علم و تعلیم عام فہم میں ایک سادہ سا تصور ہے اور ہر آدمی چاہے اسکا علم و تعلیم سے دور دور کا بھی واسطہ نہ ہو وہ بھی اسکے معنی اور مطلب جاننے کا دعوی کرتا ہے۔ جہاں یہ بات ایک طرف خوش کن ہے وہیں پر پریشان کن بھی ہے کیونکہ اس سے علم کے معنی محدود ہو کر رہ گئے ہیں۔جس کی وجہ سے درس و تدریس کا عمل مطلوبہ نتا ئج نہیں دے رہا۔ میرے خیال میں اسکی بنیادی وجہ علم و تعلیم کا محدود تصور ہے۔ کیونکہ جب تک کسی تصور کے معنی و مطلب پر دسترس نہیں ہو گی اسکا حصول نہ صرف مشکل بلکہ ناممکن ہوگا۔ اس مضمون میں علم کی مختلف جہتوں کی درجہ بندی مشہور ماہر تعلیم بلوم فیلڈ کے تصورات کی روشنی میں کرنے کی کوشش کی گئ ہے اور امید ہے کہ طلبا و اساتذا ان تصورات کی روشنی میں اپنی درس و تدریس کو ڈھالنے کی کوشش کریں گے۔
بلوم فیلڈ نے تعلیم کی درج ذیل تین مختلف جہتیں بیان کی ہیں۔
ان تین مختلف جہتوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ تعلیمی عمل بیک وقت دماغ، دل اور حرکات و سکنات پر ا ثر انداز ہونا چاہیے۔عقلی پہلو سے مراد ہے کہ تعلیمی عمل طلبا کی ذہنی استعداد کار میں بتدریج بڑھوتری کا سبب بنے۔ افیکٹو (حسی) پہلو طلبا کے اندر اقدار و روایات، جذبات و احساسات اور ترجیحات کی بتدریج پختگی کی طرف اشارہ کرتا ہے اور سایکوموٹر (عملی) پہلو طلبا کی حرکات و سکنات اور اپنے علم کی عملی زندگی میں عملداری کا متقاضی ہے۔ اب ہم ان مختلف پہلووں پر تفصیل سے بات کرتے ہیں۔
عقلی پہلو (Cognitive Domain)
اس ضمن میں بلوم عقلی پہلو کی تدریج بڑھوتری کو اس طرح بیان کرتا ہے۔
ذہنی پہلو کی نشونما کے تناظر میں بلوم کہتا ہے کہ تعلیم یا سیکھنے کا عمل یاد کرنا/رٹا لگانے سے شروع ہوتا ہے۔ اور اگر مناسب اور موزوں انداز سے چلتا رہے تو تخلیق کے مرحلے تک جا پہنچتا ہے۔ پہلے مرحلہ پر جو کچھ دیکھا، سنا یا پڑھا ، بالکل اسی طرح ذہن نشین کرلیا جاتاہے۔ اس مرحلہ پر فہم، تجزیہ اور اچھے یا برے، غلط و صحیح کی پہچان نہیں ہوتی۔دوسرے مرحلہ میں سیکھی جانے والی بات کی سمجھ آنا شروع ہوجاتی ہے۔ اور غلط اور صحیح کا ادراک ہونا شروع ہو جاتا ہے۔ تیسرے مرحلہ میں حاصل شدہ علم کو عملی زندگی میں عملداری میں لانے کی صلاحیت پیدا ہوتی ہے۔اس کے بعد تجزیہ کرنے کی صلاحیت پیدا ہوتی ہے۔ تاکہ اپنے علم کی جزیات کو پرکھا جا سکے۔ جزیات کا موازنہ و مقابلہ کرسکے تاکہ وہ حاصل شدہ علم کے تنظیمی ڈھانچے کو اسکے جزیات کی روشنی میں پرکھ سکے۔ پانچواں مرحلہ جانچ اور پرکھ کا ہے۔ اس مرحلہ میں وہ اپنے علم کا اس انداز میں مشاہدہ کرے کہ اسکے منفی و مثبت پہلووں کو دلیل کے ساتھ ثابت کرسکے۔ جانچ ، مواد و نظریات پر منطقی دلیل پیش کرنے کی صلاحیت پیدا کرنے کا مرحلہ ہے۔ ذہنی استعداد کی نشونما کا آخری اور اعلی مرحلہ تخلیق ہے۔ اور یہ ہر قسمی تعلیم کا مقصود ہونا چاہیے۔ اس سے مراد حاصل شدہ علم کی جزیات کی روشنی میں علم و فنون کی نئی راہیں تلاش کرنا ہے اور علم ایک لامتناہی سمندر کی طرح پھیلتا چلا جاتا ہے۔اور علم کے عمل میں یکسانیت اور اکتاہٹ ختم ہو جاتی ہے ۔ علم و فنون کی وسعت کا مدار طالبعلم کی اسی صلاحیت پر منحصر ہے۔
مگر افسوس کہ ہمارا طالبعلم ذہنی نشونما کے پہلے دو مراحل تک ہی بڑی مشکل سے پہنچتا ہے۔ جسکی وجہ سے ہمارے علم کا عملی زندگی سے تعلق نظر نہیں آتا اور نہ ہی ہمارا طالبعلم اسکے کسی جز اور نقٰص پر بات کر سکتا ہے اور نہ ہی کسی تخلیقی عمل کی جسارت کرتا ہے۔
حسی پہلو(Affective Domain)
حسی پہلو کے پہلے مرحلہ میں علم کے طالب میں اس خوبی کا پیدا ہونا ہے کہ اسکے اندر دوسروں سے کچھ سیکھنے کا جذبہ اور لگن پیدا ہو۔ وہ دوسروں کی بات کو توجہ سے سنے اور توجہ مرکوز کرنے کا عادی بنے۔ دوسرا مرحلہ سیکھنے کے عمل میں شراکت کا ہے۔ وہ سیکھنے کے عمل میں حصہ لے، اپنا ردعمل دے اور سیکھنے کے عمل میں ٹیم کا معاون بنے۔ تیسرا مرحلہ سیکھنے کے عمل کی قدومنزلت کو سمجھنے کا ہے۔ انفرادی اور اجتمای اقدارکو سمجھنا اور ان پر مباحثہ کو فروغ دینا ہے تاکہ اقدار کے مثبت و منفی پہلووں کو اجاگر کرنے کی صلاحیت پیدا ہو۔ اگلہ مرحلہ انفرادی و اجتمای اقدار کی تنظیم سازی ہے۔ ان میں اشتراک و مصالحت کے ذریعے اصلاح اور ترکیب کی صلاحیتوں کا پیدا ہونا ہے۔ تاکہ انفرادی و اجتمای اقدار کا حسین امتزاج پیدا ہوسکے۔ حسی نشونما کا آخری مرحلہ اپنے ذاتی اقدار پر تبصرہ و تنقید اور تجزیہ ہے تاکہ اقدار کے اظہار اور پھر عملداری آسان ہو۔ علم کی اس جہت کی نشونما سے معاشرتی رسم و رواج اور روایات کی حقیقت کو سمجھنے اور پرکھنے کی صلاحیت پیدا ہوتی ہے۔
اب اگر حقیقت شناسی کا مظاہرہ کیا جاٰے تو معلوم ہوتا ہے کہ ہمارا طالبعلم حسی اعتبار سے بڑی مشکل سے پہلے سے دوسرا قدم اٹھا پاتا ہے۔ بلکہ یوں کہنا بھی بے جا نہ ہوگا کہ وہ اپنے تعلیمی عمل میں حسی عملداری کو غیر متعلقہ سمجھتا ہے اور پورے تعلیمی عمل میں اقدار کو بے دخل رکھتا ہے۔ جسکا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ اقدار کی نشونما صفر رہتی ہے۔
(فعلی پہلو)ُ Psychomotor Domain
تعلیمی محاصل کے فعلی پہلو کی نشونما کو اس مخروطی شکل سے واضح کیا جا سکتا ہے۔
حرکات و سکنات سیکھنے کا عمل نقالی سے شروع ہوتا ہے اور سیکھنے والا ارد گرد ہونے والی حرکات و سکنات کو دیکھتا ہے، نقل کرتا ہے، دوہراتا ہے اور پیروی کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ جبکہ دوسرے مرحلہ میں سیکھنے والے اس قابل ہوجاتے ہیں کہ وہ بغیر دیکھے محض اپنی یاداشت یا ہدایات کی روشنی میں کسی بھی عمل کو دوہرانے کے قابل ہوجاتے ہیں۔ اگلے مرحلے میں وہ اپنے عمل میں آزاد ہوجاتے ہیں اور بغیر کسی ہدایات اور نگرانی کے، عمل کو ماہرانہ انداز میں کرنے کے قابل ہوجاتے ہیں۔ اس مرحلہ پر وہ موقع کی مناسبت سے اس عمل کو ڈھال بھی لیتے ہیں۔ جبکہ چوتھے مرحلہ میں وہ اس قابل ہوجاتے ہیں کہ بالکل مختلف حالات میں اپنے افعال کو متبادل انداز میں اختیار کرنے کی صلاحیت حاصل کرلیتے ہیں۔ جبکہ آخری مرحلہ سیکھنے والوں میں فطری رجحان کی تشکیل کا ہے۔ سیکھنے والوں میں خودکار، لاشعوری، فطری ماہرانہ اور موقع شناس ردعمل دینے کی قابلیت کا پیدا ہونا ہے۔
حاصل گفتگو یہ ہے کہ تعلیم کا مقصد انسان کی فکر، احساس اور افعال میں بتدریج بڑھوتری ہے تاکہ وہ کامل صلاحیتوں کا مالک بن سکے۔ اسکے اندر تنقید و تحقیق اور برداشت کی صفات پیدا ہوں۔ وہ اپنے علم کی بنیاد پر علم کی مزید راہیں تلاش کرے۔ علم کے جمود کو توڑ سکے ۔ اسکے اندر اعلی معاشرتی اقدار پیدا ہوں اور اقدار و اطوار کے تقابلی موازنہ کرکے اچھے اور برے کی پہچان کر سکے۔ اور اسکی حرکات و سکنات بھی اسکے علم کی عملی شکل ہو۔ صرف اسی صورت ہی تعلیمی عمل سے زیادہ سے زیادہ استعفادہ حاصل کیا جاسکتا ہے۔ لیکن افسوس کہ ہمارا تعلیمی نظام ایسے طالبعلم پیدا کرنے میں بے بس نظر آتا ہے۔ اس کی وجوہات بہت سی ہو سکتی ہیں۔ جن میں تعلیمی پالیسی اور ترجیحات، نصاب، طریقہ تدریس، معلم کی قابلیت و تربیت کا فقدان یا طالبعلم میں اعلی تعلیمی محاصل کے حصول کی تمنا کا فقدان شامل ہیں۔ ان پر بات تو اس مضمون میں ممکن نہیں لیکن انکے سدباب کے جذبہ کی درخواست کی جاسکتی ہے۔ تاکہ متعلقہ حلقے اپنی اپنی ذمہ داریوں کو سمجھیں اور اپنے کردار کو کما حقہ پورا کرنے کی کوشش کریں تاکہ تعلیمی عمل کے بارے بڑھتی ہوی مایوسی اور ناامیدی کو روکا جا سکے۔