کسی بھی ملک کی تعمیر و ترقی میں امن و امان کلیدی اہمیت کا حامل ہے اسی لئے آج پوری دنیا امن وسکون کی تلاش میں ہے ۔ بد قسمتی سے وطن عزیز گذشتہ کئی عشروں سے متعدد اقسام کے سیاسی، سماجی ،فرقہ وارانہ ،صنفی اورصوبائی و لسانی مسائل اور بد امنی کا شکار ہے جوکہ نہ صرف ساری دنیا میں اس سر زمین پاک کی بدنامی کا سبب ہے بلکہ اس عفریت کی وجہ سے قومی خوشحالی کی رفتار نہایت سست روی کا شکار ہے جس کے نتیجے میں بیشترپاکستانی غربت کی لکیر سے نچلی سطح پر زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔
ہرگزرتا لمحہ دہشت گردی،مذہبی عدم برداشت،فرقہ واریت، اور ظلم و تشدد کا پیغام لے کر آ رہا ہے اور باوجود ہزارہا کوششوں کہ اس عفریت پر قابو پانا مشکل ہو رہا ہے ۔ا مذہبی قائدین اگر تہیہ کرلیں کہ وہ آپس کے اختلافات کو قومی مفاد کی خاطر پس پشت ڈالیں گے تو ایک پرامن معاشرے کی تشکیل میں دنیا کی کوئی طاقت ہمیں نہیں روک پائے گی، مذہبی قائدین کے پاس اس وقت ایک بہت بڑا پلیٹ فارم منبر و محراب کی صورت میں موجود ہے،جہاں سے وہ اس ملک کے شہریوں کی درست رہنمائی کرسکتے ہیں، اس لئیے اخلاقی اورشرعی تقاضہ یہی ہے کہ اس کا صحیح استعمال ہو۔
مذہبی ہم آہنگی سےمعاشرے پرمثبت اثرات مرتب ہوتےہیں ۔ مذہبی ہم آہنگی ایک دُوسرے کے آمنے سامنے بیٹھنے، غوروفکر کرنے، مؤثر انداز میں سننے اور ایک دُوسرے تک رسائی حاصل کرنے سے پیدا ہوتی ہے۔ باہمی افہام و تفہیم کی نقشہ سازی پہلے نہیں کی جاسکتی۔ یہ ایک سفر ہے جو دلچسپ بھی ہے اور حیران کن بھی۔ اس راستے پر ہم سامنے آنے والے حقائق کو خوش آمدید بھی کہہ سکتے ہیں اور رد بھی کرسکتے ہیں۔ ہم اپنی صلاحیتوں کی وسعت اور حُدود سے آشنا ہوکر بین المذاہب ومسالک تعلقات میں بہتری لاسکتے ہیں،بیشتر مذہبی قائدین معاشرے کی اصلاح کیلئے امن کا درس دیتے چلے آرہے ہیں،کیونکہ پرامن معاشرہ بنانے کیلئے اصل کردار مذہبی قائدین کا ہوتا ہے ۔
اچھے مذہبی قائدین اور کمیونٹی لیڈر معاشرے کو مل جائیں تو بلاشبہ معاشرہ پرامن بن سکتا ہے ،اگر ان صفات کا حامل شخص مذہبی قائد یا کمیونٹی لیڈر ہوگا تو وہ لازمی طورپر معاشرے کی اکائیوں یعنی مسلم ، غیر مسلم ، چھوٹے ، بڑے ہر مذہب ومسلک کے شخص کیلئے یکساں رویہ اپنائے گا اور خراب صورتحال پر بھی کنٹرول کرتے ہوئے معاشرے کو پرامن بنائے گا اور معاشرہ پرامن ہو گا تو ملک پرامن ہوگا۔