ایمن الظواہری کی موت اور افغان طالبان کا "تعاون”

ماضی کے سایے جو اب تک تعاقب میں ہیں

چند دن قبل کابل کے اندر القاعدہ کے سربراہ ایمن الظواہری ایک امریکی ڈرون حملے میں مار دیے گئے۔ ظواہری ایک گھر میں موجود تھے جو مبینہ طور پر افغان وزیر داخلہ سراج الدین حقانی کے ایک قریبی ترین معاون کی ملکیت ہے۔ یہ افغان طالبان کے لیے شرمندگی کا مقام ہے جو افغانستان میں عالمی دہشت گرد تنظیم کو کسی قسم کا تعاون فراہم کرنے سے انکار کرتے ہیں۔

اس واقعے کے بعد طالبان کی سنجیدگی اور دوحہ معاہدے میں کیے گئے وعدوں معاہدوں پر پورا اُترنے کے لیے ان کی صلاحیت سے متعلق عالمی برادری کی تشویش میں اضافہ ہوا ہے۔ لیکن اس قتل پر کوئی خاص ردعمل متوقع نہیں ہے۔ طالبان کی حکومت کمزور ہے اور وہ اب بھی عالمی برادری کی جانب سے اپنی حکومت کو تسلیم کیے جانے کے لیے ہاتھ پاؤں مار رہے ہیں۔

جولائی میں جاری ہونے والی اپنی 30 ویں رپورٹ میں، اقوام متحدہ کے ماتحت مانیٹرنگ ٹیم نے تصدیق کی تھی کہ ظواہری زندہ ہے اور آزادانہ طور پر اپنے رابطوں میں ہے، افغانستان پر طالبان کے قبضے کے ساتھ ہی اس کے لیے یہ آسانیاں پیدا ہوگئی تھیں۔ اگر القاعدہ کے سربراہ کو اتنی آزادی اور آسانی میسر تھی تو اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ افغانستان کی سرزمین پہ جنوبی ایشیا، چین اور وسطی ایشیا کے دہشت گرد کس حد تک آزادی سے لطف اندوز ہو رہے ہوں گے۔

اقوام متحدہ کی مانیٹرنگ ٹیم کی فروری 2022ء کی رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ دہشت گرد گروہ افغانستان میں جس قدر آزادی سے لطف اندوز ہو رہے ہیں ایسا حالیہ تاریخ میں پہلے کبھی نہیں ہوا۔ پاکستانی حکام، قبائلی جرگے اور مذہبی اسکالرز کئی مہینوں سے کابل میں کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے رہنماؤں سے ملاقاتیں کر رہے ہیں۔

انسداد دہشت گردی کے بہت سے ماہرین ٹی ٹی پی کے ساتھ پاکستان کے مذاکرات اور اب ظواہری کی ہلاکت کا حوالہ دیتے ہوئے یہ دعوی کرتے ہیں کہ حقانی نیٹ ورک کے بین الاقوامی دہشت گرد تنظیموں کے ساتھ وسیع تعلقات ہیں۔ اس بات کے کوئی ثبوت نہیں ہیں کہ حقانی گروہ اپنے ماضی کے تعلقات پر نظرثانی کرنے یا غیر ملکی دہشت گردوں کو غیرمسلح بنانے کے لیے تیار ہو۔ یہ گروہ کابل پر کنٹرول رکھتا ہے اور مطلوب دہشت گرد دارالحکومت میں آزادانہ گھوم رہے ہیں۔

طالبان اور حقانی گروہ دنیا کو جو پیشکش کر رہے ہیں وہ یہ ہے کہ ریاستوں اور دہشت گرد تنظیموں کے درمیان مذاکرات کے لیے سہولت کاری کی جائے۔ پاکستان پہلے ہی اس پیشکش کا خیر مقدم کر چکا ہے اور ٹی ٹی پی کے ساتھ ایک متنازعہ امن عمل شروع کر چکا ہے۔ طالبان نے یہی پیشکش چین کو بھی کی، جس نے صاف انکار کر دیا تھا اور یہ واضح کیا کہ دہشت گردی کے خلاف ریاست کسی قسم کی برداشت کا مظاہرہ نہیں کرے گی۔

