اک ستارہ تھا میں کہکشاں ہو گیا

قاضی حسین احمد مرحوم کی وفات قوم کے لیے ایک انتہائی دکھ کی گھڑی تھی ، قاضی صاحب جو جگہ خالی چھوڑ گئے اسے پر کرنا تقریبا بلکہ یقینا ناممکن ہے ، قوم ایک ایسے رہنما سے محروم ہو گئی ہے جو درحقیقت ان کی امنگوں کا ترجمان تھا ، ایک ایسا رہنما جو امت مسلمہ کا درد رکھتا تھا اور جس کی وحدت کے لیے وہ تمام عمر سرگرم رہا ۔

قاضی حسین احمد پاکیزہ اور مسنون سیاست کی ایک مسلسل اور بے نظیر مثال تھے ۔ انہوں نے پیرانہ سالی کے باوجود نوجوانوں کی مانند ملی ، سیاسی اور دینی خدمات سرانجام دیں ۔ ان کی ہمت ، جوش و ولولہ ، خلوص اور مقصد سے لگن قابل رشک اور کارکنوں کے لیے مثال تھی ۔ انہوں نے اپنی بیماری کو مقصد میں رکاوٹ نہ بننے دیا ، وہ عالم اسلام کے اتحاد کے سب سے بڑے نقیب تھے ۔ قاضی حسین احمد عالم اسلام کی تمام اسلامی تحریکوں کے لیے قائد اور رہنما کا درجہ رکھتے تھے ۔ ان کی رحلت مراکش سے انڈونیشیا تک پھیلی اس امت کے لیے نقصان عظیم قرار دی گئی ، وہ اپنے پیچھے ایک ایسا خلا چھوڑ گئے ہیں جسے بھرنے کے لیے ایک مدت درکار ہے ۔

قاضی حسین احمد ۱۹۳۸ء میں ضلع نوشہرہ (صوبہ خیبر پختون خوا) کے گاؤں زیارت کاکا صاحب میں پیدا ہوئے اور اپنے دس بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹے تھے ۔ انہوں نے ابتدائی تعلیم گھر پر اپنے والد مولانا قاضی محمد عبدالرب سے حاصل کی پھر اسلامیہ کالج پشاور سے گریجویشن کے بعد پشاور یونیورسٹی سے جغرافیہ میں ایم ایس سی کی ۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعد جہانزیب کالج سیدو شریف میں بحیثیت لیکچرار تین برس تک پڑھاتے رہے ۔ اس کے بعد ملازمت جاری نہ رکھ سکے اور پشاور میں اپنا کاروبار شروع کردیا اور سرحد چیمبرآف کامرس اینڈ انڈسٹری کے نائب صدر منتخب ہوئے ۔

دوران تعلیم ہی اسلامی جمعیت طلبہ پاکستان میں شامل ہوئے یہاں تک کہ قاضی حسین ۱۹۷۰ء میں جماعت اسلامی کے رکن بنے اور ۱۹۷۸ء میں جماعت اسلامی پاکستان کے سیکرٹری جنرل بنے اور ۱۹۸۷ء میں جماعت اسلامی پاکستان کے امیر منتخب کر لیے گئے اور چار مرتبہ امیرمنتخب ہوئے ۔ ان کے جرأت مند عوامی کردار کی وجہ سے جب ’’ظالمو ! قاضی آرہا ہے‘‘ کا نعرہ وجود میں آیا تو دیکھتے ہی دیکھتے ضرب المثل بن گیا ۔ یہ نعرہ صرف ایک نعرہ ہی نہیں تھا ، بلکہ جماعت اسلامی کی سوچ اور فکر میں آنے والی ایک تبدیلی بھی تھی ۔ انہوں نے جماعت اسلامی کو گلے سڑے نظام کی تبدیلی کا استعارہ بنادیا ۔ یہ وہ دور تھا جب آج کی طرح بات نہیں کی جاتی تھی بلکہ اس زمانے میں شاید جماعت اسلامی ہی وہ واحد جماعت تھی جس نے قاضی حسین احمد کی امارت میں اس نعرے کو عام کیا ۔ قاضی حسین احمد تھانوں میں مظلوموں کی امداد کے لئے پہنچ جاتے اور ظالموں کے خلاف خود مظلومو ں کے ساتھ آکھڑے ہوتے ۔

انہی دنوں یہ بھی کہا گیا کہ قاضی حسین احمد جماعت اسلامی کے لیے "گوربا چوف” کا کردار ادا کر رہے ہیں کیونکہ جماعت اسلامی کی سیاست یا تنظیم کا یہ انداز نہیں تھا جسے قاضی صاحب نے متعارف کرایا لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ بات ثابت ہوئی کہ قاضی حسین احمد کی اس پالیسی نے جماعت اسلامی کو قومی دھارے کی ایک اہم سیاسی جماعت بنادیا ۔ ایک ایسی جماعت جس پر ایک خاص نظریے کی محدودیت کا لیبل لگا ہوا تھا ، ایک موثر جماعت کے طور پرابھری اور بعد ازاں اس تبدیلی کی علامت بن گئی ۔

