امریکہ کا نام نہاد ایغور جبری مشقت کی روک تھام کا ایکٹ قانون کی حکمرانی کے خلاف قرار

امریکی حکومت نے حال ہی میں نام نہاد ایغور جبری مشقت کی روک تھام کے ایکٹ (UFLPA) کا نفاذ شروع کیا، جس سے چین کے سنکیانگ ایغور خود مختار علاقے کو پریشان کرنے اور "انسانی حقوق کے تحفظ” کی آڑ میں چین پر اپنے سیاسی جوڑ توڑ کے عزائم کو آگے بڑھانے کے ایجنڈے کو شروع کیا ہے۔

سنکیانگ میں نام نہاد "جبری مشقت” امریکہ اور مغرب میں چین مخالف قوتوں کی طرف سے من گھڑت اور ایک بڑے جھوٹ کے سوا کچھ حقیقت نہیں رکھتے ہیں۔
بڑے جھوٹ سے ماخوذ یو ایف ایل پی اے چین کے گھریلو معاملات میں سراسر مداخلت کے متقاضی ہے اور بین الاقوامی قانون کے اصولوں اور بین الاقوامی تعلقات کو کنٹرول کرنے والے بنیادی اصولوں کی سنگین خلاف ورزی ظاہر کرتا ہے۔
نسانی حقوق، قوانین اور قانون کی حکمرانی کو تحفظ دینے کے نام پر امریکہ جہاں ان قوانین کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کا مرتکب ہے وہیں ان قوانین کی آڑ میں امریکہ کا بنیادی ہدف اپنی بالادستی برقرار رکھنا ہے۔
یہ شیطانی قانون حقائق کو نظر انداز کرنے اور مکمل طور پر افواہوں اور جھوٹ پر مبنی ہے کیونکہ اقتصادی ترقی اور سماجی استحکام میں سنکیانگ کی پیش رفت کو دنیا بھر میں تسلیم کیا جاتا ہے۔
نکیانگ خودمختار خطے میں تمام نسلی گروہوں کے لوگ امن اور اطمینان سے رہ رہے ہیں اور ایک مکمل ہم آہنگی کیساتھ روزمرہ کام کر رہے ہیں اور ان کے مزدوروں سے متعلق حقوق اور مفادات کو عملی طور پر یقینی بنایا گیا ہے۔
سنکیانگ میں نام نہاد "جبری مشقت” سے متعلق خبریں محض صرف ایک مذاق ہے اور اس کھیل کے پیچھے امریکہ اور مغرب میں چین مخالف قوتوں نے چین کو بدنام کرنے کے لیے یہ سب کھیل کھیلا جا رہا ہے۔
یہ ان مغربی قوتوں کے لیے صرف ایک عام حربہ ہے کہ وہ جھوٹے اور من گھڑتے ثبوت ایسے "گواہوں” کے ساتھ "رپورٹ” بنا کر رشوت کی مدد سے تیار کرتے ہیں۔
اس حوالے سے بارہاں حقائق نے ثابت کیا ہے کہ نام نہاد "گواہوں” کو مختلف "اسکرپٹس” کے لیے کھیلنے والے گھٹیا "اداکار” ہونے کا انکشاف ہوا ہے۔
آسٹریلوی اسٹریٹجک پالیسی انسٹی ٹیوٹ، جس نے سنکیانگ سے متعلقہ مسائل پر بار بار جعلی رپورٹیں جاری کی ہیں، کو امریکی محکمہ خارجہ، نارتھ اٹلانٹک ٹریٹی آرگنائزیشن (نیٹو) اور ہتھیاروں کے ڈیلرز کی طرف سے مشترکہ طور پر مالی امداد فراہم کی جاتی رہی ہیں۔ اور اس حوالے سے حقائق موجود ہیں کہ اس ادارے کی دو سب سے بڑی غیر ملکی حکومت کی فنڈنگ ​​گرانٹس بالکل امریکی محکمہ خارجہ سے آئی ہیں۔
اسی طرح سے برطانیہ کی شیفیلڈ ہالام یونیورسٹی کے ہیلینا کینیڈی سینٹر نے سنکیانگ کے بارے میں متعدد من گھڑت رپورٹس جاری کی ہیں۔
ان رپورٹس کے کچھ مصنفین کو میڈیا نے امریکی حکومت سے بھاری رقوم حاصل کرنے کے طور پر انکشاف کیا تھا، اور ان میں سے کچھ کا تعلق دہشت گرد تنظیموں سے بھی تھا۔
اس پیرائے میں امریکہ، ان "افواہ سازوں” کی طرف سے گڑھے گئے جھوٹ کی اگر حمایت کرتا ہے، صرف اس کی اپنی ساکھ اور امیج کو تیزی سے تباہ کرنے کا باعث بنے گا، اور خود کو بین الاقوامی معاشرے کی ہنسی کا نشانہ بنائے گا۔
یہ شیطانی قانون بین الاقوامی قانون کی حکمرانی کو پامال کرتے ہیں اور قانون کی حکمرانی کی روح کو داغدار کرتے ہیں۔
یہ عام فہم ہے کہ بین الاقوامی قانون میں جبری مشقت کی واضح تعریف اور معیار موجود ہے۔
انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن کے جاری کردہ جبری مشقت کے کنونشن، 1930 کے مطابق جبری مشقت سے مراد وہ تمام کام یا خدمات ہیں جو کسی بھی شخص سے کسی جرمانہ کے تحت لیا جاتا ہے اور جس کے لیے مذکورہ شخص نے خود کو رضاکارانہ طور پر پیش نہیں کیا ہو۔
کنونشن کی بنیاد پر، سنکیانگ میں جبری مشقت کا کوئی وجود نہیں ہے، اور امریکہ کے پاس اس معاملے پر "جج” ہونے کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔
سچ تو یہ ہے کہ چینی حکومت نے جبری مشقت کنونشن 1930 سمیت 28 بین الاقوامی لیبر کنونشنز کی توثیق کی ہے۔ اور چین مزدوروں کے حقوق اور مفادات کے تحفظ کے لیے ان کنونشنز کے تحت اپنی ذمہ داریاں پوری دیانتداری سے ادا کر رہا ہے۔
اس کے برعکس، امریکہ نے جبری مشقت کے کنونشن، 1930 کی توثیق بھی نہیں کی ہے۔ بین الاقوامی قانون کی نافرمانی کے علاوہ، امریکہ نے اپنے ملکی قوانین کو بین الاقوامی قانون پر ترجیح دی ہے، جو کہ بین الاقوامی قانون کی صریحاً خلاف ورزی اور منافی ہے۔
اس طرح سے یہ شیطانی قانون "جرم کے قیاس” کی پیروی کرتا ہے، جو ظاہر ہے کہ بین الاقوامی قانون کے اصول "معصومیت کے قیاس” کے خلاف ہے۔
یہ سنکیانگ میں تیار کی جانے والی تمام یا کچھ مصنوعات کو جبری مشقت کے ذریعے تیار کردہ نام نہاد سامان کے طور پر بیان کرتا ہے، اور امریکی حکومت درآمد کنندگان سے اس بات کا ثبوت فراہم کرنے کا مطالبہ کرتی ہے کہ ان کی مصنوعات کا کوئی عنصر جبری مشقت کے ذریعے تیار نہیں کیا گیا، جو کہ خالصتاً معاشی غنڈہ گردی ہے۔
امریکہ کی طرف سے عائد غیر قانونی یکطرفہ پابندی اور طویل بازو کے دائرہ اختیار کے ساتھ ساتھ درآمد کنندگان کو حراست میں لینے کا ملک کا خطرہ، ڈکیتی کی ذہنیت کی عکاسی کرتا ہے، جو مارکیٹ کے قواعد و ضوابط کی سنگین خلاف ورزی کرتا ہے اور بین الاقوامی تجارتی احکامات کو نقصان پہنچاتا ہے۔
امریکہ کا حقیقی ارادہ یہ ہے کہ سنکیانگ سے متعلقہ مسائل کے ذریعے جان بوجھ کر جھوٹ کو قیاس آرائیوں کیساتھ ملا کر اور دوسروں اور خود کو نقصان پہنچانے والے قوانین پر عمل درآمد کرکے چین پر کسی طرح سے کنٹرول پانا اور دبانا ڈالنا یے۔
سابق امریکی وزیر خارجہ کولن پاول کے چیف آف اسٹاف لارنس ولکرسن نے 2018 میں ایک بار عوامی طور پر اعتراف کیا تھا کہ سنکیانگ سے متعلق نام نہاد مسائل چین کو غیر مستحکم کرنے اور اسے اندر سے قابو کرنے کے لیے ایک طویل مدتی امریکی اسٹریٹجک سازش کے سوا کچھ نہیں تھے۔
اس کے علاوہ، جنوبی چین کے گوانگ ڈونگ صوبے کے گوانگ ژو شہر میں امریکی قونصلیٹ جنرل کے اقتصادی اور سیاسی سیکشن کے عہدیداروں نے ایک بار 2021 میں ایک استقبالیہ میں مہمانوں کو نجی طور پر بتایا کہ سنکیانگ میں "کچھ بھی غلط نہیں ہے”۔
ان کا کہنا تھا کہ امریکی حکومت کا خیال ہے کہ سنکیانگ ایغور خود مختار علاقے میں "جبری مشقت، نسل کشی اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں” کو بڑھاوا دینے سے چین کو قابو کرنے میں مدد ملے گی۔
انسانی حقوق کے نام پر امریکی سیاسی چالوں نے بین الاقوامی معاشرے پر وائٹ ہاؤس کے عزائم کو زیادہ سے زیادہ عیاں کیا ہے۔
یونیورسٹی آف پٹسبرگ اسکول آف لاء میں بین الاقوامی انسانی حقوق کی تعلیم دینے والے امریکی وکیل ڈینیئل کوولک نے کہا، "میری رائے میں، ایغور جبری مشقت کی روک تھام کا ایکٹ کچھ نہیں بلکہ ایک سیاسی چال ہے جسے چین کو نشانہ بنانے کے لیے بنایا گیا ہے۔”

سنکیانگ سے متعلق جھوٹ گھڑنے کا ارادہ ناکام ہو جائے گا، اور UFLPA صرف دیوالیہ ہو جائے گا۔
سنکیانگ سے متعلقہ مسائل چین کے داخلی معاملات ہیں جن میں کسی بھی بیرونی طاقت کو مداخلت کا حق نہیں ہے۔
چینی حکومت اور عوام ہمیشہ قومی خودمختاری، سلامتی اور ترقیاتی مفادات کے تحفظ کے لیے پرعزم رہیں گے۔
کوئی بھی فرد یا قوت سنکیانگ سے متعلقہ مسائل کو استعمال کرنے کے قابل نہیں ہے تاکہ سنکیانگ میں تمام نسلی گروہوں کے لوگوں کو بہتر زندگی کے حصول یا چین کی ترقی کے تاریخی عمل کو روکنے کے لیے ٹھوس اقدامات کیے جائیں

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے