اِس میں کیا گفتگو کہ اگر تربیت یافتہ اور نظریاتی افراد کی کمیابی ہو تو بغاوتیں کامرانی کا سبب بننے کی بجائے ناکام ٹہرائی جاتی ہیں- پانچ سال قبل عرب دنیا میں اُبھرنے والی بغاوت کو بھی آج ایسی ہی صورتحال کا سامنا ہے- ناکام بغاوت کے بعد پورے خطے میں رجعت، ریاستی جبر اور قتل و غارت گری کا راج ہے۔ انسانیت ایک بار پھر سسک رہی ہے۔ جن خوابوں کی بنیاد پہ عرب انقلاب ابھرے تھے، اُن میں سے کوئی بھی شرمندہ تعبیر نہیں ہوا- اُس وقت ناقابلِ شکست نظر آنے والے اہلِ حکم کے تخت لرز اُٹھے اور محکموں کی بغاوت نے خطے کی صورت بدل کر رکھ دی- عرب بغاوت سے اِس موقف کی نفی ہوئی کہ تاریخ کا خاتمہ ہوچکا ہے اور ساتھ ہی اِس موقف کی تائید ہوئی کہ طبقات کے تضاد کی کوکھ سے ہی بڑی بڑی بغاوتیں جنم لیتی ہیں- اِس نظام کے تجزیہ نگاروں کے تناظر کے بالکل برعکس انقلاب کی چنگاری شعلوں میں بدل گئی جو چند ہفتوں میں مشرق وسطیٰ، عرب دنیا اور نواحی خطوں کے بیشتر ممالک میں پھیلتے چلے گئے۔ اُس حیران کن اور ولولہ انگیز بغاوت کی پسپائی سے اسباق سیکھنے کی ضرورت بھی ہے-
2011ء میں بڑی تحریکیں تیونس، مصر، شام، اردن، اسرائیل اور یمن میں اٹھیں۔ مذکورہ بغاوتوں اور تحریکوں میں ہراول کردار ادا کرنے والے نوجوانوں کے جذبے سچے تھے لیکن وہ راستے اور منزل سے نا آشنا تھے۔ اِن ممالک میں پھٹنے والی بغاوتوں کی قوتِ محرکہ معاشی بدحالی اور طبقاتی استحصال تھی۔ لوگ اپنے سلگتے ہوئے معاشی مسائل اور حکومتوں کی سرمایہ دارانہ پالیسیوں کے خلاف بغاوت کررہے تھے۔ عرب انقلابی تحریکوں کے اس بنیادی پہلو کو عالمی ذرائع ابلاغ نے چھپانے کی بھرپور کوشش کی ہے۔ عوام کے حقیقی مسائل کی بجائے “جمہوریت” اور “انسانی حقوق” کا ڈھنڈورا پیٹا گیا تاکہ اس نظام کی تبدیلی کے سوال کو دبایا جاسکے جو یہ مسائل حل کرنے سے قاصر ہے۔ زندگی اور وقت سے ہارے ہوئے سابقہ بائیں بازو کا کردار بھی انتہائی شرمناک تھا۔ سوشلزم سے “الرجک” اِن حضرات نے پہلے تو تیونس اور مصر کی عوامی بغاوتوں کو “سازش” قرار دے کر انقلاب ماننے سے ہی انکار کر دیا تھا۔ تاہم یہ حضرات اِس حوالے سے کوئی منطقی دلیل یا توجیح پیش کرنے سے قاصر تھے کہ کروڑوں لوگوں کو خرید کر ایک سازش کس طرح برپا کی جاسکتی ہے؟ بہتر سماج کے لئے جدوجہد کی انسانی جبلت اور انقلاب سے انکاری یہ حضرات اور کر بھی کیا سکتے ہیں؟ بد ترین اندھے وہ ہیں جو دیکھنا ہی نہیں چاہتے-
