یہ عذیر احمد کون ہے؟

کیا آپ عذیر احمد کو جانتے ہیں، اگر نہیں جانتے تو پھر کیا جانتے ہیں؟ آپ کو اپنا جنرل نالج امپروو کرنا چاہیے۔ عذیر ایک درمیانے درجے کی کاروباری شخصیت ہے، گڑھی شاہو لاہور میں اس کی جوس کی شاپ ہے اور ’’کل عالم‘‘ میں اس کا نام ہے، ابھی گزشتہ دنوں وائس آف جرمنی نے اس پر ایک مختصر سی ڈاکومنٹری بنائی۔ عذیر درمیانے درجے کا شاعر بھی ہے، بہت سادہ طبیعت، کئی کئی دن شیو نہیں کرتا، بغیر استری کے کپڑے پہنتا ہے مگر دنیا بھر کے برانڈڈ پرفیومز، ڈریسز، شوز غرضیکہ ہر اس چیز کے بارے میں مکمل معلومات رکھتا ہے جو وہ خود استعمال نہیں کرتا۔ عذیر کی تعلیم واجبی سی ہے، مگر ’’پرلے درجے‘‘ کا ذہین ہے۔ اس میں سیکھنے کی صلاحیت بہت زیادہ ہے۔ اس میں خود اعتمادی اتنی زیادہ ہے کہ یو این او کے اجلاس میں تقریر کرنے سے بھی نہیں چُوکے گا۔ وہ ہر بیرونی اور اندرونی سفر میں میرے ساتھ ہوتا ہے، اس سے بہتر سفروحضر کا ساتھی مشکل ہی سے ملے گا۔ یورپ میں امیگریشن کے دوران اگر مجھے کائونٹر پرسن کی کوئی بات سمجھ نہ آئے تو مجھے عذیر کی مدد لینا پڑتی ہے جو انگریزی اتنی ہی جانتا ہے جتنی امریکی صدر اردو جانتا ہے۔ لندن میں احسان شاہد ہمارا میزبان ہوتا ہے۔

ایک بار میں عذیر کے بغیر لندن گیا، ایئر پورٹ پر حسبِ معمول احسان شاہد ’’وصول‘‘ کرنے کے لیے پہنچا ہوا تھا، اسے علم تھا کہ عذیر اپنی بعض مصروفیات کی وجہ سے اس بار میرے ساتھ نہیں ہوگا مگر اس ستم ظریف نے جو اردو میں کم اور انگریزی میں زیادہ بات کرتا ہے، پریشانی کے عالم میں مجھے مخاطب کیا اور کہا ’’عذیر تو ساتھ نہیں، اب اگر کہیں انگریزی بولنا پڑی تو کیا بنے گا؟‘‘

میں نے عذیر سے زیادہ صابر شاکر شخص کم کم ہی دیکھا ہے۔ ہر وقت اللہ کا شکر ادا کرتا رہتا ہے بلکہ ’’اللہ تیرا شکر ہے‘‘ کا جملہ اس کا روزمرہ کا معمول بن کر رہ گیا ہے۔ بیٹھے بیٹھے اچانک کہے گا ’’اللہ تیرا شکر ہے‘‘۔ ایک بار عذیر میرے ساتھ ایک فوتیدگی میں گیا، جنازہ اٹھا تو ایک آواز آئی ’’اللہ تیرا شکر ہے‘‘، ظاہر ہے اس موقع پر بھی عذیر کے علاوہ شکرانِ نعمت کرنے والا اور کون ہو سکتا تھا۔ عذیر دوستوں اور ان اجنبیوں سے بھی ٹوٹ کر محبت کرتا ہے جو اسے اچھے لگتے ہوں۔ چنانچہ دوسرے بھی بہت جلد اس کی محبت کے اسیر ہو جاتے ہیں۔ اس سے محبت کرنے والوں میں مجیب الرحمٰن شامی، حامد میر اور متعدد دوسری ممتاز شخصیات کے علاوہ میاں نواز شریف بھی شامل ہیں۔ ایک دفعہ مجھے میاں صاحب سے ملاقات کرنا تھی، انہوں نے کہا آئیں تو عذیر احمد کو بھی ساتھ لیتے آئیں۔ میرے عمر بیٹے کے ولیمے میں میر شکیل الرحمٰن بھی شریک تھے۔ عذیر نے ان کی میز پر ڈیوٹی سنبھالی، جہاں مجید نظامی اور دوسرے وی آئی پیز تھے۔ دو سال بعد دبئی میں ملاقات ہوئی تو بولے ’’آپ کے اس دوست کا کیا حال ہے جس کے اصرار کی وجہ سے اس دن میں نے بہت زیادہ کھانا کھایا تھا‘‘۔ عذیر پر یقین جانیں ایک پوری کتاب لکھی جا سکتی ہے۔ گھر میں کار کھڑی ہے مگر اس نے موٹر سائیکل کے لیے ڈرائیور رکھا ہوا ہے جو بہت ڈیوٹی فل اور نفیس انسان ہے۔ اور ہاں عذیر پر وہ انگریزی محاورہ پوری طرح فِٹ بیٹھتا ہے جس کے الفاظ PENNY WISE POUND FOOLISH(اشرفیاں لٹیں، کوئلوں پر) ہیں، لٹانے پر آ جائے تو لاکھوں لٹا دے، کنجوسی پر اترے تو ایک آنہ خرچ نہ کرے۔ عذیر کی ایک قابلِ قدر مگر درد ناک بات یہ ہے کہ اسے اپنے رشتے داروں سے عشق ہے اور درد ناک ایسے کہ ان میں سے دو قریبی ترین عزیز اسے کروڑوں کا چونا لگا کر فرار ہو چکے ہیں۔

