محترمہ بے نظیر بھٹو جب بھی بطور وزیر اعظم اقوام متحدہ یا امریکہ کے دورے پر آئیں تو ان کے گرد مصروفیات، مصاحبین اور مشیران کے سخت حصار قائم ہونے کے باعث ملاقات نہ صرف ناممکن رہتی بلکہ بعض مصاحبین اور معاونین کی کرم فرمائیوں کے باعث کچھ دوریاں بڑھ جاتیں اور محض آتے جاتے کہیں آمنا سامنا ہوتا تو ہماری رپورٹنگ کے حسب خواہش نہ ہونے کے باعث مصاحبین کی بی بی کو دی گئی ’’بریفنگ‘‘ کے اثرات و تاثرات بھی دیکھنے اور سننے کو مل جاتے لیکن جب وہ اقتدار میں نہ ہوتیں اور ذاتی و سیاسی حیثیت و مقاصد کے لئے امریکی اراکین کانگریس اور دیگر اہل اختیار و اثر امریکیوں سے ملاقاتوں کے لئے مشیران و مصاحبین کے بغیر نیو یارک اور واشنگٹن آتیں تو پھر مسائل و معاملات پر کھل کر گفتگو بھی ہوتی اور وہ ہر طرح کی رائے اور خیالات کو خوش دلی اور کھلے ذہن سے سنتیں اور اپنا موقف بھی بیان کرتیں متعدد بار انہیں اپنی ملاقاتوں اور مصروفیات کے لئے کسی حمایتی، سیاسی ورکر کے بغیر عام ٹیکسی سے سفر کرتے بھی دیکھا گیا۔
وہ جب بطور وزیر اعظم اقوام متحدہ کی پچاسویں سالگرہ والے سالانہ اجلاس میں شرکت کے لئے نیو یارک آئیں تو نیو یارک میں رکنے کی بجائے چند گھنٹے قیام اور فیول وغیرہ کی ضروریات اور طیارے میں مشہور برگرسے لطف اندوز ہونے کے بعد لاطینی امریکہ کے ملک کولمبیا کے دارالحکومت کارتے ہینا میں غیر جانبدار ممالک کی کانفرنس میں شرکت کے لئے چلی گئیں اور واپسی پر نیو یارک میں اقوام متحدہ کے اجلاس میں شریک ہوئیں۔ بطور سیکرٹری خارجہ نجم الدین شیخ، ظفر ہلالی اور بطور میڈیا مشیر مرحوم اظہر سہیل اس دورے میں ہمراہ تھے۔ انہی دنوں اپوزیشن کے میاں نواز شریف بھی نیو یارک آئے ہوئے تھے اور بعض پاکستانی ٹیکسی ڈرائیورز نے انہیں دیکھ کر روکا اور وہ انہیں قریبی ایک مشہور برگر چین میں لے گئے ۔ جب مجھے اس اطلاع کی تصدیق ہو گئی تو میں نے ’’جنگ‘‘ کیلئے اپنی خبر میں لکھا کہ پاکستانی سیاستدانوں کو اس مشہور برگر چین کا برگر کتنا مرغوب ہے۔ یہ برگر چین اس دور میں ابھی پاکستان نہیں پہنچی تھی ساتھ ہی میں نے ذکر بھی کیا کہ یہ برگر کارپوریشن اپنے برگرز میں حلال گوشت استعمال نہیں کرتی۔
میری خبرپر ردعمل آیا تو میاں نواز شریف نے لاہور میں صحافیوں سے کہا کہ انہوں نے تو فش سینڈوچ کھایا تھا لیکن بی بی مرحومہ کی جانب سے تردید کی بجائے خاموشی اختیار کی گئی، مگر مصاحبین کی ’’بریفنگ‘‘ نے بی بی کو مجھ سے ناراض کر دیا حالانکہ انہوں نے بھی فش برگر ہی کھایا تھا بعد میں پھر محترمہ کی ڈھائی گھنٹے کی مصروفیات کے بارے میں ایک درست خبر نے مزید انہیں برہم کیا اور آخر کار اقوام متحدہ کے اجلاس میںچینی صدر سے ایک ملاقات کر کے محترمہ بی بی شہید جب واپسی کے لئے لفٹ میں سوار ہوئیں تو میں بھی لفٹ میں داخل ہواتو اس وقت کے سفیر اور دیگر معاونین جن میں آغا ظفر ہلالی بھی شامل تھے ،کی موجودگی میں محترمہ نے سخت ناراضی اور لفٹ میں میری موجودگی کا برا منایا اور پھر ہم دونوں کے درمیان جو ڈائیلاگ ہوا وہ ’’دی نیوز‘‘ کی فائلوں میں موجود ہے۔ اس ناراضی کے بعد میرے اور بی بی شہید کے درمیان کئی سال تک فاصلے قائم رہے جو اس وقت کے مصاحبین کی بریفنگ کا نتیجہ تھےلیکن پھر حقائق اور میرے بارے میں غیر جانبدار حلقوں سے انہیں جو معلومات ملیں تو پھر نہ صرف انہوں نے خود آگے بڑھ کر تعلقات کو درست کیا بلکہ بڑے پن کا ثبوت دیتے ہوئے ماضی کے تلخ ایام پر معذرت بھی کی۔ پیپلز پارٹی کی رہنما اور بیگم نصرت بھٹو کی بااعتماد معاون رخسانہ بنگش کی بہن مسز شمع بنیاد حیدر کے گھر واقع نیوجرسی میں اس ملاقات کے بعد دلوں کی ایسی صفائی ہوئی ، باہمی احترام اور اعتماد کا ایسا تعلق قائم ہوا کہ باقی تمام عمر انہوں نے کبھی اپنے بارے میں میری ناموافق رپورٹنگ کا نہ تو کبھی گلہ کیا اور نہ ہی موافق رپورٹنگ ہونے پر کبھی کوئی ستائش کی۔
