دنیا کی تمام شرائط پوری کر دی ہیں ، اب دنیا ہمیں تسلیم کرے تاکہ افغانستان معاشی المیے سے نکل سکے: افغان وزیراعظم ملا حسن

افغانسستان میں فائنانس منسٹری کی جانب سے افغانستان اقتصاد کانفرنس کا انعقاد کیا گیا . کانفرنس میں انسانی امداد اور ترقیاتی امداد،خصوصی سیکٹر اور علاقائی تعاون، افغان سرمایہ کاری سیکٹر اور زراعت و کان کنی سیکٹر جیسے امور پر تبادلہ خیال کیا گیا . افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم ملاحسن نے کہا کہ ہم نے امداد اپنےلیے یا اپنی حکومت کے لیے نہیں مانگی۔ انہوں نے کہا کہ بیرونی دنیا کی جانب سے تسلیم کیے جانے کے لیے تمام شرائط پوری کردی ہیں۔ امن کا قیام اور کرپشن کا خاتمہ کرچکے ہیں. انہوں نے کہا کہ افغانستان میں سرمایہ کاری کے لیے ماحول پوری طرح سازگار ہے۔ ملاحسن نے کہا کہ جو طاقتیں انسانی حقوق کے تحفظ کے دعویدار ہیں انہی کی پابندیوں سے افغان عوام معاشی مشکلات کا شکار ہیں۔

اس موقع پر افغانستان کے نائب وزیر اعظم عبدالسلام حنفی، نائب وزیر اعظم اول ملا عبدالغنی برادر، افغانستان کے لیے اقوام متحدہ کے نمائندے دیبورا لیونز، وزیر خارجہ امیر خان متقی، وزیر خزانہ مولوی ہدایت اللہ سمیت دیگر شخصیات نے بھی خطاب کیا .

وزیر اعظم نے کہا کہ ہمیں مل کر ایسے ذرائع تلاش کرنے چاہییں جو ہمیشہ کے لیے عوام کے مسائل کا حل کرے۔انہوں نے کہا کہ عارضی امداد سے عوام کے مسائل نہیں ہوں گے۔ اقتصادی پروگرام صحیح طریقے سے چلائے جائیں تو بہت جلد مسائل سے نکل جائیں گے۔انہوں نے کہا کہ اگر ہم مل کر تعاون کریں، یہ مسائل خود بخود ختم ہوجائیں گے۔وزیراعظم کا کہنا تھا کہ سابقہ انتظامیہ میں چوری، کرپشن اور بدامنی سب کچھ تھا مگر اسے تسلیم بھی کیا گیا تھا اور اس کی مدد بھی کی جارہی تھی۔ اب ان سارے مسائل کا خاتمہ ہوچکا ہے مگر پھر بھی کہا جارہا ہے کہ سرمایہ کاری کے لیے حالات ٹھیک نہیں ہیں۔انہوں نے کہا کہ پوری دنیا ایک قدم اٹھائے اور افغانستان کو تسلیم کرکے اس مسئلے کا خاتمہ کردے۔

افغانستان میں اقتصادی کانفرنس سے وزیر اعظم ملاحسن،نائب وزیر اعظم عبدالسلام حنفی،افغانستان میں اقوام متحدہ کے نمائندے دیبورا لیونز ، وزیر خارجہ امیر خان متقی، فائنانس وزیر مولوی ہدایت اللہ، نائب وزیر اعظم اول ملا عبدالغنی برادر سمیت دیگر رہ نماؤں نے خطاب کیا۔

مولوی عبدالسلام حنفی نے کہا کہ ہر تبدیلی کے ساتھ کچھ مواقع بھی میسر آتے ہیں۔ ہمارا عزم ہے مواقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے معیشت مضبوط کرکے ملک کو پاوں پر کھڑا کردیں گے۔ ہمیں وہ تعاون نہیں چاہیے جس میں ہمارے اقتصادی نظام کی خود مختاری نہ ہو۔ ہم چاہتے ہیں امداد میں پوری طرح دخیل اور اس کی منصفانہ تقسیم کریں۔انہو‌ ں نے کہا کہ افغانستان کا سابقہ بیس سالہ نظام بیرونی امداد پر قائم تھا۔ جو امداد کے خاتمے سے زمین بوس ہوگیا۔ انہوں نے کہا کہ بیس سالوں میں کابل انتظامیہ کو دی جانے والی امداد مشروط اور سیاسی تھی۔ کچھ امداد اتحادیوں کے انخلاء کے ساتھ بیرون منتقل کردی گئی۔

انہوں نے کہا کہ ہم ایسی معیشت نہیں بنائیں گے جو بیرونی امداد پر قائم ہو بلکہ ہم عالمی دنیا کے ساتھ چل کر اپنے منصوبے دوبارہ شروع کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ افغانستان ہمیشہ کے لیے امداد پر انحصار نہیں کرسکتا۔ہماری معیشت ایسی ہو کہ جو ملک کی داخلی پیش رفت پر قائم اور خود پر انحصار کرے۔انہوں نے کہا کہ ایک عادلانہ اور ترقی یافتہ معیشت کے لیے جو چیزیں ضروری ہیں، وہ ہم نے قائم کر دی ہیں . امن، جو کہ اب پورے افغانستان میں مکمل طور پر قائم ہے۔ کرپشن کا خاتمہ کر دیا گیا ہے . بڑی اور حد سے بڑھ کر مقرر کردہ تنخواہوں کا امارت اسلامیہ نے خاتمہ کر کے متوازن تنخواہوں کا نظام قائم کردیا ہے۔معاشرے میں اسلامی اور عادلانہ نظام کا قیام فروغ دیا جا رہا ہے ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے