یہ قوم کی بازیابی کا سوال ہے

محترم صحافی نے درست نشان دہی کی ۔ انہوں نے اپنے جس کالم کا حوالہ دیا تھا اس کا عنوان پڑھنے میں سہو نظر ہوا۔ ’طالبان نے کس کے ہاتھ مضبوط کئے‘ کو ’طالبان کے ہاتھ کس نے مضبوط کئے‘ پڑھا۔ غلطی ہوئی مگر معنی سے خالی نہیں تھی۔ فرائیڈ کی نفسیات کی روشنی میں کچھ اشارے دریافت کئے جا سکتے تھے مگر عزیز محترم کے ضمن میں ’سخن فہمی عالم بالا معلوم شد‘ کا مضمون منطبق ہوتا ہے۔ ان کا توسن خیال تو ’دانش ورانہ بددیانتی‘ کے میدانوں میں کلیلیں بھرتا ہے۔ چنانچہ دانش ورانہ بددیانتی ہی پر بات ہونی چاہئے۔ محترم صحافی کو’ اسلام سے شرمانے والے‘ دانش وروں کی بہت فکر ہے ۔ دیکھئے شرم اور حیا میں چولی دامن کا ساتھ ہے۔انسانی فرد کے بہت سے حیاتیاتی اور فکری پہلو ہر انسان کے ساتھ لگے ہیں اور اسے بے حد عزیز ہیں۔ موافقت، موانست اور باہم رضا کے کچھ مقامات پر تو خلوت کے یہ راز افشا کئے جاسکتے ہیں لیکن انہیں سربازار لہرایا نہیں جاتا۔ جوتیوں سمیت دوسروں کی آنکھوں میں نہیں گھسا جاتا۔ عقیدہ بھی انہی مظاہر میں سے ایک ہے۔ ہمیں اپنے اپنے ایقان کیلئے دلیل کی ضرورت پیش نہیں آتی۔ انہیں بے دلیل تسلیم کیا جاتا ہے اور ان کا احترام کیا جاتا ہے۔ دوسری طرف کسی کی نوبلوغت کو ایسا ہی میٹھا برس لگا ہو تو اس کا بے محابا اظہاربے حیائی کہلاتا ہے۔ معاملہ مذہب سے شرمانے کا نہیں ، سب انسانوں کے مذہب کے احترام کا ہے۔

صاحب موصوف اس تاثر کو غلط قرار دیتے ہیں کہ’’ اسلامی پاکستان میں اقلیتوں کیلئے کوئی جگہ نہیں ہو گی‘‘۔ سوال ’جگہ‘ کا نہیں ، مساوات کا ہے۔ ہم پاکستان کے تمام شہریوں کیلئے یکساں درجہ اور حقوق مانگتے ہیں اور ہمارا مؤقف یہ ہے کہ بانیان پاکستان نے ہم سے اسی مساوات کا وعدہ کیا تھا اور اس کا اعلان کیا تھا۔

