بچے گھر سے کیوں بھاگتے ہیں؟

[pullquote]محفوظ بچپن (قسط نمبر 6)[/pullquote]

کراچی سے دن دیہاڑے، ایک بچی کا اپنے گھر کے دروازے سے اچانک غائب ہو جانا، اسے اغوا کہیں یا گھر سے فرار، ایک دل دہلا دینے والا واقعہ ہے۔ اس پر ملک بھر میں بحث ہونے لگی، کسی نے بچی کو برا بھلا کہا تو کسی نے والدین کی پرورش پر انگلیاں اٹھائیں۔ لیکن یہ ایک تکلیف دہ حقیقت ہے کہ بچے اپنے والدین، گھر یا خاندان سے کبھی اتنے ناراض اور مایوس ہو جاتے ہیں کہ وہ ایک انجانی، اجنبی اور وسیع پُرخطر دنیا میں نکل جانے کا فیصلہ کر لیتے ہیں۔

” میں نے دیکھا میرے اسکول کے دوست کے ابو اور امی بہت رو رہے تھے، جب میرا دوست گھر سے بھاگ گیا تھا، وہ ایک صدمے کی کیفیت میں تھے، اور جاننا چاہتے تھے، کہ میں اس بارے میں کیا جانتا ہوں”
اٹک کے رہنے والے موسیٰ نے بتایا۔ اس نے بتایا اس کا دوست ایک شرارتی لیکن اسکول میں نالائق لڑکا تھا، اس کے والد ملک سے باہر تھے، گھر میں پیسے کی کمی نہیں تھی، لیکن گھر کا کوئی سربراہ نہیں تھا۔ اس کی امی گھریلو عورت تھیں، اور بڑے بھائی بھی کافی بگڑے ہوئے تھے۔ وہ آٹھویں جماعت میں پڑھتا تھا جب فیل ہو گیا، اور اس کے ابو جو چھٹی پر گھر آئے ہوئے تھے، انہوں نے اسے بیلٹ سے مارا تھا۔ اگلی صبح میرا دوست گھر سے غائب تھا۔

دنیا بھر میں بچے گھروں سے بھاگتے ہیں، صرف یورپ میں ہر سال پانچ ہزار سے زیادہ بچے گھروں سے بھاگ جاتے ہیں۔ یہ ایک ستمبر 2021 کی رپورٹ میں درج ہے ،جسے یورپ میں بچوں پر کام تحقیق کرنے والے راڈار نامی ادارے نے شائع کیا ہے۔ یہ بھگوڑے بچے دراصل انتہائی خطرے سے دوچار ہو جانے والا گروہ سمجھے جاتے ہیں۔ ان میں سے کئی ایک منشیات فروشوں، بردہ فروشوں وغیرہ کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں۔ ان میں سے کئی ایک زبردستی جنسی غلام بنا لئے جاتے ہیں، یا انہیں جرائم کی دنیا میں داخل کردیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ بھی بہت کچھ ہو سکتا ہے جس کا شاید ہم تصور بھی نہیں کر سکتے۔ جیسے کے سو بچوں کے قاتل جاوید اقبال کا شکار بچوں میں زیادہ تر درباروں اور مزاروں پر گھروں سے بھاگے ہوئے پناہ گزین بچے تھے۔

[pullquote]گھر سے بھاگنے کی عمومی وجوہات: [/pullquote]

[pullquote]1: گھروں میں پر تشدد ماحول[/pullquote]

گھروں میں پر تشدد ماحول پہلی اور عام وجہ دنیا بھر میں یہی سمجھی جاتی ہے، بچے تشدد سے خوفزدہ ہوتے ہیں اور وہ گھروں سے بھاگ نکلتے ہیں۔ تشدد کی وجوہات مختلف ہو سکتی ہیں جیسے والدین کی تربیت کا انداز جس میں سختی ہو جائز اور ضروری سمجھا جاتا ہو۔ بچوں کی زیادہ تعداد، جہاں وسائل کم ہوں اور بچوں کی ضرورتیں پوری کرنا مشکل اس لئے مار پیٹ کر انہیں خاموش رکھنے کی کوشش….

[pullquote]2: زیادہ نمبر لانے کے لئے دباؤ[/pullquote]

پڑھائی پر زور، زیادہ نمبر لانے کے لئے دباؤ، کارکردگی میں کمی بیشی پر مار پیٹ یا زبانی تشدد، برا بھلا کہنا ۔ اسکول/ کالج/ مدرسوں میں اچھی کار کردگی کا دباؤ اتنا زیادہ ہو جاتا ہے کہ کبھی بچے اپنی جان بھی لے لیتے ہیں۔

[pullquote]3: خاندان کی جانب سے غلطی کی گنجائش نا چھوڑنا:[/pullquote]

ہم سب کبھی نا کبھی غلطی کرتے ہیں، اور اکثر خاندانوں میں بچوں کی چھوٹی بڑی غلطیاں معاف کر دی جاتی ہیں۔ لیکن کچھ کیسز میں بچوں کو اتنا دھمکا کر رکھا جاتا ہے کہ وہ ہمیشہ کامل پرفیکٹ ہی رہیں گے۔ ان سے ہونے والے کسی نقصان، یا حادثے کی صورت میں انہیں خاندان کی طرف سے کسی سہارے کی امید ہی نہیں رہتی۔ میری جاننے والی ایک فیملی میں بچے سے ابو کی کار ایک درخت میں لگ گئی،سزا اور ناراضگی کا خوف اتنا زیادہ تھا کہ بچہ گھر سے بھاگ کر نانی کے گھر چھپ گیا۔

[pullquote]4: گھر میں باہر کے لوگوں کی مداخلت: [/pullquote]

بچے بہت حساس ہوتے ہیں، اور خاص طور پر نوجوان بچے، جو اپنی ٹین ایج میں ہوں، بارہ سے اٹھارہ سال کے درمیان۔ اگر گھر میں ان کے اور والدین کے بیچ کوئی عزیز، دوست یا ہمسایہ آجائے تو انہیں لگتا ہےکہ ان کا حق مارا جا رہا ہے۔ ہمارے معاشرے میں مشترکہ خاندانی نظام میں اس طرح کے مسائل جنم لیتے ہیں جب بچوں کی ہر وقت شکایات لگائی جاتی ہیں۔ والدین اور بچوں کے درمیان رنجش کو ہوا دی جاتی ہے۔

[pullquote]5: منشیات کی لت اور بری صحبت: [/pullquote]

والدین کے لئے بچوں کو کنٹرول کرنا بہت بچپن میں تو ممکن ہوتا ہے مگر گیارہ بارہ سال کے بعد انہیں بچوں کو بہت سی چیزوں سے روکنا بہت مشکل ہو جاتا ہے، اگر بچوں کی صحبت اچھی نا ہو، ان کے دوست نشہ کرتے ہوں، تمباکو نوشی کرتے ہوں، سمارٹ فون یا کمپوٹر پر نا زیبا مواد دیکھتے ہوں، اور دیگر غیر اخلاقی علتوں کا شکار ہوں تو بہت امکان ہے آپ کا بچہ بھی ایسی حرکات میں مبتلا ہو جائے۔ اسے روکنے کی صورت میں وہ گھر سے بھاگنے کو ترجیح دے گا۔

گھر سے بھاگ جانے کی کئی ایک دیگر وجوہات بھی ہو سکتی ہیں، لیکن عمومی علامات یہی ہیں۔ بروقت بچوں کی حرکات و سکنات،گفتگو کا انداز،دوستوں کی معلومات اور ان کے پاس روپے پیسے کی مقدار کا جائزہ لیتے رہیں۔آپ کو کافی باتوں کا اندازہ ہو جائے گا۔

بجائے اخلاقی لیکچر جھاڑنے کے لوشش کریں اصل مدعا حل کیا جائے، اعتماد کی بحالی کو ممکن بنائیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے