میں بدل دیا ہے۔جہاں ہر گزرتے دن بازار میں نت نئی اشیاء کی دستیابی اور مقابلے کی فضا نے اصلی فکری اقدار، اچھائی ،برائی کا فرق مٹا دیا ہے۔اس کی وجہ سے سماج میں بد عنوانی کی جڑیں گہری ہو رہی ہیں۔ شرافت کے پیمانے بدل گئے ہیں اور حرام و حلال کی تخصیص جاتی رہی۔ ایسے معاشرے کو سیاسی طور پر ایک کمزور جمہوری ہجوم سمجھا جاتا ہے۔ جہاں روپیہ انسانی خصوصیات سے ممتاز حیثیت کا حامل ہو جائے۔ اقبالل کی دور اندیشی اس رجحان کو بھی بھانپ گئی تھی۔ انہیں اس ذہنی غلامی کا ادراک تھا۔ وہ انگریز کے زیرنگیں ہندوستان میں پیدا ہوئے تھے ۔ جہاں سرکار نے لوگوں کی نفسیات کو ان کا بالا کردار سے گرا کر دروغ اور دکھاوے تک محدود کر دیا تھا۔ اقبال اس نفسیاتی غلامی سے واضع الفاظ میں خبردارکرتے رہے۔ خاص کر اس کردار کی گراوٹ میں مبتلا علماء، حکماء، مفکرین، سیاسی و مذہبی رہنماوں کو کلام اقبال میں تنبیہ کی گئی ہے۔ کیونکہ وہ معاشرے کی عمومی آراء کو متاثر کرتے ہیں۔ عوام الناس ان کی مثال کی پیروی کرتے ہیں۔ اس لئے اقبال کے نذدیک ایسے عناصر کی بروقت نشاندہی ازحد ضروری ہے۔
نفسیات غلامی
شاعر بھی ہیں پیدا، علماء بھی، حکماء بھی
خالی نہیں قوموں کی غلامی کا زمانہ!
مقصد ہے ان اللہ کے بندوں کا مگر ایک
ہر ایک ہے گو شرح معانی میں یگانہ!
“بہتر ہے کہ شیروں کو سکھا دیں رم آہو
باقی نہ رہے شیر کی شیری کا فسانہ!
کرتے ہیں غلاموں کو غلامی پے رضامند
تاویل مسائل کو بناتے ہیں بہانہ!
اقبال کا دور چھاپہ خانے کا دور تھا، جب علم خواص کی مجالس سے نکل کر کتاب و اخبار کی صورت عوام کی محفلوں میں پہینچ رہا تھا۔ اور آج اسی رجحان میں جدت آگئی ہے۔ اب دنیا بھر کے علوم بس ایک کلک کی دوری پر ہیں۔ لیکن اقبال کے دور کے مسلمانان ہند جن مسائل کا دوچار تھے، آزادی کی سات دہائیاں گذرنے کے بعد آج بھی زہنی پسماندگی کے درجات اسی طرح ہیں۔ شخصیت پرستی میں آج کا باخبر انسان ابھی تک مبتلا ہے ۔ اس ذہنی غلامی کا تصور اقبال کی پیش بین آنکھوں نے جب کیا ہوگا تو کل اور آج میں انہیں کوئی فرق نہیں ملا ہوگا۔ شاید اسی لئے وہ بار بار اس خواجہ پرستی کی دہائی دیتے ہیں ۔
ایک مختصرنظم ہے، خواجگی، اس میں اقبال کی بصیرت کو آج کے حالات پر پرکھا جا سکتا ہے۔
دور حاضر ہے حقیقت میں وہی عہد قدیم
اہل سجادہ ہیں یا اہل سیاست ہیں امام
اس میں پیری کی کرامت ہے، نا میری کا ہے زور
سینکڑوں صدیوں سے خوگر ہیں غلامی کے عوام!
خواجگی میں کوئی مشکل نہیں رہتی باقی
پختہ ہو جاتے ہیں جب خوئے غلامی میں غلام!
دور حاضر کے مسائل و مصائب کچھ نئے نہیں ہیں۔ ہر دور میں انسان کو طبقاتی تقسیم، معاشی جدوجہد، لامتناہی تنوع اور وسائل کی غیر منصفانہ فراہمی سے واستہ پڑتارہا ہے۔ ان سے نبردآزماء آدمی اپنے اس اصل مقصد سے دور ہوتا گیا جو اس کی تخلیق کی وجہ تھا۔ آج بھی انسان ایک مایا جال میں پھنس کر اپنی دنیاوی مسائل سے نمبٹنے میں مگن ہے۔ حالانکہ قدرت نے انسان کو خلیفہ خدا کا درجہ بخشا تھا، اس کا کام تھا حقیقت پوشیدہ کی تلاش اور آگاہی۔ اس کی منزل یہ مادی جہاں نہیں تھا اس کے لئے ارض و سماء کی وسعتیں مسخر کر دی گئیں تھیں۔ لیکن مسلمانوں میں علم و تحقیق اور فکر سے دوری نے انہیں پستیوں میں دھکیل دیا۔ پیغام اقبال کی افادیت اس دور میں مزید بڑھ گئی ہے۔
انسان
قدرت کا یہ عجیب ستم ہے
انسان کو راز جو بنایا راز اس کی نگاہ سے چھپایا
بیتاب ہے ذوق آگہی کا کھلتا نہیں بھید زندگی کا
حیرت کا آغاز و انتہا ہے آیئنے کے گھر میں اور کیا ہے
اقبال اپنی ایک غزل میں اسی موضوع کو اسطرح اٹھاتے ہیں
زندگی انسان کی دم کے سوا کچھ بھی نہیں
دم ہوا کی موج ہے، دم کے سوا کچھ بھی نہیں
گل تبسم کہہ رہا تھا زندگانی کو مگر
شمع بولی، گریہ گم کے سوا کچھ بھی نہیں
راز ہستی، راز ہے جب تک کوئی محرم نہیں
کھل گیا، جس دم، تو محرم کے سا کچھ بھی نہیں
زائرین کعبہ سے اقبال، یہ پوچھے کوئی
کیا حرم کا تحفہ، زمزم کے سوا کچھ بھی نہیں
اقبال نے جب تصور پاکستان دیا اس وقت کسی کے گمان میں نا تھا، کہ یہ خواب ایک حقیقت کا روپ دھارے گا۔ یہ اقبال کی بصیرت تھی جس نے ایک صدی پیشتر آج کے سیکولربھارت میں ہندوتوا کا بیج جڑ پکڑتے دیکھا تھا۔ اور اس کا واحد حل انہوں نے ملت کے اتفاق میں پایا تھا۔ اقبال مایوسی سے واقف نہیں وہ امید اور تقدیر پر مثبت بھروسہ رکھتے ہیں۔ یہی وہ پیغام ہے جو اقبال کو زمان و مکان سے نکال کر پر دور کا رہبر بناتا ہے۔ کلام اقبال کسی ایک نسل تک محدود نہیں اور نا ہی اس کی افادیت کسی ایک زمانے تک کے لئے ہے۔ اقبال کا موضوع ” ہر دور کا انسان اور بلخصوص نوجوان ہے ۔
پیوستہ رہ شجر سے، امیدِ بہار رکھ!ڈالی گئی جو فصلِ خزاں میں شَجر سے ٹُوٹ
مُمکن نہیں ہری ہو سحابِ بہار سےہے لازوال عہدِ خزاں اُس کے واسطے
کچھ واسطہ نہیں ہے اُسے برگ و بار سےہے تیرے گُلِستاں میں بھی فصلِ خزاں کا دَور
خالی ہے جیبِ گُل زرِ کامل عیار سےجو نغمہزن تھے خَلوتِ اوراق میں طیور
رُخصت ہوئے ترے شجَرِ سایہدار سےشاخِ بُریدہ سے سبق اندوز ہو کہ تُو
ناآشنا ہے قاعدۂ روزگار سےمِلّت کے ساتھ رابطۂ اُستوار رکھ
پیوستہ رہ شجَر سے، امیدِ بہار رکھ!