حقانیوں کے ‘مفاہمتی’ نقطہ نظر نے دنیا کو قطعاً متأثر نہیں کیا، کیونکہ بغیر کسی ٹھوس وجہ کے ریاستوں کا اپنے دشمنوں سے بات چیت کرنا کوئی معنی نہیں رکھتا۔ باغی اور دہشت گرد گروہ آپس میں ہم آہنگی برقرار رکھنے اور وسائل کے ضیاع سے بچنے کے لیے آپسی مفاہمت و باہمی معاونت کے ایسے حربے استعمال کرتے رہتے ہیں۔ القاعدہ افغانستان میں دہشت گرد تنظیموں کے لیے ایک اہم مصالحتی ادارے کے طور پہ کردار ادا کرتی رہی ہے۔ بعض وجوہات کی بنا پہ، جب اس نے اپنا مرکزی انتظامی کنٹرول کم کرتے ہوئے اپنی ذیلی تنظیموں کو زیادہ خود مختار بنایا تو اس وقت بھی اس کے مدنظر یہی حکمت عملی تھی۔ کچھ ذرائع کا دعویٰ ہے کہ القاعدہ نے طالبان کے ظہورِ نو کے ابتدائی مراحل میں طالبان کی مختلف مجالسِ شوری، یا مشاورتی کونسلوں کے درمیان اختلافات کو حل کرنے میں ثالثی کا کردار ادا کیا تھا۔

اسامہ بن لادن اسلامی عسکریت پسند تنظیموں کے مابین اس طرح کے ثالثی کردار ادا کرنے کے لیے مشہور تھے۔ جب مولانا مسعود اظہر نے مارچ 2000ء میں اپنی پہلی تنظیم حرکۃ المجاہدین سے علیحدگی اختیار کی اور جیشِ محمد کی بنیاد رکھی تو وسائل کی تقسیم کے حوالے سے دونوں جماعتوں کے درمیان پرتشدد تنازعہ شروع ہوگیا۔ اسامہ بن لادن نے ہی اس تنازعہ کو حل کرنے میں مدد کی تھی۔

ماضی کے سایے ملائیت اور اسٹیبلشمنٹ کا تعاقب کرتے رہیں گے۔ اور کوئی نہیں جانتا کہ کب تک

یہ تو واضح نہیں ہے کہ پاکستانی نمائندوں کے ساتھ مذاکرات کے دوران القاعدہ یا ظواہری نے ٹی ٹی پی کو صلاح مشورے دیے ہوں۔ لیکن یہ بہرحال ہے کہ اگر پاکستان فاٹا انضمام کے فیصلے کو واپس لینے کا مطالبہ مان لیتا تو القاعدہ بھی اس اقدام سے فائدہ اٹھانے والوں میں شامل ہوتی۔ القاعدہ اور ٹی ٹی پی کے ہمیشہ گہرے تعلقات رہے ہیں۔ بظاہر، ظواہری کی زیر قیادت القاعدہ نے ٹی ٹی پی کے اندرونی تنازعات اور دیگر دھڑوں کے ساتھ اس کے اختلافات کو حل کرنے میں اسی طرح ثالث کا کردار ادا کیا جس طرح اسامہ بن لادن نے حرکۃ المجاہدین اور جیشِ محمد کے درمیان تنازعہ کو حل کیا تھا۔

2010ء میں القاعدہ کے تربیت یافتہ دہشت گرد ابو دجانہ الخراسانی نے امریکی ڈرون حملے میں مارے جانے والے ٹی ٹی پی کے بانی بیت اللہ محسود کی موت کا بدلہ لینے کی غرض سے افغانستان کے صوبہ خوست میں واقع سی آئی اے کے آپریشنل مرکز کے اندر خود کو دھماکے سے اڑا لیا تھا جس سے سی آئی اے کے کئی اہلکار ہلاک ہوگئے تھے۔