قاضی حسین احمد کی اس پالیسی کو خو د جماعت کے اندر اس طرح سراہا گیا کہ انہیں جماعت کی دوبارہ امارت سونپ دی گئی ۔ قاضی حسین احمد کا متحدہ مجلس عمل کی تخلیق میں بھی کلیدی کردار تھا ۔ یہ سیاسی ومذہبی جماعتوں کا ایک ایسا اتحاد تھا ، جس نے ایک اہم سیاسی طاقت کے طور پر اپنا وجود منوایا ۔ اس کی مقبولیت کا ثبوت اس وقت ملا جب خیبر پختون خوا میں متحدہ مجلس عمل نے صوبائی حکومت بنائی اور قومی اسمبلی میں بھی قابل ذکر نشستیں حاصل کیں اگرچہ متحدہ مجلس عمل سے وابستہ توقعات پوری نہ ہوسکیں اور مختلف مسائل کی وجہ سے سرحد میں ان کی حکومت کوئی قابل ذکر کام نہ کرسکی ، جس کا خود قاضی حسین احمد بھی اعتراف کرتے تھے ۔

قاضی حسین احمد ۱۹۸۵ء میں چھ سال کے لیے سینیٹ کے ممبر منتخب ہوئے ۔ ۱۹۹۲ء میں وہ دوبارہ سینیٹر منتخب ہوئے تاہم بعد ازاں حکومتی پالیسیوں پر احتجاج کرتے ہوئے استعفٰی دے دیا ۔ ۲۰۰۲ء کے عام انتخابات میں قاضی صاحب دو حلقوں سے قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے ۔ تحریک نظام مصطفی کے علاوہ افغانستان پر امریکی حملوں اور یورپ میں پیغمبر اسلام کی شان میں گستاخی پر مبنی خاکوں پر احتجاج کرنے پر گرفتار کیاگیا ۔ دوران گرفتاری انہوں نے متعدد اہم مقالہ جات لکھے ، جو بعد میں کتابی صورت میں شائع ہوئے ۔

قاضی حسین احمدکے دو بیٹے اور دو بیٹیاں ہیں ۔ قاضی صاحب کو اپنی مادری زبان پشتو کے علاوہ اردو ، انگریزی ، عربی اور فارسی پر عبور حاصل تھا ۔ وہ ایک اعلیٰ پائے کے سیاست دان ، سیاست میں شرافت کی علامت اور محب وطن پاکستانی تھے ۔ میاں طفیل محمد مرحوم کے بعد جب انھوں نے جماعت اسلامی کی امارت سنبھالی تو اس وقت جماعت اسلامی مارشل لا کی بی ٹیم کہلاتی تھی ۔ سوویت یونین کے خلاف افغان مجاہدین کی جنگ آزادی کی بھرپور حمایت سے قاضی حسین احمد نے جماعت کو ایک متحرک سیاسی و مذہبی جماعت بنادیا ۔ وہ اپنی تقاریر میں علامہ اقبال کے اشعار استعمال کرتے اور قومی ایشو زکو اجاگر کرتے ۔ انھیں علامہ اقبال کا کلام ازبر تھا اور اس تناظر میں انہیں حافظ اقبال بھی کہاجاتا تھا ۔

انہیں یہ اعزاز بھی حاصل رہا کہ انہوں نے جماعت کے جلسے اور جلوسوں کے اجتماعات کے روایتی انداز کو بدل کر اسے پرجوش اورجدید عوامی رنگ دیا ۔ اس طرح وہ عام لوگوں کو صالحین کے قریب کرنے میں کچھ کامیاب بھی رہے دیگر جماعتوں کی مدد سے بننے والے اتحادوں میں شامل ہوکر اورعام انتخابات میں بھی بھرپور شرکت کرکے جماعت اسلامی کو سیاست کے عوامی دھار ے میں شامل رکھا اور مشرف دور میں ۲۰۰۸ء کے انتخابات کا بائیکاٹ کرکے انھوں نے جماعت پر سے مارشل لا کی بی ٹیم کا ٹھپہ اتارنے کی بھی کوشش کی ۔ قاضی حسین احمد ۷۴ سال کی عمر میں بھی ایک متحرک اور جواں ہمت رہنما کی طرح اپنا مشن جاری رکھے ہوئے تھے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لیکن پھر اچانک ان کا بلاوا آگیا اور وہ 6 جنوری کو فانی دنیا سے مستقل دنیا میں چلے گئے ۔

مالک سے دعا ہے کہ قاضی صاحب کے درجات بلند فرمائے ، انکی تمام خدمات قبول کرے اور ہمیں قاضی صاحب جیسے مزید قائدین و حکمراں نصیب کرے ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے