رواں سال کے پہلے ماہ پاکستان میں مہنگائی کی شرح 27.6 فیصد ریکارڈ کی گئی۔ جوکہ ملک کی پچاس سالہ بلند ترین سطح ہے۔ جبکہ اقتصادی ماہرین کے نزدیک اس شرح کا 5 فیصد سے بڑھنا معیشیت پر منفی اثرات مرتب کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج ملک میں بے روزگاری، مہنگائی اورغربت میں ہوش ربا اضافہ دیکھنے کو ملتا ہے۔ جس کے نیتجے میں بنیادی ضرورت کی اشیا ءبھی عوام کی دسترس سے باہر ہو چکی ہیں۔ ہر طرف معاشی بحران کا تذکرہ ملتا ہے اور ملک کے دیوالیہ ہونے کی باتیں بھی زبان زد عام ہیں۔ “پاکستان موجودہ بحران سے کب اور کیسے نکل پائے گا؟” اس سوال کا جواب تبھی ممکن ہے جب ہم اپنے سامنے یہ سوال بھی رکھیں کہ پاکستان یہاں تک کیسے پہنچا.
پاکستان کی تاریخ کا جائزہ لیں تو معیشت اعدادوشمار کے لحاظ سے اتار چڑھاؤ کا شکار ہی رہی ہے۔ موجودہ بحران کی زیادہ ذمہ داری ماضی اور حال کے حکمرانوں اور انکی ناقص منصوبہ بندیوں پر عائد ہوتی ہے۔ مگر ہمیں یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیے کہ کرونا کی وبا، تاریخ کے بد ترین سیلاب، عالمی کساد بازاری اور یوکرین کی جنگ سے پیدا ہونے والے حالات نے بھی اس میں اپنا حصہ ڈالا ہے۔ماضی میں پاکستان کی معیشت کو کبھی دہشت گردی نے تباہ کیا اور کبھی یہ زلزلوں، سانحوں اور سیلابوں کی نذر ہوئی تو کبھی پاکستان کی جغرافیائی مجبوریوں اور معاشی پابندیوں نے ریاست کو مشکل میں ڈالے رکھا۔ صرف گزشتہ سال کے سیلاب سے ہونے والے نقصانات کا تخمینہ 30 ارب ڈالر سے زیادہ کا لگایا گیا ہے۔ جو کہ بلاشبہ ایک کمزور معیشت کے لئے بہت بڑا جھٹکا ہے۔
بلاشبہ موجودہ صورتحال اور ملکی معیشت کی تنزلی میں ہمارا اپنا کردار سب سے زیادہ ہے۔ ہمارے حکمرانوں نے ماضی میں ووٹرز کو راغب کرنے کی غرض سے کچھ ایسے معاشی فیصلے لیے جو قابل فہم نہ تھے۔ مہنگی توانائی کا حصول، سبسڈیز کا بے ترتیب استعمال، بےجا بیرونی قرضے اور پبلک سیکٹر کرپشن کی زد میں رہنے کا نتیجہ یہ ہوا کہ گزشتہ سال ملکی زر مبادلہ کے ذخائر 3 ارب ڈالر کی پستی کو چھونے لگے تھے۔ پاکستان کو ہر سال قرض کی ادائیگی کے لیے 13 ارب ڈالر درکار ہیں۔ 18 ارب ڈالر کا کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ اور 49 ارب ڈالر کا تجارتی خسارہ بھی اپنی جگہ قائم ہے۔ بہت زیادہ معاشی اعداد و شمار اور نمبرز میں الجھے بغیر اگر پاکستان کی معیشت کو سمجھا جائے تو ایک بات واضح ہوتی ہے۔ ہمیں ہمیشہ سے بیلنس آف پیمنٹ کے مسائل کا سامنا رہا ہے۔ رواں سال ملک میں بجٹ کا خسارہ تقریباً 4 ارب روپے ہے۔ سادہ الفاظ میں حکومتی اخراجات اور آمدن میں 4 ارب روپے کا فرق ہے۔
حکومتی آمدن کے دو بنیادی طریقے ہوتے ہیں۔ پہلا ملک میں ٹیکس کا نظام اور دوسرا اسٹیٹ انٹرپرائزز، جیسا کہ پی آئی اے، اسٹیل ملز، ریلوے اور پاکستان پوسٹ جیسے اداروں کی آمدن وغیرہ۔ پاکستان میں ٹیکس کا نظام پرانا اور ناقص ہے۔ جبکہ پاکستانی اسٹیٹ انٹرپرآئزز سرکاری خزانے پر ہی بوجھ بنتے ہیں۔ اخراجات اور آمدن کے اس فرق کو پورا کرنے کیلئے ماضی کی حکومتوں نے بیرونی قرضوں کا سہارا لیا اور یوں ہرآتے سال سود سمیت قرض بھی بڑھا اور بجٹ میں خصارہ بھی۔ اس خصارے کا سب سے زیادہ اثر ملک میں ترقیاتی کاموں پہ پڑتا ہے۔ بجٹ میں خصارے کے باعث نئے اسکول، کالجز، اور ہسپتال نہیں بن پاتے اور نہ ہی سرکار کے خزانے میں غریب کی مالی مدد کیلئے کچھ بچتا ہے۔
رہی سہی کسر ملک میں توانائی کی قلت پورا کر دیتی ہے اور پرائیویٹ سیکٹر ملک میں قدم نہیں رکھتا۔ دوسری طرف کسی بھی ملک کی معیشت کو مظبوط بنانے میں برآمدات کا اہم کردار ہے مگر بدقسمتی سے پاکستان سوائے ٹیکسٹائل، سرجیکل آلات، اور کھیلوں کے سامان کے علاوہ کوئی قابل ذکر پروڈکٹ بھی برآمد نہیں کرتا۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان بیلنس آف پے منٹ کرائسس کا شکار ہے۔ یہ کرائسس تب ہوتا ہے جب کسی ملک کے پاس اتنے ڈالر نہیں ہوتے کہ وہ اپنا غیر ملکی قرض ادا کر سکے یا درآمدات حاصل کرسکے۔ ایسے موڑ پے حکومتیں آئی ایم ایف کا رخ کرتی ہیں۔
عمومی تاثر کے برعکس آئی ایم ایف وه مالیاتی ادارہ ہے جو بیلنس آف پے منٹ کرائسس کا شکار ممالک کی مالی مدد کو آتا ہے۔ اس بین الاقوامی ادارے کی مالیاتی پالیسیوں پر تحفظات اپنی جگہ مگر یہ وه دشمن نہیں جیسا کہ حکومتی عہداداران اسے بتاتے ہیں۔ آئی ایم ایف پروگرام کی شرائط مشکل مگر ضروری ہیں۔ جس کی بہت سادہ اور بنیادی شرط حکومتی آمدن میں اضافہ اور اخراجات میں کمی کرنا ہے۔ آمدن میں اضافے کیلئے ٹیکس میں اضافہ مجبوری ہے اور حکومتی اخراجات میں کمی کا مطلب سب سیڈیز اور سوشل سروسز کا خاتمہ ہے۔
سادہ الفاظ میں غریب کےلئے مشکلات میں مزید اضافہ ہے۔ آئی ایم ایف پروگرام کے مثبت اثرات ریاستی سطح پر نوٹ کئے جاتے ہیں مگر اس کے منفی اثرات کا بم غریب شہریوں پر گرتا ہے۔ رومزہ کے استعمال کی اشیا قوت خرید سے باہر ہو جاتی ہیں اور ریاست ایک خاموش تماشائی بنے شہریوں کو غربت کے دلدل میں دیکھنے پر مجبور رہتی ہے۔ پاکستان کے موجودہ معاشی مسائل کا واحد حل بڑے پیمانے پر سٹرکچرل ریفارمز ہیں۔ جب تک ہم پاکستان میں بزنس فرینڈلی ماحول نہیں بناتے اور سرمایہ کاری کی راہ میں حائل غیر ضروری رکاوٹوں کو دور نہیں کرتے تب تک مسائل حل ہونا تو دور کی بات ہم معاشی غیر یقینی کی دلدل میں مزید دھنستے جائیں گے۔
ملک میں سیاسی استحکام پہلی شرط ہے۔ معاشی پالیسیوں کا تسلسل دوسری اہم ضرورت ہے۔ ملک میں ٹیکس اصلاحات بھی وقت کی ضرورت ہیں اور اسٹیٹ انٹرپرائزز کا منافع میں ہونا بھی لازم ہے۔ مگر سب سے زیادہ ضرورت اس امر کی ہے کہ ملک کی اشرافیہ اور کاروباری برادری اس بات کو سمجھے کہ پاکستان کا معاشی بحران صرف سیاسی جماعتیں حل نہیں کر سکتیں۔ کاروباری سرگرمیوں کا فعال رہنا بہت ضروری ہے۔ زرمبادلہ ایسے وقت میں ملک سے باہر لے جانا معیشت کا گلا گھونٹنے کے مترادف ہے۔ اور ضروریات زندگی کو ذخیرہ کرنا غریب کا قتل ہے۔