ابھی حال ہی میں مفتی تقی عثمانی کی قیادت میں پاکستانی علما کے ایک وفد نے بھی ٹی ٹی پی کی قیادت سے ملاقات کرنے اور پاکستان کے ساتھ قیامِ امن کے حوالے سے ان کے موقف میں نرمی لانے کے لیے کابل کا دورہ کیا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ دیوبندی علماء نے 22 سال کے وقفے کے بعد افغانستان کا باضابطہ رسمی دورہ کیا ہے۔ اگست 2001 میں، طالبان نے اپنے اقتدار کی سالگرہ کا جشن منایا تھا جس کے تحت افغان دارالحکومت اور قندھار میں تقریبات کا اہتمام کیا گیا تھا۔ یہ تقریبات اس لحاظ سے اہم تھیں اسی برس طالبان کی طرف سے بامیان کے مجسموں کو توڑا گیا تھا۔ ان کے مطابق یہ مجسمے بت ہیں جن کی اسلام میں اجازت نہیں ہے۔ کچھ امریکی امدادی کارکنوں کے مقدمے کا فیصلہ بھی ان تقریبات کا ایک اہم موقع تھا، ان کارکنوں پر عیسائیت کی تبلیغ کا الزام تھا جو کہ طالبان کے دورِ حکومت میں ایک بڑا جرم تھا۔ طالبان کی طرف سے دیوبندی علما کے کئی وفود کو بھی مدعو کیا گیا تھا، تاکہ وہ نہ صرف مقدمے کا نظارہ کرسکیں بلکہ ان کے قاضیوں یا ججوں کی رہنمائی بھی کریں۔

پاکستانی وفود کے زیادہ تر ارکان خوشی سے نہال تھے اور وہ مختلف پاکستانی عسکریت پسند گروپوں کی جانب سے ان کے اعزاز میں منعقد کی جانے والی تقریبات میں بھی شریک ہوئے۔ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اُس وقت اُنہوں نے کس قسم کے خطبات دیے ہوں گے۔ اُس وقت بہت سے جہادی اخبارات و جرائد نے ان خطبات کو تحریری شکل میں مرتب کیا تھا۔ پاکستان میں بہت سے مدارس نے قانون نافذ کرنے والے اداروں سے بچنے کے لیے ان اشاعتوں کا ریکارڈ تلف کردیا ہوگا، لیکن طالبان اور ٹی ٹی پی ماضی کے سبق کو نہیں بھولے ہیں۔

یہ جاننا دلچسپ ہو گا کہ پاکستانی علما کے حالیہ وفد کے اُس وقت کیا احساسات ہوں گے جب وہ اپنے ان سابق طلبہ سے ملے ہوں گے جو اب ٹی ٹی پی میں شامل ہو چکے ہیں۔ ٹی ٹی پی کو معلوم ہوگا کہ یہ وہ علماء ہیں جو تبدیل ہوچکے ہیں، جنہوں نے اپنے سابقہ ​​فتووں پر نظرثانی کی ہے اور ’پیغامِ پاکستان‘ کی شکل میں انسدادِ دہشت گردی کے اعلامیے پر دستخط کیے ہوئے ہیں۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق ٹی ٹی پی کی قیادت نے اپنے اساتذہ کی بات تحمل سے سنی، لیکن اپنے مطالبات سے پیچھے ہٹنے سے انکار کر دیا۔ درحقیقت، ٹی ٹی پی کی قیادت نے اپنے پرتشدد اقدامات کے حق میں آٹھ نکاتی استدلال پیش کیا، ان کے دلائل علما کے انہی پرانے خطبات پر مبنی تھے جب وہ مسلح جہاد کے حق میں رطب اللسان ہوتے تھے۔

ماضی کے سایے ملائیت اور اسٹیبلشمنٹ کا تعاقب کرتے رہیں گے۔ اور کوئی نہیں جانتا کہ کب تک۔

بشکریہ: روزنامہ ڈان، مترجم: شفیق منصور

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

تجزیے و تبصرے