ایک سیاسی رہنما اور صحافی کے درمیان باہمی احترام و اعتماد اور برداشت کے اس تعلق کو میں نے بھی خوب انجوائے کیابہت سے امور پر نیو یارک میں حفیظ کاشمیری کے گھر یا دیگر جگہوں پر ون ٹو ون انداز کی ملاقاتیں کر کے متعدد امور بالخصوص امریکی کانگریس کی لابی اور پاک امریکہ تعلقات کے حوالے سے ’’آف دی ریکارڈ‘‘ بہت کچھ شیئر بھی کیا۔
غالباً یہ 27اگست 2007ء کی بات ہے کہ جب محترمہ بے نظیر بھٹو سے میری آخری ملاقات نیو یارک میں ہوئی اس ملاقات کے لئے نہ صرف محترمہ بے نظیر بھٹو خود چل کر تھرڈ ایونیو نیو یارک پہنچیں بلکہ اپنے ساتھ آصف زرداری اور ان کے وکیل اور پی پی پی رہنما فاروق نائیک کو بھی لے کر ایک کیک کے ہمراہ آئیں پی پی پی امریکہ کے صدر شفقت تنویر نے بڑی خاموشی سے اس ملاقات کا انتظام کیا تھا۔ دراصل جب انہوں نے ایک اجتماع میں مجھے غیر حاضر پاکر میرے بارے میں معلوم کیا تو پتہ چلا کہ میں اپنی ہارٹ سرجری کے لئے اسپتال داخل ہوں تو فوراً ہی انہوں نے ہدایت کی کہ مجھ سے ملاقات کا انتظام کیا جائے میں سرجری کے بعد گھر آچکا تھا۔ مختصر یہ کہ اپنے بیٹے ندیم کی مدد سے میں بھی ملاقات کی جگہ پہنچا ندیم ویسے بھی چند سال سے بی بی محترمہ کا ’’فیورٹ‘‘ بن چکا تھا جسے دیکھ کر وہ بہت خوش ہوئیں اور میرے ہر چبھنے والے سوال پر ندیم سے ہنس ہنس کر تبصرے کرتی رہیںاس تاریخی اور آخری ملاقات میں حکمراں پرویز مشرف سے جاری مذاکرات، امریکیوں کارول اور اس وقت کے اہم موضوعات پر بااعتماد اور دوٹوک انداز میں گفتگو ہوتی رہی جس میں آصف زرداری اور فاروق نائیک کوئی اضافہ کئے بغیر مکمل خاموشی اختیار کئے رہے۔ میں نے اپنے ذرائع سے حاصل کردہ پرویز مشرف سے ’’ڈیل‘‘ کے کچھ نکات کا ذکر کیا تو بے نظیر نے ’’آف دی ریکارڈ‘‘ اس میں ایک دو پوائنٹ کا اضافہ کر دیا۔
پاکستان واپسی کی صورت میں زرداری صاحب کے مستقبل کے ممکنہ رول اور دیگر معاملات پر بھی گفتگو رہی۔ اس مرتبہ بے نظیر بھٹو مجھے ماضی کے مقابلے میں بہت تبدیل شدہ بے نظیر نظر آئیں۔ الیکشن سے پہلے واپسی پر پرویز مشرف، بے نظیر تعلقات کا ذکر ہوا تو بڑے اعتماد سے اپنا موقف اور ’’بھٹو کی بیٹی‘‘ ہونے کا اظہار کیا۔ یہ ایک تاریخی ملاقات رہی۔ اس کے بعد ’’جیو‘‘ کے لئے ایک خصوصی انٹرویو بھی دیا ۔ [pullquote]یہ ملاقات میری زندگی کی بھی اہم ترین ملاقاتوں میں سے ہے، جس کی کئی وجوہات ہیں۔ اس کے بعد بے نظیر شہید اپنے بچوں کے ساتھ نیو یارک سے چلی گئیں اور پھر کبھی نہیں لوٹیں۔ ان سے چند دیگر ملاقاتوں کی تفصیل پھر کبھی سہی۔ بے نظیر میری نظر میں ایک نرم دل خاتون تھیں جوکسی کی تکلیف دیکھ کر پریشان ہو جاتیں۔ میری رائے میں وہ نہ صرف آخری ایام میں بہت تبدیل ہو چکی تھیں بلکہ مشرف سے ڈیل میں امریکی رول کی مجبوریوں کے باوجود امریکی رویے پر شاکی بھی تھیں۔ وہ امریکی سیاسی نظام اور حکومتی راہداریوں سے بخوبی واقف تھیں۔ مارک سیگل اور دیگر امریکیوں کے تعاون کی ضرورت یوں تھی کہ پی پی پی میں کوئی بھی امریکی محاذ پر اکیلی بی بی کی معاونت اور رول کی صلاحیت والا نہیں تھا[/pullquote]۔
بشکریہ روزنامہ ’’جنگ‘‘