سیاستدانوں کی لڑا ئیاں بعید قیاس نہیں ہم روزِ اول سے ہی سیاستدانوں کو آپس میں لڑ تا دیکھ رہے ہیں اور اس لڑائی سے فائدہ کس کو ہوتا ہے یہ بھی سب جانتے ہیں ہم اس حقیقت سے بھی خوب واقف ہیں کہ اہل سیاست کی آپسی لڑائی کا مقصد پاور کے سوا کچھ نہیں ہوتا میرے علم میں نہیں کہ کسی سیاستدان نے دوسرے سیاستدان کو قومی ایشو پر صدق دل سے تنقید کا نشانہ بنایا ہو ہاں البتہ یہ قومی معاملات پر سیاست کرتے ضرور دکھائی دیتے ہیں لیکن کچھ دن قبل چوہدری نثا ر اور خورشید شاہ نے جو طبلہ جنگ بجایا ہے اس میں براہ راست اقتدار کا کوئی پہلو بھی نظر نہیں آتا
۔ خبر یہ ہے اس جنگ کو باقاعدہ پلاننگ کے تحت شروع کیا گیا جس کا مقصد چند افراد کا تحفظ ہے‘ یہاں میں نے جان بوجھ کر جنگ کا لفظ استعمال کیاہے عام تاثر یہی ہے کہ دو ریاستوں یااقوام میں لڑی جانے والی لڑائی کو جنگ کہا جاتا ہے لیکن میرا یہ ماننا ہے کہ دو قوموں کی لڑائی شاید اتنی نقصان دہ ہ نہ ہو جتنی کہ اقتدار کی رسہ کشی کسی قوم کیلئے خطرناک ثابت ہو سکتی ہے ‘کم وبیش ایک سال قبل چوہدری نثار اور چوہدری اعتزاز احسن میں بھی ایک ایسی ہی جنگ شروع ہوئی تھی اس وقت اعتزاز احسن نے لیگی وزراء کو پورس کے ہاتھی قرار دیا تھا موصوف نے چوہدری نثار پر بھی کڑی تنقید کی تھی لیکن اس وقت چوہدری نثار نے وزیراعظم صاحب کا کہا مان کر’’ اعلیٰ ظرفی ‘‘کا مظا ہرہ کیا تھا اور بات ختم ہوگئی لیکن اب چوہدری صاحب بھی یہ جان گئے کہ لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانتے اور یہ بھی کہ طویل خاموشی مسئلے کا حل نہیں جناب نے اپوزیشن لیڈر کو تو آڑھے ہاتھوں لیا ہی لیکن ساتھ اپنی حکومت کو بھی رگڑا لگا دیا
چوہدری نثار کی پریس کانفرنس تک تو معاملہ اتنا پیچیدہ نہ تھا کہ کی صلح صفائی کی گنجائش باقی تھی مگر عزیر بلوچ کی گرفتاری نے معاملات کو پیچیدہ بنا ڈالا اب ملکی سیاست ایک نئی کروٹ لے گی ہم جس گندی سیاست سے بچنے کی کوشش کر رہے ہیں اب شاہد وہ گندی ترین سیاست میں تبدیل ہو جائے لیکن اسکے باوجود اپوزیشن فرینڈلی بلکہ برادرانہ ہی رہے گی۔
دوسری طرف یہ چوہدری نثار اور وزیراعظم صاحب کی ناراضگی کے چرچے بھی زبان زدِ عام ہیں ‘ہر چھ ماہ بعد ناراضگی اور صلح بھی بہت سارے سوالات کو جنم دیتی ہے سب سے پہلا سوال تو یہی ہے کہ چوہدری نثار میں ایسی کونسی خوبی ہے جس بنیاد پر وہ ن لیگ پر راج کررہے ہیں اور ان کے مخالف ہر حربہ آزمانے کے باوجود انہیں پست نہیں کر پارہے ۔غالبا 2002ء تھا جب چوہدری نثار نے پیپلز پارٹی میں جانے کا فیصلہ کر لیا تھا بلکہ یوں کہا جائے تو زیادہ بہتر ہوگا کہ چوہدری صاحب پیپلز پارٹی میں جا چکے تھے بس شمولیت کا اعلان باقی تھا( اس سب کے پیچھے بھی ایک الگ کہانی ہے) لیکن شہباز شریف نے چوہدری نثار کو منا لیا اوریوں انہوں نے پارٹی چھوڑنے کا فیصلہ ترک کر دیا آج چوہدری نثار جس مقام پر ہیں وہ ن لیگ میں چند ایک لوگوں کو ہی حاصل ہے