ایک اور بات میں نے عذیر احمد سے زیادہ وسیع المشرب انسان بھی زندگی میں بہت زیادہ نہیں دیکھے۔ اس کی نظروں میں سنی، شیعہ، دیوبندی، بریلوی، اہلِ حدیث سب ایک سے مسلمان ہیں۔ وہ جمعہ باقاعدگی سے پڑھتا ہے اور ان میں سے کسی بھی مسلک کی جو مسجد قریب پڑے وہاں جمعہ کی ادائیگی کے لیے چلا جاتا ہے۔ پیرس کی ایک مجلس عزا میں تو اس نے مجلس بھی پڑھی تھی، جس پر بہت کم لوگوں نے گریہ زاری کی ہوگی بلکہ بڑی مشکل سے انہوں نے اپنے چہرے پر سنجیدگی طاری کی ہوگی۔ پیرس ہی سے یاد آیا، ایک ریستوران میں ہم بیٹھے کافی پی رہے تھے، فرانس اور جرمنی کے درمیان کوئی میچ ٹی وی پر چل رہا تھا اور سب لوگ محویت کے عالم میں دیکھ رہے تھے، ریستوران میں فرانسیسی زیادہ تھے، چنانچہ جب ان کا کھلاڑی اچھی شاٹ لگاتا تو ریستوران ’’واہ واہ سبحان اللہ‘‘ کے نعروں سے گونج اٹھتا اور ان میں سب سے بلند آواز عذیر کی ہوتی مگر آخر میں فرانس ہار گیا، جس پر ریستوران میں بیٹھے لوگوں پر مردنی چھا گئی، میں نے اپنے بائیں جانب دیکھا تو عذیر غائب تھا، مجھے باہر سے کچھ شور شرابا سنائی دیا تو میں باہر گیا، پتہ چلا کہ جرمنی کے جو سیاح پیرس آئے ہوئے تھے انہوں نے اپنی جیت کی خوشی میں جلوس نکالا ہوا تھا اور میں نے دیکھا کہ عذیر سب سے آگے بھنگڑا ڈال رہا تھا اور خوشی سے نعرے لگا رہا تھا۔

عذیر کے بارے میں یہ ایک ادھوری تحریر ہے کہ کالم کی ایک SPACEمخصوص ہے۔ آخر میں صرف یہ کہ عذیر کے اہلِ خاندان کو حافظ صاحب کہہ کر پکارا جاتا ہے چنانچہ عذیر احمد کو بھی حافظ صاحب کہہ کر پکارا جاتا ہے۔ تاہم آپ کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ عذیر حافظ وافظ کوئی نہیں ہے۔ بس عذیر ہے اور عذیر کا جواب نہیں۔

بشکریہ جنگ

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے