اسلامی روایت میں مدرسہ اور خانقاہ کو ہمیشہ اہمیت حاصل رہی ہے۔ مدرسہ کا تعلق لوگوں کی تعلیم و تربیت سے جبکہ خانقاۃ کا تعلق لوگوں کے تزکیہ نفس سے رہا ہے ۔ مدرسہ نے آگے بڑھ کر پہلے کلیہ کی اور پھر جامعہ کی شکل اختیار کر لی جس آج کل یونیورسٹی کانام دیاجاتا ہے ۔ چاہیے تو یہ تھا کہ خانقاہی نظام بھی بتدریج آگے بڑھتا لیکن ایسا نہ ہوا اور خانقاہی نظام پر مسلسل جمود آ گیا۔ تاہم یہ ایک حقیقت ہے کہ خانقاہی نظام نے ہمیشہ لوگوں کی زندگیوں میں پاکیزگی لانےمیں اہم کردار ادا کیا۔ خانقاہی نظام میں ہمیشہ لوگوں کے لیے ایک کشش رہی ہے اس لیے کہ لوگوں کو خانقاہ میں جا کر ایک طرح کی اپنائیت محسوس ہوتی رہی ہے ۔
اب مدرسہ ، کلیہ اور جامعہ کی موجودہ شکل نے خانقاہ کے مقابلے میں ایک مستقل حیثیت اختیار کر لی ہے ۔ ماضی میں ایسا نہ تھا۔ پہلے مدرسہ بھی خانقاہ میں ہی ہوتا تھا کلیہ بھی خانقاہ ہی تھی اور جامعہ بھی خانقاہ ہی تھی۔ دو ر وئی کاکوئی تصور نہ تھا۔ یہ جدائی تو انگریزوں کی پیدا کردہ ہے۔
حضرت شاہ ہمدانؒ ، شاہ ولی اللہ ؒ اور برصغیر کی بڑی بڑی شخصیات کا تعلق خانقاہ سے رہا ہے۔ ۱۸۵۷ء میں مسلمانوں کو زوال آیا جس کی زد میں مدارس اور خانقاہیں بھی تباہ و برباد ہو گئیں۔ پورا اجتماعی نظام تلپٹ ہو کر رہ گیا۔ اس ماحول میں سر سید احمد خان کا کردار نمایاں ہو کر سامنےآیا جب انہوں نے مسلمانوں کی بقا و سلامتی کےلیے جدید تعلیم کی وکالت کرتے ہوئے علی گڑھ مسلم کالج کی تحریک شروع کی جو بعد میں مسلم یونیورسٹی پرمنتہج ہوئی اور جس کی کوکھ سے تحریک پاکستان ابھری ۔ سر سید احمد خان ؒ کی تحریک کے ساتھ ساتھ دیو بند کی تحریک نے بھی جنم لیا ۔ اسی اثناء میں مولانا محمد علی مونگیری نے ندوہ العلماء کا قیام عمل میں لایا ۔ ا س کے پیچھے تحریک دیو بند کے بانیان کے مدارس و خانقاہوں کے تحفظ کے جذبات تھے۔ قدیم اور جدید علوم کی آویزش کا یہیں سے آغاز ہوا۔ تاہم مولانا محمد علی جوہر اور حکیم اجمل خان نے جامعہ ملیہ کی بنیاد رکھ کر قدیم اور جدید آویزش کو کم کرنے کی کوشش کی۔
علامہ اقبال ؒ کا تعلق اگرچہ سر سید احمد خانؒ کی تحریک سے تھا اور وہ جدید تعلیم کے زبردست حامی تھے لیکن وہ خانقاہ اور تصوف سے بھی منسلک تھے۔ شاہ ہمدانؒ کو انہوں نے معمار تقدیر امم قرار دیا ، خانقاہ نظام الدین اولیاء کے وہ معتقد تھے ۔ ساتھ ہی سر سید احمد خان ؒ کے معترف و مداح بھی تھے۔ وہ خانقاہی نظام کی خوبیوں کو تسلیم کرتے تھےلیکن اپنے عہد کی خانقاہوں سے مایوس ہو کر انہیں
؎نکل کر خانقاہوں سے ادا کر رسم شبیری —
کا نعرہ مستانہ لگانا پڑا۔ وہ خانقاہی نظام کو سرا سر ڈھانے کے حامی نہیں تھے بلکہ اس میں معاصر تقاضوں کے مطابق تدریجی تبدیلی لانا چاہتے تھے۔ اس سارے پس منظر کا مقصد قارئین کو خانقاہ مجددیہ بگھار شریف، کہوٹہ راولپنڈی کی خدمات سے آگا کرنا اور اس کاخانقاہ کی جانب سے ایک جدید تعلیمی ادارہ کے قیام کے بارے میں بتانا ہے ۔
خانقاہ مجددیہ بگھار شریف کا آغاز حضرت مولانا محمد ہاشمؒ سے ہوا، ان کے بعد اس خانقاہ کو مولانا محمد یعقوب ؒ اور مولاان حبیب اللہ نے آگے بڑھایا ۔ خانقاہ کے ساتھہ ہی ایک مدرسہ — دارالعلوم یعقوبیہ کے نام سے موجود سجادہ نشین اور مولانا محمد یعقوب ؒ کے صاحبزادے ڈاکٹر ساجد الرحمن نے قائم کیا۔ جو اب کالج کا درجہ حاصل کر چکا ہے ۔ ڈاکٹر ساجدالرحمن عرصہ تک ادارہ تحقیقات اسلامی کے سہ ماہی مجلہ ’’ فکر و نظر‘‘ کےمدیر ، دعوہ اکیڈمی کے ڈائریکٹر جنرل اور اسلامی یونیورسٹی کے قائم مقام صدر بھی رہ چکے ہیں۔
ڈاکٹر صاحبزادہ ساجد الرحمٰن کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ انہوں نے اپنے گاؤں میں ایک صدی سے قائم مڈل اسکول کے سیکنڈری اسکول نہ بننے کے باوجود اس کی جگہ دارالعلوم یعقوبیہ کے ذریعے لوگوں کی تعلیمی ضروریات پوری کیں۔
اب ڈاکٹر صاحبزادہ ساجد الرحمن نے خانقاہی نظام کے اندر رہتے ہوئے ایک جست اور لگائی اور وہ کہوٹہ میں لاء کالج کا قیام ہے ۔ ظاہر ہے لاء کالج کا تصور معاصر تعلیم سے وابستہ ہے لیکن ساتھ ہی صاحبزادہ ساجد الرحمٰن نے اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ وہ لاء کالج کو قدیم روایات سےبھی ہم آہنگ رکھیں گے ۔ مثال کے طور پر کالج مین مخلوط تعلیم ہو گی لیکن دونوں اصناف کے درمیان پردہ حائل رہے گا۔ انہوں نے اخلاقی اقدار کے فروغ کا بھی وعدہ کیا ہے ۔ کالج کی افتتاحی تقریب کا مرکزی خیال بھی اسی کے گرد گھوم رہا تھا۔ مہمان خصوصی جسٹس(ر) سید منظور حسین گیلانی (آزاد کشمیر ہائی کورٹ) نےکہا کہ آج کل تعلیمی ادارے معلومات تو دے رہے ہیں لیکن اخلاقی اقدار کی کمی ہے ۔
راجہ محمد ظفر الحق جو کالج کے سر پرست اعلیٰ ہیں ان کا کہنا تھا کہ وکیل کو مظلوم کی داد رسی کا ضامن بننا چاہیے۔ اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین ڈاکٹر قبلہ ایاز نے کہا کہ تعلیم ، مہارت اور اخلاقی روایات کا چولی دامن کا ساتھ ہے ۔ کالج کے انتظامی سربراہ صاحبزادہ عزیز ہاشم نے بتایا کہ یہ کالج ان کے والد کا ایک خواب ہے اور پورے علاقے کو قانون کے دائرے میں زندگی گزارنے کی تربیت دے گا۔ امید ہے کہ کہوٹہ لاء کالج قدیم خانقاہی نظام تعلیم اور جدید تعلیم کے مابین ایک پل کا کام دے گا۔ بلاشبہ کہوٹہ لاء کالج طلبہ و طالبات سے تعلیم کی قیمت وصول کرے گا لیکن ساتھ ہی وہ انہیں بہترین اقدار کا حامل وکیل یا جج بھی بنائے گا۔