بنی گالہ ، گرینڈ حیات ، نسلہ ٹاور اور طارق روڈ مسجد

[pullquote]بنی گالہ ، گرینڈ حیات ، چک شہزاد فارم ہاؤسز ، نسلہ ٹاور اور طارق روڈ مسجد [/pullquote]

دو دن پہلے ایک پوسٹ لکھی جس میں یہ بتانے کی کوشش کی تھی کہ اسلام آباد میں کافی (احباب کے کمنٹس سے پتا چلا کہ اکثر) مساجد سرکاری جگہ / پبلک پلیس پر بنی ہیں ۔ کمنٹس میں احباب نے بنی گالہ ، گرینڈ حیات اور نسلہ ٹاور وغیرہ کا حوالہ دیا تو سوچا ان سبھی موضوعات کا الگ الگ ہونا واضح کر دیا جائے ۔

سب سے پہلے ہم بنی گالہ کی بات کرتے ہیں ۔ سی ڈی اے کا ایک ماسٹر پلان ہے جس کے مطابق اس ادارے نے اسلام آباد کے مختلف زون بنا رکھے ہیں ۔ بنی گالہ اس ترتیب اور تقسیم کے لحاظ سے آبادی والا علاقہ نہیں ہے ۔ سی ڈی اے نے یہ زمین ابھی تک خریدی نہیں اس لیے یہاں ہونے والی تعمیرات کو اسے قانونی طور پر منہدم کرنے کا حق حاصل نہیں ۔ عمران خان ہوں یا کوئی دوسرا شہری وہ اپنی خرید کردہ زمین پر کچھ بھی بنانے کا حق رکھتا ہے ۔ سی ڈی اے نے یہ زمین اپنی پلاننگ کے مطابق رکھنی ہے تو پہلے اسے خریدے پھر یہاں کی تمام تعمیرات کو منہدم کر دے ، ہم سی ڈی اے کے ساتھ کھڑے ہوں گے ۔ فی الحال یہاں کی زمین جن کی ملکیت ہے انہی جو فوقیت حاصل رہے گی اور یہاں ہونی والی تعمیرات قبضے میں شمار نہ ہوں گی ۔

[pullquote]گرینڈ حیات [/pullquote]

گرینڈ حیات سی ڈی اے کا فروخت کردہ پلاٹ ہے ۔ یہاں ہوٹل کی عمارت بننی تھی لیکن مالکان نے سرکاری مشینری سے گٹھ جوڑ کر کے اسے اپارٹمنٹ بلڈنگ میں بدل دیا ۔ یہ سراسر غیر قانونی ہے کہ آپ نے پلاٹ پر تعمیر کا مقصد جو آپ کو خریدنے سے پہلے واضح تھا وہ بدل دیا ۔ سپریم کورٹ کا اسے ریگولرائز کرنا نظریہ ضرورت کا عملی اظہار ہے ۔ ہم ایک قانون پسند شہری ہونے کے ناتے اس بندر بانٹ سے اظہار برات کرتے ہیں اور ہمارا خیال ہے کہ اس عمارت کا بنیادی سٹیٹس بحال ہونا چاہیے ، یاد رہے کہ یہ عمارت بنانے والوں نے پلاٹ قیمت دے کر خریدا ہے البتہ اس کی حیثیت بدل دی ہے سو ہم اسے غیر قانونی تو کہیں گے البتہ یہ قبضہ نہیں کہا جائے گا ۔

[pullquote]چک شہزاد فارم ہاؤسز [/pullquote]

اسلام آباد کی گرینڈ پلاننگ میں چک شہزاد کے علاقے میں فارم ہاؤسز بنائے گئے تھے جن کا بنیادی مقصد اس شہر کے باسیوں کی غذائی ضروریات پوری کرنا تھا ۔ ابتدائی طور پر ڈھائی ایکڑ کے فارم ہاؤس میں ڈھائی ہزار فٹ کورڈ ایریا تعمیر کرنے کی اجازت تھی ۔ جنرل مشرف نے یہاں اپنا فارم ہاؤس بنایا تو سی ڈی اے کے قوانین میں تبدیلی کی گئی اور یہاں جرنیلوں اور دیگر اشرافیہ نے بیس بیس ہزار فٹ کے محل بنا لیے ۔ حسٹس افتخار چودھری نے اپنے دورِ چیف جسٹسی میں اس کے خلاف ایکشن لیا تو اشرافیہ کے ہاتھ پاؤں پھول گئے ۔ خیر چودھری صاحب کے جانے کے بعد یہاں امن و سکون ہے ، فارم ہاؤس شہر کو فیڈ کیا کرتے یہ اشرافیہ کی شان و شوکت کا نشان بن کر رہ گئے ۔ امید بہت کم ہے لیکن اگر سی ڈی اے یہ محلات گرانے نکلے تو ہم قانون پسند شہری ہونے کے ناتے اس کے ساتھ ہوں گے ۔ لیکن یاد رہے کہ یہ فارم ہاؤسز خریدی ہوئی جگہ کا غلط استعمال ہے قبضہ بالکل بھی نہیں

[pullquote]نسلہ ٹاور [/pullquote]

سپریم کورٹ کے ایک حکم کے تحت کراچی میں شاہ راہِ فیصل پر بنایا گیا نسلہ ٹاور گرایا جا رہا ہے ۔ مبینہ طور پر اس عمارت کے بنانے میں نالے کی کچھ زمین یا سروس روڈ کا کچھ حصہ شامل کیا گیا ہے ۔ بنیادی طور پر یہ زمین خرید کردہ ہے ۔ یہاں ہمارا اختلاف اس بات پر ہے کہ ایک عمارت بنائی گئی ، اس کے تمام این او سیز موجود ہیں ۔ اگر اس عمارت کے بنانے میں کچھ بے قاعدگی ہوئی تو سرکاری اداروں میں بیٹھ کر اس کی منظوری دینے والوں سے باز پرس کیوں نہیں کی گئی ۔ اپارٹمنٹ خریدنے والوں نے انہی این او سیز کو دیکھ کر خریداری کی ۔ اس عمارت کو گرانا اور سرکاری عمال کو بچا لینا صریح نا انصافی ہے سو ہم اس کی تائید کرنے سے عاجز ہیں ۔ یاد رہے یہ ٹاور بھی مجموعی طور پر خرید کردہ زمین پر بنایا گیا اور تعمیر سے پہلے اور بعد کے تمام قانونی تقاضے پورے کیے گئے تھے ۔

[pullquote]طارق روڈ مسجد [/pullquote]

ابھی تک جو معلومات میسر آئی ہیں ان کی روشنی میں یہ مسجد ایک ایسی جگہ پر بنائی گئی تو بہر حال خریدی نہیں گئی ، آپ فقہی موشگافیوں سے بالا تر ہو کر سوچیں تو یہ قبضہ ہی شمارا جائے گا ۔ یہاں احباب کے دلائل بڑے ہی دل چسپ ہیں کہ

یہ مسجد کافی قدیم ہے اس لیے اسے نہ گرایا جائے ۔
چوں کہ دیگر ادارے اور کن ٹٹے سرکاری اور غیر سرکاری زمینوں پر قبضے کرتے ہیں اس لیے یہ اجازت مسجد بنانے والوں کو بھی دی جائے ۔
جو زمین ریاست کی ملکیت ہے اس پر قبضہ دراصل قبضہ نہیں ہوتا ۔
سرکاری زمین پر بنائی گئی مسجد نے تمام این او سیز لے رکھے ہیں ( زمین خریدی نہیں البتہ قانونی تقاضے پورے کر لیے ہیں ۔) جو چاہے آپ کا حسنِ کرشمہ ساز کرے ۔
مسجد بنانا ریاست کی ذمہ داری ہے (مندر ، گوردوارہ اور چرچ کون بنائے گا ؟) ریاست نے ذمہ داری پوری نہیں کی سو ہم قبضہ کر کے پوری کیے دیتے ہیں ۔

[pullquote]قصہٕ مختصر [/pullquote]

جاگیر داروں کا زمین پر صدیوں پرانا قبضہ ہو ۔ فوجی افسروں کو زرعی زمینیں بانٹیں جائیں ۔ کوئی ادارہ / محکمہ کسی سڑک کو بند کرے ۔ کوئی بحریہ ٹاؤن لوگوں کی زمینیں زبردستی ہتھیائے یا کوئی مولوی خدا کے نام پر قبضہ کر کے مسجد بنا لے ، ہم ایسے تمام افعال کی مذمت کرتے ہیں اور بغیر کسی جذباتی وابستگی ان سب کی مذمت کرنا اپنا انسانی شرف سمجھتے ہیں ۔ ہر وہ گروہی عصبیت جو آپ کو یا ہمیں کسی کالے کام کی تائید پر مجبور کرے وہ مردود ہے اور مردود رہے گی ۔ خدا کے نام پر بہر حال سرکاری زمین پر قبضہ کرنا ہماری ناقص فہم کے مطابق زیادہ کریہہ عمل ہے ۔

خدا آپ کو اور ہمیں سیدھی اور سچی بات کہنے کی توفیق عطا فرمائے ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے