پرامن معاشرے کی تشکیل میں کئی عناصر کا حصہ ہوتا ہے،پرامن معاشرے کی تشکیل میں لکھاریوں اور صحافیوں کا بڑا اہم کردار ہے ۔ آج کا دور جدید میڈیا اور ٹیکنالوجی کا دور ہے دنیا سمٹ کر گلوبل ویلیج بن گئی ہے ۔ جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے عام انسان معلومات کی رسائی کے حصول میں مصروف عمل ہے ۔ بدقسمتی سے ہمارے ملک میں جہالت ، تعلیم کی کمی ، روزگار کے مواقع نہ ملنے اور ترقی کے مساوی ماحول کی صورت حال نے معاشرے میں ہر فرد کو بے سکونی ، انتشار اور اضطراب میں مبتلا کر رکھاہے یہی وجوہات ہیں جن کی بناءپر وطن عزیز میں انتہا پسندی ، پرتشدد حالات ، تصادم اور علاقائی ، نسلی ، قومی تعصبات نے بنی نوع انسان کو گھیر رکھا ہے ۔ معاشرے میں اعتدال کی کمی کے باعث چھوٹی چھوٹی باتوں پر تلخ کلامی اور لڑائی جھگڑے کے اکثر واقعات دیکھنے کو ملتے ہیں ۔ جن میں آزادانہ اسلحہ کا بے دریغ استعمال نظر آتا ہے ۔ عدم برداشت کے باعث معاشرہ کئی مسائل کا شکار ہوتا چلا جارہا ہے ۔ اندرونی اور بیرونی عوام اور سازشیں اس کے اضافے کا ایک سبب بھی ہیں ۔ ان ہی عوام کے زیر اثر سیکڑوں افراد جائیداد، تناز عات، مذہبی فسادات، شورش اور تصادم کے نقصان اٹھاتے ہیں ۔
معاشرے میں ان تمام عوامل کو ختم کرنے میں لکھاری اورصحافی موثرکردارادا کرسکتے ہیں۔ خاص طور پر الیکٹرانک میڈیا، پرنٹ میڈیا اورسوشل میڈیا پر بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ پرامن معاشرے کی تشکیل میں رہنمائی کا فریضہ انجام دیں اور قوم کو صحیح سمت میں گائیڈ لائن فراہم کریں۔ صحافی اورلکھاری اپنے کردار، حسن سلوک، تحریر و تقریر، آرٹیکلزاورمثبت خبروں کے ذریعے معاشرے میں پرامن ماحول فراہم کرسکتے ہیں ۔ بدقسمتی سے میڈیا نے ذمہ داری سے اپناکردار ادا نہیں کیا جس کے نتیجے میں معاشرے میں وہ اثرات مرتب نہیں ہوسکے جن کی ان سے توقعات وابستہ تھیں ۔خصوصاً الیکٹرانک میڈیا نے غیر ذمہ داری کا ثبوت دیتے ہوئے معاشرے میں عدم برداشت کو پروان چڑھایا تشدد پر لوگوں کو اکسایا ۔
پر امن معاشرے کیلئے ضروری ہے کہ قانون کا احترام کیا جائے ۔ کسی بھی واقعے پر کسی فرد کو قانون ہاتھ میں لینے یا سزا دینے کا قطعاً کوئی اختیار نہیں ہے ۔ صرف ریاست یا عدالتوں کو سزا دینے کا اختیار حاصل ہے ۔صحافیوں اور لکھاریوں کے ساتھ ساتھ سوشل میڈیا استعمال کرنے والوں پربھی بڑی ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں۔ سوشل میڈیا میں بغیرتصدیق اورمعلومات کی خبریں پھیلا کرمعاشرے میں بدامنی، انتشار اورلاقانونیت کی فضا پیدا کی جاتی ہے۔ جس کے نتیجے میں تنازعات اورفسادات پیدا ہوتے ہیں اور معاشرے میں امن کو شدید خطرات لاحق ہوجاتے ہیں۔ وطن عزیز پاکستان میں امن کو چند گروہوں کی وجہ سے شدید خطرات کا سامنا ہے جس سے بلواسطہ اور بلاواسطہ امن متاثر ہوتا ہے۔ پاکستان میں بسنے والے تمام شہریوں کے درمیان مذہبی ہم آہنگی کا فقدان پیدا ہوتا ہے اوران میں ایک خلیج وسیع ہوجاتی ہے۔
معاشرے میں امن ہوگا، قانون کی بالادستی ہوگی تو قوم ترقی کرے گی،معیشت مضبوط ہوگی، روزگار کے مواقع پیدا ہونگے، تعلیم کے دروازے عام انسان پر کھلیں گے، اسکولز، کالجزاوریونیورسٹیوں کا قیام عمل میں آئے گا ۔ ترقی کے ثمرات عام شہری تک پہنچیں گے، وسائل کی فراہمی سے مجموعی طور پر معاشرہ ترقی کرے گا۔ عالمی دوستوں کی تعداد بڑھے گی، بین الاقوامی فورمز پر پاکستان کا وقار بلند ہوگا۔ پاکستان میں بسنے والی تمام اقلیتیں امن و سکون کے ساتھ اکثریت کے ساتھ ملکر ترقی کے عمل میں شریک ہونگیں۔ بین المذاہب ومسالک ہم آہنگی فروغ پائے گی جس سے ملک پر صحت مندانہ اثرات مرتب ہونگے۔پاکستان علاقائی تنازعات کا شکار ہے۔ عدم برداشت نےمعاشرے کو اندرسے کھوکھلا کررکھا ہے۔ ہمیں چاہیئےکہ آپس میں محبت ، اخوت اور رواداری کو فروغ دیں ،صبراور تحمل سے حقائق کا جائزہ لیں، کسی بھی عمل پر فوری ردعمل سے گریز کریں ،معمولی تنازعات اور گروہی اختلافات کو لڑائی جھگڑے کی بجائے مکالمے کی صورت میں ختم کریں ۔