اے پی ایس پشاورکے حادثے نے پوی قوم کواداس کیا مگر ساتھ ہی دہشت گردی کے خلاف فکری وحدت بھی نصیب کی۔چارسدہ یونیورسٹی کا حادثہ ہوا تو نتیجہ بالکل برعکس نکلا۔یہی قوم بکھرتی ہوئی نظر آئی۔انتشارِ فکر اور اضطراب نے ہمیںگھیرلیا۔ معلوم ہوا کہ ریاست اور سماج کی ہم آہنگی تو ایک طرف،وفاقی اور صوبائی حکومتیں بھی ہم آواز نہیں ہیں۔سوال یہ ہے کہ درمیان کے ایک سال میں ایسا کیا ہوا جس نے وحدت کو انتشار میں بدل دیا؟وزیر داخلہ کو کیوں یہ کہنا پڑا کہ بندوق سے جیتی ہوئی جنگ،نفسیات کے میدان میں ہار دی گئی؟
واقعہ یہ ہے کہ یہ جنگ نفسیات کے میدان میں کبھی لڑی ہی نہیں گئی۔ذہنی یکسوئی کے بغیر نفسیاتی جنگ نہیں جیتی جا سکتی۔ذہنی یکسوئی فکری وحدت کی متقاضی ہے۔اس محاذ پر نہ صرف یہ کہ کوئی پیش رفت نہ ہوسکی، بلکہ اس کے برعکس، پراگندگی میں اضافہ ہوا۔معلوم یہ ہوا کہ حکومت کے پاس سماج کا کوئی ایسا سنجیدہ مطالعہ ہی مو جود نہیں ہے جو کسی نفسیاتی جنگ کی اساس بن سکے۔ریاست صرف ایک نکتے پر واضح تھی:جن کے ہاتھ میں بندوق ہے،انہیں بندوق کے زور سے کچل دیا جائے۔اس میں ریاست کامیاب رہی۔لیکن ساتھ ہی یہ بھی ہواکہ ایک طرف ہاتھ کٹتے رہے اور دوسری طرف مزید اگتے رہے۔ اعداد وشمار یہ کہتے ہیں کہ ساٹھ ہزار افراد دہشت گردی کے خلاف جنگ میں کام آچکے۔کم لوگ جانتے ہیں کہ ان میں آ دھے سے زیادہ دہشت گرد تھے۔’ساؤتھ ایشیا ٹیررازم پورٹل‘ کے مطابق ،2003ء سے 24 جنوری2016ء تک مرنے والے 59880میں سے 32550دہشت گرد تھے۔اتنے لوگ مارنے کے با جود ریاست اور سماج بدستور خوف میں زندہ ہیں۔ذہنی انتشار اسی خوف کی دَین ہے۔کوئی کہتا ہے سکول بند کر دو۔کوئی کہتاہے کھلے رکھو۔آخر اتنے ہاتھ کہاں سے آ رہے ہیںکہ کٹتے جاتے ہیں اورساتھ ہی اگتے جاتے ہیں؟
نفسیاتی جنگ کیسے جیتی جا سکتی ہے جب ہم یہ بھی نہیں جانتے کہ اس جنگ نے سماج کی نفسیات پر کیا اثرات مرتب کیے ہیں۔محدود سطح پر جو مشق ہوئی،اس کے نتائج پریشان کن ہیں۔وزارتِ صحت نے ایک بار’دماغی صحت پروگرام‘ کے تحت فاٹا کا ایک جائزہ لیا۔ معلوم ہواکہ فوجی ایکشن، دہشت گردی اور نقلِ مکانی نے صرف بچوں کو چھ طرح کے نفسیاتی عوارض میں مبتلا کر دیاہے۔2009ء میں ‘سرحد ہسپتال برائے نفسیاتی امراض‘ میں 97000 مریض آئے۔2011ء میں ان کی تعداد 90000 تھی۔ان میں پچاس ہزار مریض وہ تھے جو تشدد آمیزسماجی فضا کے باعث بیمار ہوئے۔ سب سے زیادہ اثرات کے پی کے رہنے والوں پر پڑے۔ایک سروے یہ بتاتا ہے کہ یہاں کی 54 فیصدآ بادی نفسیاتی طور پر متاثر ہے۔کیا ہم نے پورے ملک کی سطح پر کوئی ایساجائزہ لیا ہے کہ دہشت گردی نے کس طرح عوامی نفسیات کو برباد کیاہے؟
گزشتہ ایک سال میں ایک قومی بیانیہ مرتب نہیں ہو سکا۔ایک وجہ یہ ہوئی کہ اس مقصد کے لیے ہم کوئی سماجی مطالعہ ہی نہ کر سکے جوناگزیر تھا۔مطالعہ تو دور کی بات، اس کی ضرورت کا احساس بھی کہیں دکھائی نہیں دیا۔ وزیر داخلہ کی بے شمار طویل تقاریر اور پریس کانفرنسوں میں کہیں اس کی کوئی جھلک دکھائی نہیں دی۔جوابی بیانیے کی تشکیل کے لیے سب سے پہلے ان عوامل کا جائزہ ضروری تھا جس نے دہشت گردی کے بیانیے کو جواز بخشا ہے۔مثال کے طور پر چند سوالات کے جواب تلاش کرنا لازم تھا:
1۔دہشت گردی کے بیانیے کی تشکیل میں مذہبی تعبیر کا کتنا دخل ہے؟سماج میں اس تعبیر کے ماخذ کون کون سے ہیں؟
2۔دینی مدارس سے فارغ التحصیل ذہن اس بیانیے سے کتنا متاثر ہے؟
3۔ محراب و منبر کا مجموعی پیغام کیا ہے؟
4۔ایسا کیوں ہے کہ دہشت گردی کے واقعات میں ملوث زیادہ افراد، جدید تعلیمی اداروں کے فارغ التحصیل ہیں؟جدید تعلیمی اداروں میں اس بیانیے کی ترویج اور اشاعت میں کون ملوث ہے؟
5۔ غربت و افلاس کا اس بیانیے کی مقبولیت میں کتنا دخل ہے؟جو لوگ اس جرم میں پکڑے گئے،ان کا تعلیمی ومعاشی پس منظرکیا ہے؟پڑھے لکھے بے روزگار نو جوان کیا سوچ رہے ہیں؟
6۔عوام کو سماجی و معاشی انصاف کی فراہمی میں ریاستی ادارے کیوں ناکام ہیں؟یہ ناکامی اس بیانیے کے فروغ کا کس حد تک باعث ہے؟
7۔ماضی میں ریاست نے قومی مفاد کے نام پر غیر ریاستی عناصر کی جس طرح سرپرستی کی، اُس کا انجام کیا ہوا؟اس سے قومی مفاد کو فائدہ پہنچا یا نقصان؟اب ان عناصر کا دہشت گردی کے بیانیے سے کیاتعلق ہے؟
8۔کس علاقے میں یہ بیانیہ زیادہ مقبول ہے اور کیوں؟
9۔رائے سازوں نے اس بیانیے کو فروغ دیا یا اسے رد کیا؟ریاستی ذرائع ابلاغ نے اس بیانیے کے رد کے لیے کیا کوئی حکمتِ عملی اپنا ئی؟
10۔افغانستان کے بارے میں ہماری خارجہ پالیسی کا دہشت گردی کے بیانیے کے فروغ میں کتنا حصہ ہے؟
ان سوالات کے جواب سے ہم یہ جان سکتے ہیں کہ دہشت گردی کے بیانیے کو فروغ دینے میں مذہبی تعبیر، تعلیمی نظام،سماجی بے انصافی اورریاستی اداروں کی ناکامی کا کتنا دخل ہے۔ظاہر ہے کہ جو جوابی بیانیہ تشکیل پائے گا،وہ ان عوامل کے تدارک پر مبنی ہوگا۔اس طرح ہم وہ حکمتِ عملی تشکیل دے سکیں گے جو پوری قوم کو ایک فکری وحدت میں پرو دے۔اس کے بعدہی نفسیاتی جنگ جیتی جا سکتی ہے۔
بعض اہلِ علم اور نجی اداروں نے کوشش کی ہے کہ جوابی بیانیہ تشکیل دیں اور ان عوامل کا جائزہ لیں جو دہشت گردی کے بیانیے کو تقویت پہنچا رہے ہیں۔چند ایسے جائزے میری نظر سے گزرے ہیں، تاہم ان کی ساکھ (credibility)کے بارے میں کچھ کہنا مشکل ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ گزشتہ ایک عشرے کے دوران میں دہشت گردی کا مطالعہ ایک کاروبار بن گیا تھا۔اس میں جو جس قدر زیادہ سنسنی پھیلا سکتا تھا،اسی قدر مقبول ہوتا تھا۔یوں لوگوں نے تحقیق اور دیانت کے معیارات کو نظرا نداز کیا۔اس وجہ سے ضرورت تھی کہ ریاستی سطح پریہ مشق کی جاتی اور پھر ایکشن پلان تشکیل دیا جاتا۔
اگر کچھ دیر کے لیے صرف یہ دیکھا جاتا کہ جن ممالک کو دہشت گردی کا سامنا رہا،ان کی حکمتِ عملی کیا رہی تو بھی بہت کچھ سیکھا جا سکتا تھا۔ممکن ہے کہ سرکاری افسران نے اس عنوان سے دنیا کا سیر سپاٹا کیا ہو، لیکن ایسا کوئی مطالعہ سامنے آیا نہ ایکشن پلان میں اس کا کوئی عکس ہی دکھائی دیا۔مثال کے طور پر9/11 کا حادثہ ہوا تو صرف پانچ دن کے اندر(Random Digital Dialing) کے تحت اس کا جائزہ لیا گیا کہ اس سانحے نے نیویارک کے شہریوںکی نفسیات پر کیا اثرات مرتب کیے۔ایسا ہی ایک مطالعہ واشنگٹن میں بھی کیا گیا۔
اس میں شبہ نہیں کہ بندوق کے محاذ پر ہمارا پلڑا بھاری رہا۔2013ء میں 3001 عام شہری اس جنگ کی نذر ہوئے۔2015ء میں یہ تعداد 940 تھی۔اس کا زیادہ کریڈٹ بندوق والوں کو جاتا ہے جن میں فوج، پولیس اور سلامتی کے دوسرے بندوق بردار ادارے شامل ہیں۔نفسیاتی جنگ توسیاسی قیادت اور سماج نے مل کر جیتنا تھی۔اس کے لیے نا گزیر ہے کہ ریاست اور سماج ایک بیانیے پر متفق ہوں جس کی روشنی میں سب کا کردار متعین ہو۔یہ کردار کیا ہو؟ماضی میںاپنائے گئے رویوں میں کیا تبدیلی آئے،لازم ہے کہ نیشنل ایکشن پلان، ان سوالات کے عملی جواب فراہم کرے۔جب تک یہ نہیں ہو گا نفسیاتی جنگ نہیں جیتی جا سکتی۔پھر ہاتھ کٹتے رہیں اور ساتھ اگتے بھی رہیں گے۔ ہمیں جلاد اور ریاست کے کردارمیں فرق کو واضح کر نا ہوگا۔
بشکریہ دنیا