فکشن: ہجرتوں کی سرزمین

جس زمانے میں، میں ابھی طالب علم اور زیرتربیت صحافی تھا تو انگریزی زبان کے جس ایک مصنف کو اخبارات میں باقاعدگی سے پڑھا کرتا تھا وہ محمد عامررانا تھے۔ میری دلچسپی کے موضوعات بھی وہی تھے جو ان کی تحریروں کے عمومی موضوع ہوتے ہیں اس لیے میرے دل میں ان کی تحریروں کے لئے دلچسپی ہمیشہ سے موجود تھی۔

عامر رانا کی صحافتی تحریرو تحقیق کے موضوعات سیکورٹی سے متعلقہ امور ہیں۔ ڈان کے لیے لکھی گئی ان کی تحریروں میں، وہ عام طور پر انتہا پسندی، فرقہ واریت، سلامتی، انسداد دہشت گردی اور سیاست وغیرہ پر لکھا کرتے ہیں۔ ایسے موضوعات کی سنجیدگی کو ذہن میں رکھتے ہوئے، کوئی شخص بھی یہی سوچے گا کہ وہ کوئی بہت زندہ دل مصنف نہیں ہوں گے بلکہ ایک بہت سنجیدہ سےانسان ہوں گے۔ جس کی تحریریں عمدہ ہیں اور ہمیں شدت پسندی کے انتشار میں مبتلا کرنے والے خطرات کے بارے میں اکثر آگاہ کرتی ہیں۔

اس لیے جب میں پہلی بار اُن سے ملا تو میں نے اس بات کو یقینی بنایا کہ میرے ہنستے مسکراتے چہرے پر انتہائی سنجیدگی کا اظہار ہو، تاکہ میری ان سے ملاقات اچھی رہے۔ اپنے ذہن میں، میں نے رانا کو ایک غصیلا، سرد مہر سا آدمی سمجھ رکھا تھا اور میں ان کے غصے کا خطرہ مول نہیں لینا چاہتا تھا۔ لیکن، میرے لئے حیرت کی بات یہ ہے کہ وہ بالکل مختلف نکلے . ایک عظیم کہانی کار، ادب میں متنوع ذوق رکھنے والا، اور بے حد مہمان نواز۔

اس طرح ان لوگوں کو بھی حیرانی ہی ہو سکتی ہے جو محض ان کے نام سے واقف ہیں وہ یہ کہ قومی سلامتی سے متعلق موضوعات پر اخباری مضامین اور کتابوں کے علاوہ، رانا صاحب افسانے بھی لکھتے ہیں۔ ان کا پہلا کام مختصر کہانیوں کا مجموعہ تھا جو 2002 میں شائع ہوا، ادھوری محبتیں اور پوری کہانیاں۔ان کا پہلا ناول، سائے سال 2016 میں سامنے آیا۔ ان کا تازہ ترین ناول میر جان ہے۔

میر جان ہجرت کے بارے میں ہے. ایک ایسا موضوع جو برصغیر کی تقسیم کے بعد لوگوں کے ذہنوں میں گہرا پیوست ہے۔ دنیا کے اس حصے میں، سرحد کے دونوں طرف، ہم میں سے بہت سے لوگ ابھی تک اس صدمے کو نہیں سمجھ سکے ہیں جس نے تقریباً 75 سال پہلے لوگوں کی زندگیوں میں ہلچل مچا دی تھی۔

لیکن عامر رانا کا ناول 1947 میں اس بڑے پیمانے پر ہوئی اتھل پتھل پر صرف سرسری روشنی ڈالتا ہے۔ یہ ناول محض اس ایک ہجرت کی بجائے، ایک وسیع تناظر میں اس تصور پر بحث کرتا ہے۔ اگر کتاب کا خلاصہ ایک جملے میں کیا جائے تو رانا صاحب نے ایک ’ہجرت کی سرزمین‘ بنائی ہے، جہاں اس کے ساتوں اہم کردار مسلسل ’ہجرت‘ میں رہتے ہیں۔

دیگر مقامی لوگوں کے ساتھ ساتھ، کہانی بنیادی طور پر بلوچستان میں ترتیب دی گئی ہے، ایک ایسا خطہ جہاں ہجرت ایک پرانا رجحان ہے۔ درحقیقت یہ بلوچ سرزمین میں اس قدر پیوست ہے کہ کہا جاتا ہے کہ ملک کے دیگر صوبوں میں رہنے والے بلوچوں کی تعداد، دوسرے پڑوسی ممالک کو تو چھوڑ ہی دیں، خود بلوچستان میں رہنے والے بلوچوں سے زیادہ ہیں۔

پاکستان کے اندر منتقل ہونے کے ساتھ ساتھ مقامی بلوچ بھی طویل عرصے سے مکران کے ساحل سے افریقی ممالک میں ہجرت کر چکے ہیں . بلوچ مصنف یار جان بادینی نے اپنی کتاب "افریقہ کے بلوچ ” میں اس پر بحث کی ہے۔ افریقی ممالک کے لوگ اسی طرح پاکستان کے جنوب مغربی ساحلوں پر آئے ہیں۔ یہی مخصوص ہجرتیں رانا صاحب کے ناول میں مرکزی حیثیت رکھتی ہیں۔

یہ کہے بغیر کہ، اگرچہ مقصد اکثر بہتر زندگی کی تلاش ہوتا ہے، لیکن ہجرت اپنے معاشی، سماجی اور دیگر مسائل کو جنم دیتی ہے۔ کبھی کبھی، یہ ایک انتخاب نہیں ہے. رانا صاحب ان پریشانیوں کو اپنے عنوان میر جان کی مصیبتوں کے ذریعے روشن کرنے کی کوشش کرتے ہے، ایک ایسی عورت جو مختلف سیاسی اور سماجی وجوہات کی وجہ سے اپنی زندگی میں مسلسل ہجرتوں پر مجبور ہے۔

ممباسا، کینیا میں پیدا ہونے والی، ایک نوجوان میر جان کو ایک قالین بیچنے والے نے اغوا کر لیا جو سیاسی بحران کے دوران اپنے والد کو بلیک میل کرنا چاہتا ہے۔ جب اس کے والد برطانوی فوج کے ساتھ ایک مقابلے میں مارے جاتے ہیں، تو میر جان خود کو مسقط، عمان میں پاتی ہے۔ وہاں اسے ایک تاجر کو بیچ دیا جاتا ہے جو اسے گوادر لے آتا ہے۔ گل بی بی نامی ماہی گیر خاتون کی دیکھ بھال میں پرورش پاتے ہوئے، واقعات کا ایک اور سلسلہ میر جان کو جنوبی پنجاب لے آتا ہے، جہاں دریا کے کنارے پر واقع ایک علاقہ بالآخر اس کا نام اپنا لیتا ہے۔

کہانی کا ایک بہت ہی دلچسپ تانا بانا شاد کے گرد گھومتا ہے، ایک رقاص جو چھوٹی موٹی نوکری کی تلاش میں مسقط جاتا ہے۔ بلوچستان میں گوادر اور مسقط کے درمیان طویل عرصے سے تاریخی اور سیاسی روابط رہے ہیں –

گوادر، جسے بلوچی زبان میں "جھکڑوں کا دروازہ ” کہا جاتا ہے، 18ویں صدی میں عمان کے سلطانوں کے ہاتھوں میں چلا گیا تھا، قیام پاکستان کے بعد اس وقت کے وزیر اعظم فیروز خان نون کی حکومت نے اومان کے سلطان سے 5.5 ارب روپے میں گوادر خریدنے کے لیے معاہدہ کیا۔

اس باب میں عامر رانا سندھی سندھباد کی کہانی کے ساتھ ماحول ترتیب دیتے ہیں۔ اپنے نام میں لفظ "سندھی” کے باوجود، رانا صاحب نے واضح کیا کہ سندباد کے والد کا تعلق گوادر سے تھا اور ان کی والدہ افریقی تھیں، جن کا تعلق ممباسا سے تھا۔ قبائلی تنازعات میں اس کے والد کے مارے جانے کے بعد، سندباد نے عمانی فوج میں شمولیت اختیار کی اور عمانی فوجیوں کو تربیت دینے والے انگریز افسر نے اسے عزت کی نگاہ سے دیکھا۔

پھر سندباد نے فوج کے خلاف بغاوت کی اور قزاق بن گیا، ایسا قزاق جو اپنے لوٹے ہوئے بحری جہازوں سے مال غنیمت غریبوں میں تقسیم کرتا تھا۔

شاد کو اس کہانی میں گہری دلچسپی ہے۔ کریدنے پر حسن نام کا ایک نابینا کہانی کار ملتا ہے، جس کے والد ممباسا سے تھے اور سندھباد کے عملے کا رکن تھے۔ لیکن حسن سندھباد کو ’بحری قزاق‘ کے منفی مفہوم میں تسلیم نہیں کرتا۔ اس کا دعویٰ ہے کہ اس مشہور بحری قزاق نے انگریزی بحریہ کے صرف اسی جہاز کو لوٹا جس پر یہ شُبہ تھا کہ اس پر بم لدے ہوئے ہیں۔

خوبصورت، ہنر مندی سے تیار کی گئی اس اردو کہانی میں، رانا صاحب نے ایک ایسی تصویر پینٹ کی ہے جو زندگی کے لیے سچی ہے، ایک ایسی عورت کے جسمانی اور ذہنی سفر کو بیان کرتی ہے جس نے اپنی پوری زندگی جگہ جگہ گھومتے پھرتے گزار دی، لیکن کبھی کوئی ایسی جگہ نہیں ملی جسے وہ اپنا گھر پُکارے۔ جسمانی طور پر جنوبی پنجاب میں اور ذہنی طور پر ممباسا میں، وہ ہمیشہ کے لیے اپنی جڑوں سے اکھڑی ہوئی مہاجر ہے۔

مصنف کے تخیل کی رسائی وسیب، سکھر، گوادر، مسقط اور ممباسا تک پھیلی ہوئی ہے کیونکہ وہ اس بات کا کھوج لگانا چاہتا ہے کہ برصغیر کی ہر ہجرت کے مرحلے کے بعد معاشرہ کس طرح تبدیل ہوا، خاص طور پر بلوچستان میں۔

عامر رانا کو پاکستان کا ایک انسائیکلوپیڈیا سمجھا جا سکتا ہے، جو مختلف ذاتوں، عقیدوں، نسلوں اور مذاہب سے تعلق رکھنے والے لوگوں سے بات چیت کرنے کے لیے ملک کے کونے کونے میں گھومتا پھرتا ہے۔ اس کے سفر کی کوئی حد نہیں ہے۔ بالکل اسی طرح، اس کا مرکزی کردار میر جان سرحدوں، صحراؤں، پہاڑوں، دریا اور سمندر کے اس پار اپنے سفر پر ہے – چاہے اس کے ساتھ زبردستی کی گئی ہو یا اس نے خود اپنی پسند سے سفر چُنا ہو – وہ کبھی رُکتی نہیں ہے۔

اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ کوئی جہاں بھی چلاجائے، مگرجو مٹی پیچھے رہ جاتی ہے وہ زندگی بھر اسے ستاتی رہتی ہے۔ اگر کسی کے بھی آباؤ اجداد مہاجرہیں ، تووہ ایک ایسی کہانی ہے جسے رانا جیسے ہونہار مصنفین لکھنا چاہتے ہیں۔

نام کتاب: میرجان
تبصرہ نگار: اکبر نوتے زئی
مترجم: محمد شوذب عسکری
بشکریہ : روزنامہ ڈان

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے