ویسے تو وزیرِاعظم ہر جگہ تھوڑی بہت دکھ بھری تقریرِ پرتاثیر فرما دیتے ہیں۔البتہ جمعرات کو اسلام آباد میں وکلا کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے انھوں نے بنا لیپا پوتی حقیقت پسندانہ انداز میں آنے والی تصویر کی جھلک دکھانے کی کوشش کی۔
تو کیا محض ’’ سب اچھا نہیں ہے‘‘ کہنے سے کام چل جائے گا اور قومی ترجیحات بدلنا شروع ہو جائیں گی؟ شاید نہیں۔ یہ ملک ابتدا سے ہی بطور پبلک لمیٹڈ کمپنی چلایا جا رہا ہے اور ہر کمپنی کی طرح اس کا بھی یہی چارٹر ہے کہ کس طرح حصص یافتگان کا منافع سال بہ سال بڑھتا رہے۔ بھلے کوئی بھی راستہ ، حربہ یا طریقہ اختیار کرنا پڑ جائے۔
کچھ ادارے اور چند افراد اس کمپنی کے کلیدی شئیرز کے مالک ہیں۔کمپنی کے اعزازی سیکریٹری کو وزیرِ اعظم کا ٹائیٹل دیا جاتا ہے ۔بس اتنا ہے کہ اسے کچھ شئیرز کے علاوہ اضافی خدمات کے عوض مقررہ اعزازیہ اور مراعات مہیا کردی جاتی ہیں۔
البتہ کمپنی کے روزمرہ معاملات کی دیکھ ریکھ کی اختیاراتی زمہ داری کے باوجود سیکریٹری کمپنی کے بورڈ آف گورنرز کی اجازت کے بنا بنیادی چارٹر میں کوئی تبدیلی نہیں کر سکتا اور نہ ہی کلیدی حصص یافتگان اس نوعیت کی اضافی بااختیاری پسند کرتے ہیں۔موجودہ سیکریٹری کے دو تین پیشروؤں نے اس بابت تھوڑی بہت من مانی کی کوشش کی تو ان کے شیئرز کمپنی نے فوراً واپس لے لیے۔
پھر بھی وزیرِ اعظم نے جمعرات کو وکلا کنونشن میں جو درد بیان کیا اس کا خلاصہ سننے میں کیا حرج ہے ۔
’’ آج جب ہم کسی دوست ملک میں جاتے ہیں یا فون کرتے ہیں تو وہ سمجھتے ہیں کہ ہم پھر بھیک مانگیں گے۔ملک کی حالت سیلاب سے پہلے بھی اچھی نہ تھی اب تو اور دگرگوں ہو گئی ہے۔اگرچہ ہم دیوالیہ ہونے سے بچ گئے ہیں مگر افراطِ زر بلندی کو چھو رہا ہے۔
چھوٹے چھوٹے ممالک بھی ہم سے آگے نکل گئے ہیں اور ہم پچھتر برس بعد بھی کشکول لیے گھوم رہے ہیں۔ ہمارے خطے میں ہی ایسے ممالک ہیں جن کی قومی آمدنی ہم سے کم تھی لیکن اب انھوں نے ہمیں بیرونی تجارت میں خاصا پیچھے چھوڑ دیا ہے۔یہ سوال پچھتر برس سے مسلسل کچکوکے لگا رہا ہے کہ ہم کہاں کھڑے ہیں ؟ ہم مسلسل دائرے میں گھوم رہے ہیں۔آج ’’ اب یا کبھی نہیں ‘‘ کا دوراہا سامنے ہے۔اس ملک میں بہت جان ہے مگر کچھ کر دکھانے کی خواہش اتنی ہی کم ہے‘‘۔
پاکستان دراصل اس مریض کی طرح ہے جسے روزِ اول سے معلوم ہے کہ کیا عارضہ لاحق ہے اور اس عارضے کو کیسے دور کیا جا سکتا ہے۔کوئی ان پڑھ مریض ہوتا تو کب کا ٹھیک ہو چکا ہوتا۔مگر نیم خواندہ مریض طویل عرصے سے کسی ایک مرض یا امراض میں مبتلا ہو تو ایک ذہنی مرحلہ وہ بھی آتا ہے کہ مریض کو بیماری سے انسیت ہو جاتی ہے۔ طرح طرح کے ادھورے علاج کرواتے اور بھانت بھانت کی ادویات استعمال کرتے کرتے ایسا مریض آدھا ڈّاکٹر ہو جاتا ہے۔ مگر فطری بے صبری اسے نہ اپنا طرزِ حیات بدلنے دیتی ہے نہ ہی کوئی پرہیز مکمل ہو پاتا ہے۔
مریض بزعم خود اپنی کیفیت کسی بھی مستند ڈاکٹر سے بہتر جانتا ہے لہٰذا کج بحثی ، بدزنی اور چڑچڑا پن کسی بھی معالج پر مکمل اعتماد کرنے سے روکتا ہے۔یوں نہ صرف مرض اپنی جگہ قائم رہتا ہے بلکہ دوائیں کھا کھا کے جسمانی قوتِ مدافعت اتنی گنجلک ہو جاتی ہے کہ کسی عام دوا کی نارمل خوراک اپنے مثبت اثرات دکھانے کے قابل نہیں رہتی۔
اور پھر مریض اپنی مسلسل خرابیِ صحت کا ذمے دار معالجوں اور تجویز کردہ دواؤں کو قرار دے کر فراری آنند کی چار دیواری میں پناہ گزین ہو جاتا ہے۔ اکتائے ہوئے تیمار دار بھی رفتہ رفتہ کنارہ کرنے لگتے ہیں۔ یوں تنہائی کا ناگ کنڈلی پر کنڈلی مارتا چلا جاتا ہے۔ایسی تنہائی جس میں زندہ رہنا نہ رہنا اپنے معنی کھو چکا ہوتا ہے۔
ایسا نہیں کہ یہ کوئی گمنام یا پراسرار مرض ہے۔یہ اکثر نوآزاد ممالک کو ہی نہیں بلکہ ان ریاستوں کو بھی لاحق ہوتا رہا ہے جو کبھی خود نوآبادی نہیں رہے۔اس مرض کو عرفِ عام میں ’’ بیڈ گورننس‘‘ کہتے ہیں۔گورننس اس وقت ’’ بیڈ گورنننس ‘‘ میں تبدیل ہو جاتی ہے جب اشرافیہ کے سفید جسیموں کی تعداد سرخ جسمیوں پر اتنی غالب آ جائے کہ خون کی رنگت ہی سفید لگنے لگے۔یہ بیماری جس طرح آہستہ آہستہ جسم پر قبضہ کرتی ہے اس کا علاج بھی اتنا ہی سست اور مہنگا ہے۔ اکثر مریض یہ طویل المیعاد مہنگا علاج برداشت نہیں کر پاتے اور دواؤں کی بھاری مقدار اور ضمنی منفی اثرات کی تاب نہ لاتے ہوئے کوما (خوابِ غفلت ) میں چلے جاتے ہیں۔
مجھے نہیں معلوم کہ یہ ملک بیڈ گورنننس کے درجہ سوم میں ہے یا چہارم میں۔ اتنا طے ہے کہ یہ اول یا دوم مرحلے سے آگے نکل چکا ہے۔ایسی گنی چنی مثالیں بھی ہیں کہ کچھ ممالک اسٹیج تھری پر پہنچنے کے باوجود ثابت قدمی اور جنگجوئی دکھاتے ہوئے مرض کو شکست دینے میں کامیاب ہو گئے۔
مگر جس ملک کی اشرافیہ ’’ بابر بہ عیش کوش کہ عالم دوبارہ نیست ‘‘ کے نظریے سے چپٹی پڑی ہو۔ وہاں کسی خیر کی امید عبث ہے۔یہ وہ مرحلہ ہے جہاں مشکل آسان کرنے کے لیے پین کلرز کی مقدار بڑھانے کو ہی علاج ماننا پڑتا ہے۔
پچھتر برس میں کس نے کیا کیا۔کون کس سے پوچھے گا۔کس کو کیا سزا ملنا چاہیے۔کون نجات دھندہ اور کون دیمک ہے ؟ یہ بحث اب بہت پیچھے رھ گئی۔اب تو یہ ملک اپنے بچے کھچے تام تپڑ سمیت ماحولیاتی ٹرین کے درجہِ سوم میں چڑھا دیا گیا ہے۔ٹرین کی رفتار اتنی ہے کہ زنجیر کھینچنے سے بھی کام نہیں چلے گا۔ایسی تیز رفتار کہ خواب بھی پیچھے رھ گئے۔
آخری اسٹیشن کون سا ہے ، ہے بھی یا نہیں۔ کوئی سرخ یا پیلا سگنل بھی راہ میں ہے یا سب گرین ہو چکے ہیں۔کوئی ایسا جنکشن جہاں انجن پٹڑی بدل پائے، کوئی ایسا خشک جنگل جہاں ٹرین سے چھلانگ مار کے بچنے اور نئے سرے سے زندگی شروع کرنے کی آخری کوشش ہو سکے۔
فی الحال تو درخت اور زمین پیچھے کی طرف بھاگ رہے ہیں۔دور تلک بارانی دھند ہے۔بس ٹرین دوڑ رہی ہے۔ ایک ہم ہیں جو اب بھی اپنی اپنی نشستوں پر بیٹھے یا کھڑے یا لٹکے سمجھ رہے ہیں کہ ٹرین نہیں ہم دوڑ رہے ہیں۔
اب مجھے کچھ نظر نہیں آتا
اب مجھے راستہ چلاتا ہے