اِس خالصتاً عوامی بغاوت نے قاہرہ سے لے کر واشنگٹن تک حکمرانوں کے ایوان ہلا کر رکھ دیئے ہیں۔ عرب عالمی سرمایہ دارانہ نظام کی ایک اہم اور مضبوط کڑی ہے۔ یہاں محنت کش طبقے کے استحصال، جبر اور تشدد کی ایک لمبی تاریخ ہے۔ اِس خطے میں ابھرنے والی بغاوت کو اِسی ضمن میں دیکھنا ہو گا- تیل کی دریافت اور دوسری معدنیات کی دولت کی بدولت اِس خطے میں بادشاہت کی جڑیں مضبوط ہوتی گئیں اور اِن کا جبر اور استبداد بھی بڑھتا گیا۔ اس دوران یہ بادشاہتیں خطے میں سامراجی کردار بھی ادا کرتی رہیں اوراسلامی بنیاد پرست اور دہشت گرد تنظیموں کی مالی امداد بھی کرتی رہیں- اپنی بادشاہت اور جبر کو قائم رکھنے کے لیے اِس خطے کے مقتدر حلقے اپنے ملک میں ابھرنے والی بغاوتوں کو بھی خون میں ڈبوتے رہے۔ ایک وقت میں شاہ فیصل نے اپنے خلاف بغاوت کرنے والے فوجیوں کو ہوائی جہاز سے بغیر پیراشوٹ کے ہزاروں فٹ کی بلندی سے پھنکوایا تھا۔ جو لوگ عرب دنیا کے ممالک کے دوروں پہ گئے انہوں نے بظاہر وہاں ترقی دیکھی اور غربت کا نام نشان تک نہ تھا، یہ ایسے ہی ہے جیسے کوئی غیرملکی باشندہ اسلام آباد آنکلے تو وہ دنیا کا خوبصورت دارالحکومت دیکھے گا، مگر زیرزمین پنپتی ہوئی بےچینی اور بغاوت دیکھنے سے قاصر رہے گا- یہی انسانی بغاوتوں کی تاریخ ہے- استحصال پہ مبنی نظام اور طبقات کا تضاد بےچینی اور عدم استحکام پیدا کرتے ہیں- یہی بےچینی بتدریج اضافے کے ساتھ سماجی بغاوت کی راہ ہموار کرتی ہے- مگر یہ سب زیرزمین یعنی سماج کے اندر ہی اندر چلتا رہتا ہے، عین اُسی وقت سماج کی نظر آنے والی پَرت جمود اور ٹہراؤ بیان کرتی ہے- لوگ اپنے اپنے خرچ پہ اپنی اپنی حدبندیوں میں مقید رہتے ہیں- اِس قسم کا بظاہر سماجی، تمدنی اور سیاسی جمود اپنے نیچے ہی نیچے بہت بڑے بےچین سماج کی سسکیوں کی پرورش کررہا ہوتا ہے- ایک واقعہ، ایک حادثہ یا ایک ٹکراؤ اِنہی سسکیوں کو دھماکے کی شکل تبدیل کر دیتا ہے- عرب ممالک میں ابھرنے والی بغاوت کا آغاز بھی ایک ایسے ہی واقعے سے ہوا یعنی ایک نوجوان “بو عزیزی” کا ریاستی قتل…!
لیکن اِن بغاوتوں کے انجام پہ ریاست اور سرمایہ دارانہ نظام اپنی جگہ بدستور موجود ہیں۔ انقلاب کے وقت کوئی انقلابی تنظیم اور تربیت یافتہ کارکن موجود نہ تھے- کسی انقلابی تنظیم کی طرف سے کسی قسم کا متبادل پیش نہیں کیا گیا، ایسا کوئی متبادل جو تحریک کو بورژوا جمہوریت کی حدود سے آگے بڑھا کر حقیقی سماجی تبدیلی کا باعث بن سکتا تھا۔ ان حالات میں تحریک بورژوا جمہوری حدود کے اندر مقید ہو کر رہ گئی۔ تاریخ گواہ ہے کہ کسی نہ کسی نظریاتی تنظیم نے عوامی بغاوت کو راہنمائی دینی ہوتی ہے- سماج کی جس نظریاتی تنظیم کی تربیت، بندوبست اور تیاری مکمل ہوتی ہے، وہی اُس بغاوت کو آگے بڑھانے کا فریضہ سنبھال لیتی ہے- بدقسمتی سے عرب ممالک میں “اخوان المسلمین” اور اِسکی برادر تنظیموں کا تربیتی اور تنظیمی کام تھوڑا یا زیادہ جاری تھا، جسکے نتیجے میں اِنہی تنظیموں کے کارکنوں نے خلاء کو وقتی طور پر پُر کیا- مگر یہ تنظیمیں ایک انقلابی پروگرام سے لیس نہیں تھیں، جو محنت کشوں اور نوجوانوں کوفتح سے ہمکنار کر سکے۔ یہ تنظیمیں محض مذہبی نعروں اور رجعتی پالیسیوں سے عوام کو نیا لالی پاپ دینا شروع ہوگئی-
جس بات اور حقیقت کو سمجھنے کی ضرورت ہے وہ یہ ہے کہ عرب کے انقلاب کے سماجی و جمہوری مطالبات کیا ہیں؟ آزادی، روزگار اور سماجی انصاف اور ان میں سے کوئی ایک بھی سرمایہ دارانہ نظام اور بورژوا جمہوریت کے ہوتے ہوئے حاصل نہیں ہوسکتا- عرب ممالک کی آمریت کسی طور ایک عام سادہ آمریت نہیں تھی بلکہ یہ ایک مالیاتی آمریت تھی، ایک سرمایہ دارانہ آمریت تھی جو کہ ملکی و عالمی اجارہ داریوں کے منافعوں کو یقینی بنائے ہوئے تھی- اِن ممالک کے عوام کے مطلوبہ انقلاب کیلئے اور حقیقی جمہوری آزادی کیلئے لازم ہے کہ معیشت کو لوگوں کی ملکیت میں دے دیا جائے ۔اور معیشت کو اس کے ورکروں کے جمہوری کنٹرول میں چلانے کا اہتمام کیا جائے تاکہ وہ اسے اجتماعی مفاد کیلئے بروئے کار لا سکیں۔ یہ بنیادی جمہوری مطالبہ سرمایہ دار طبقہ کے مفادات سے متصادم ہونا مانگتا ہے- عرب کے انقلاب کے قومی اور جمہوری تقاضے ناگزیر طورپر سوشلسٹ اور انٹرنیشنلسٹ تقاضوں سے جڑے ہوئے ہیں‘ خالص جمہوریت کی ابتدا حکمران طبقے کی دولت کی ضبطگی سے ، آمریت کے دور کے بدمعاشوں کو کھونٹی سے ٹانگنے سے‘ عالمی اجارہ داریوں کے مفادات کو بے دخل کرنے سے اور غیر ملکی قرضے کو ضبط کرنے سے ہی ہوگی ۔
اِن ممالک میں جو حکومتیں بنائی اور سامنے لائی گئی ہیں، اِس قسم کا پروگرام اُن کے بس کی بات نہیں ہے۔یہ تو قائم ہی حکمران طبقے کی مرضی ومنشا سے ہوئی ہیں۔ جس کا مقصد ہی عرب ممالک میں سے انقلاب کے جوش و جذبے کو اکھاڑ پھینکنا اور بورژوا جمہوری اداروں کی حاکمیت کو ازسرنو بحال اور مسلط کرنا ہے۔ آنے والے دنوں میں عرب کے نوجوانوں اور محنت کشوں کا سرمایہ دارانہ حکومتوں کے ساتھ تصادم شروع ہوگا جو کہ انقلاب کے ایک نئے مرحلے کا باعث بنے گا۔ مرکزی نکتہ یہ ہے کہ اس نئے انقلابی ابھار کی جستجو اور جدوجہد کے مقاصد کو سمجھنے اور ممکن بنانے والا انقلابی متبادل سامنے لایاجائے-