اگر پارٹی خدمات کی بات کی جائے تو جاوید ہاشمی اس مقام کے حق دار تھے جو آج چوہدری نثار کو حاصل ہے ‘چوہدری تنویر گو کہ جناب کا کردار مشکوک ہے لیکن پارٹی کیلئے ان کی خدمات بھی کسی سے کم نہیں لیکن معاملہ یہاں خدمات کا نہیں کچھ اور ہے چوہدری نثار کو عوامی لیڈر بھی نہیں کہا جاسکتا ماضی میں ان کے بارے میں یہ بات مشہور تھی کہ موصوف کسی کو سلام کرنے کے بعد فورا ٹشو سے ہاتھ صاف کیا کرتے تھے ‘ ایسا بھی نہیں کے انہوں نے اپنے حلقے میں کو انقلابی کام کیا ہو وہاں بھی کم ہی لوگوں کو ان تک رسائی ملتی ہے‘ان کے حلقے میں نہ تو پارٹی کی کوئی باقاعدہ تنظیم ہے اور نہ ہی انہیں الیکشن کے دنوں میں اتنے پوسٹر تقسیم کرنے کی ضرورت پیش آتی ہے جتنی کے دوسرے امیدوار اپنے حلقوں میں تقسیم کر تے ہیں ‘ ایک جلسہ ہی ان کی کامیابی پر مہر ثبت کر دیتا ہے حلقے میں ترقیاتی کام بھی نہ ہونے کے برابر ہیں الٹا چوہدری صاحب کو جو منصوبہ پسند نہ آئے اسکی تکمیل میں روڑے اٹکاتے دکھائی دیتے ہیں غا لبا پانچ سال پہلے ایک پل کے افتتاح کے معاملے پر ان کا اپنے مخالفین سے ٹا کرا ہوا
مجھے امید ہیں دونوں پارٹیوں کے دوچار لوگ اب بھی سلاخوں کے پیچھے ہونگے ‘چکری گاؤں کی طرف رخ کریں تو سڑک کی خستہ حالی دیکھ کر یقین نہیں آتا کہ یہ وزیر داخلہ کا حلقہ ہے‘ پورے پاکستان کی طرح چوہدری صاحب کے حلقے میں بھی مظلوم کو ایف آئی آر کیلئے کسی سے فون کرانا پڑتا ہے ‘تھانہ کلچر پوری آب و تاب کے ساتھ اپنے کر شمے دکھا رہا ہے ‘پٹواری بھی سر عام رشوت لیتا ہے لیکن اس کے باوجود حلقے میں وہ جیت جاتے ہیں تو اسکی وجہ سمجھ میں آتی ہے کہ برادری ازم اور پپو پٹواریوں کی محنت ‘کچھ حلقوں کا کہنا ہے کہ شہباز شریف کی دوستی چوہدری نثار کو یہاں تک لے آئی اور کچھ کا کہناہے کہ اسٹبلشمنٹ میں اثر و اسوخ ان کا میابی کا راز ہے لیکن یہ سب ہوائی باتیں ہیں جن پر یقین کرنے کو جی نہیں مانتا۔ماضی کہ بارے میں کچھ کہا نہیں جاسکتا لیکن موجودہ حالات خصوصا چو ہدری نثار کی پی ٹی آئی میں شمولیت کی افوہوں کو مد نظر رکھتے ہوئے آخری تجزیہ یہی ہے کہ عمران خان کے خوف نے چوہدری نثار کی اہمیت میں اضافہ کر دیا ورنہ شاہی خاندان اس قدر تنقید برداشت کرنے کا حوصلہ نہیں رکھتا‘ میں وثوق سے کہتا ہوں کہ لیگی قیادت یہ سمجھنے سے قاصر ہو گی کہ چوہدری نثار حکومت کیلئے مسئلہ ہیں یا مسئلے کا حل دونوں ہی صورتوں میں چوہدری نثار ن لیگ کیلئے ضروری ہیں کیونکہ اس وقت ن لیگ کہ پاس چوہدری نثار کا کوئی متبادل نہیں اس وقت اگر پی ٹی آئی میں شمولیت کی افواہیں سچ ثابت ہوگئیں تو آئندہ الیکشن میں ن لیگ کو ناقابل تلافی نقصان ہوگا۔