گزشتہ دنوں شام و عراق میں اہم پیش رفت ہوئی جسے سی این این اور بی بی سی وغیرہ تو مسلسل کور کر رھے ہیں لیکن حسب سابق ہمارے میڈیائی اینکرز کو وہاں توجہ دینے کا وقت نہیں
شام سے آنے والی سب سے اہم خبر روسی و شامی فضائی حملے میں جیش اسلام کے سربراہ شیخ زہران علوش کو نشانہ بنانا تھا جس میں وہ اپنے نائب سمیت مارے گئے زہران علوش بشار اسد کی وحشی افواج کے لئِے بھیانک خواب ثابت ہوئے اور شامی شہری ہونے کیوجہ سے عوامی تائید بھی انہیں حاصل تھی بشار و ایران کی مشترکہ افواج کے لئے یہ شخص درد سر بن چکا تھا زہران علوش القاعدہ اور دولت اسلامیہ کے انتہائی نظریاتی مخالف تھے ان کا مجموعہ مضبوط اور موثر ھے عموما شام سے متعلق یہی سمجھا جاتا ھے کہ وہاں القاعدہ سے منسلک جبھتہ النصرہ دولت اسلامیہ یا احرار الشام ہی طاقتور گروہ کے طور پر موجود ہیں حالانکہ زمینی حقائق یہ ہیں وہاں جیش الحر اور جیش اسلام سمیت متعدد عسکری مجموعے موجود ہیں جن میں تھوڑے بہت نظریاتی اختلافات بھی ہیں لیکن انکی مشترکہ قدر سلفی ہونا ھے ۔۔۔۔۔ البتہ یہ ضرور ھے کہ جھتہ النصرہ و دولت اسلامیہ انتہائی موثر اور توانا ہیں ۔
یہاں روس کے ان دعوں کی بھی نفی ہوتی ھے جن کے مطابق وہ صرف دولت اسلامیہ کو نشانہ بنا رہا ھے حالانکہ حقائق یہ ہیں کہ ہمیشہ ایسے حملوں میں دولت اسلامیہ کے ساتھ دیگر عسکری گروہوں کو بھِی بھرپور نشانہ بنایا جاتا ھے ، یہی کچھ روس و ایران بھی کر رھے ہیں ان حملوں میں بڑی تعداد میں عام شہری مارے جا رہے ہیں جس کی نشاندہی ایمنسٹی انٹرنیشنل بارھا کرچکا ھے ۔
ترکی و سعودی عرب اس صورتحال کا باریک بینی سے جائزہ لے رھے ہیں یہ تو طے ھے مکمل فتح تک دونوں کی جانب جبھتہ النصرہ و دولت اسلامیہ کے سوا باقی عسکری گرہوں کی امداد جاری رھے گی (ضروت پڑنے پہ ترکی جبھتہ النصرہ و دولت اسلامیہ سے بھی ” ڈیل ” کرتا رھا ھے)
عراق میں امریکی و ایرانی افواج اور شیعہ ملیشاوں کے تعاون سے رمادی کی واپسی کے لئے آپریشن شروع کیا گیا ابتداء میں کامیابی کے دعوے کئے گئے لیکن گزشتہ دو دن کے دوران حیران کن پیش رفت ہوئی جب دولت اسلامیہ نے پلٹ کر حملہ کیا اور بڑی تعداد میں عراقی فوجی اس آپریشن کا ایندھن بنے ۔
ایک اطلاع کے مطابق اس دوران دولت اسلامیہ نے دس خوفناک خود کش حملے کئے ۔ بہت ممکن ھے کہ عراق میں دولت اسلامیہ سے علاقے خالی کرادئے جائیں لیکن صرف یہ کافی نہیں ہوگا کیونکہ گزشتہ عرصے میں دولت اسلامیہ نے جو کچھ حاصل کیا وہ تو صرف بونس تھا ، بس فرق یہ پڑے گا کہ آمنے سامنے کی جنگ گوریلا وار میں تبدیل ہو جائے گی اور یہی کچھ وہاں 2003 سے ہو رہا ھے تو پھر کامیابی کس چڑیا کا نام ھے اگر کوئی وضاحت کرسکے ؟
پاکستان میں بھی دولت اسلامیہ کے وجود سے متعلق گرما گرم مباحث شروع ہوچکے ، اصل بات یہ ھے کہ یہاں عراق یا شام سے کسی نے نہیں آنا۔ یہیں سے مختلف مجموعات نے انکی اطاعت کرنی ھے اور پھر معاملہ یہ ھے کہ پرانے گروہ کونسا ختم ہوگئے ؟؟؟ ابھِی بھی جنرل شریف کے مطابق ایک سال ” مزید ” لگے گا ۔
بظاہر لگ رھا ھے اسلامی ممالک کا عسکری اتحاد اور ہمارے خطے کے روایتی دشمنوں کی دوستیاں بھی دھشت گردی یا جہاد کے خاتمے کے لئے وجود میں آئے ہیں یعنی کہ اب ایک عدد عالمی اتحاد پایا جاتا ھے پھر اسے یورپ افریقا ایشیاِء اور عرب ممالک کے مزید اتحادوں میں تقسیم کردیا گیا ھے اور اسکے لئے تنازعات و اختلافات کو عارضی طور پہ پس پشت ڈالنے کی تیاریاں ہیں یہی وجہ ھے کہ بغداد میں سعودی سفارت خانے نے 1991 کے بعد اب دوبارہ کام کا آغاز کردیا ھے ، اسکا سیدھا مطلب ھے کہ دنیا کا مسلہ اب آلودگی غربت تعلیم وغیر نہیں رہی یک نکاتی ایجنڈا ھے اور وہ ھے دھشت گردی یا مسلمانوں کے خلاف جنگ ۔
اسلامی خطوں میں حکمرانوں اور عوام کی سوچ کا زاویہ مختلف ھے لیکن ابلاغی یلغار اور کچھ جہادی گرہوں کے وحشیانہ حملوں کے نتیجے میں کے نتیجے میں کم از کم دھشت گردی کے نکتے پہ اب فریقین ایک دوسرے کے قریب آرھے ہیں ۔
کاش کہ عالمی امن کے ٹھیکیدار اتنا سب کچھ کرنے کے بجائے مسلمانوں کے خود سے جڑے تنازعات حل کرنے کی جانب توجہ دیتے جو کہ قتل و قتال کی بڑی وجوھات میں سے ایک ھے ۔۔لیکن
[pullquote]برا ہو اسلحہ سازی کی صنعت کا کہ انسان کو انساں بھی رھنے نا دیا ان سرمایہ داروں نے[/pullquote]