2نومبر 1941ء کو علی گڑھ یونیورسٹی کے طلبا سے خطاب میں قائد اعظم نے کہا کہ ’’آپ ہندوئوں اور سکھوں کو بتا دیں کہ یہ بات سراسر غلط ہے کہ پاکستان کوئی مذہبی ریاست ہو گی۔ جس میں ان کو کوئی اختیار نہیں ہو گا‘‘۔ قائداعظم نے 1946ء میں رائٹرز کے نمائندے ڈول کیمبل کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ ’’نئی ریاست ایک جدید جمہوری ریاست ہو گی جس میں اختیارات کا سرچشمہ (حاکمیت اعلیٰ) عوام ہوں گے۔ نئی قوم کا ہر شہری مذہب ، ذات یا عقیدے کے بنا پر کسی امتیاز کے بغیر یکساں حقوق رکھے گا۔ ‘‘ 11اپریل 1946ء کو مسلم لیگ کنونشن دہلی میں تقریر کرتے ہوئے قائد اعظم نے کہا کہ ’’ہم کس چیز کے لئےلڑ رہے ہیں۔ ہمارا مقصد تھیوکریسی نہیں ہے اور نہ ہی ہم تھیو کریٹک اسٹیٹ چاہتے ہیں۔ مذہب کے وجود سے کون انکار کر سکتا ہے اور مذہب ہمیں عزیز بھی ہے۔ لیکن اور چیزیں بھی ہیں جو زندگی کیلئے بے حد ضروری ہیں۔ مثلاً ہماری معاشرتی زندگی، ہماری معاشی زندگی اور بغیر سیاسی اقتدار کے آپ اپنے عقیدے یا معاشی زندگی کی حفاظت کیسے کر سکیں گے۔ ‘‘ یہاں واضح طور پر قائد اعظم مذہب اور سیاست میں تفریق کر رہے تھے۔ یکم فروری 1948ء کو امریکی عوام سے ریڈیو خطاب میں قائد اعظم نے فرمایا۔ ’’پاکستان ایک ایسی مذہبی ریاست نہیں بنے گا جس میں ملائو ں کو مذہبی نصب العین کی روشنی میں حکومت کرنے کا اختیار ہو۔ ہمارے ملک میں بہت سے غیر مسلم شہری موجود ہیں مثلاً ہندو، مسیحی اور پارسی وغیرہ لیکن وہ سب پاکستانی ہیں۔ انہیں وہی حقوق اور مراعات حاصل ہوں گے جو دیگر شہریوں کو دئیے جائیں گے اور انہیں پاکستان کے امور مملکت میں اپنا کماحقہ کردار ادا کرنے کا پورا موقع ملے گا۔ ‘‘ 19 فروری 1948ء کو آسٹریلیا کے عوام کے نام ایک نشریاتی تقریر میں قائداعظم نے اعلان کیا کہ ’پاکستان کی ریاست میں ملائوں کی حکومت (Theocracy) کیلئے کوئی جگہ نہیں ہو گی۔ ‘ قائداعظم نے 11 اگست 1947 ء کو دستور ساز اسمبلی میں پاکستان کے باشندوں سے جو وعدہ کیا تھا، ہمارے محترم صحافی کو اس سے نظریں چرانے کی ضرورت کیوں پیش آتی ہے۔ قائد کی تقریر کا خلاصہ یہ تھا کہ پاکستان میں جدید جمہوری نظام رائج ہو گا جس میں ملک کے سارے شہریوں کو مذہب کی بنیاد پر کسی امتیاز کے بغیر ایک جیسے حقوق حاصل ہوں گے۔ قائد اعظم کا یہ جملہ کہ ’’مذہب کا ریاست کے امور سے کوئی تعلق نہیں‘‘ سیکولرازم کی بہترین تعریف ہے۔ قائد اعظم نے اس تقریر میں نظریہ پاکستان بھی بیان کر دیا تھا اور وہ یہ کہ ’’ہمیں چاہئے کہ ہم شہریوں کی خصوصاً عوام اور غریبوں کی فلاح و بہبود کیلئے اپنی تمام کوششیں مرتکز کر دیں‘‘۔ قائد اعظم کی یہ تقریر ان کی طویل سیاسی زندگی کا تسلسل تھا انہوں نے تحریک خلافت میں شرکت سے انکار اس لئے کیا تھا کہ وہ تحریکِ خلافت کو سیاسی کی بجائے مذہبی تحریک سمجھتے تھے۔

پاکستان میں بھارت کے پہلے ہائی کمشنر سری پرکاش کی یاد داشتیں شائع ہو چکی ہیں ۔ لکھتے ہیں کہ ’’میں نے ستمبر 1947ء میں ایک ملاقات میں قائد اعظم سے کہا کہ ’اگرچہ یہ بٹوارہ مذہبی اختلافات کی وجہ سے ہوا ہے لیکن اس تقسیم ہو جانے کے بعد اس پر زور کیوں دیا جائے کہ پاکستان ایک اسلامی حکومت ہے۔ کیونکہ اگر پاکستان کو بار بار اسلامی حکومت نہ کہا جائے تو غیر مسلم باشندے پاکستان چھوڑ کر نہیں جائیں گے۔ اس پر محمد علی جناح نے کہا ’میں نے لفظ اسلامی کبھی استعمال نہیں کیا۔ تمہیں بتانا چاہئے کہ میں نے کہاں ایسا کہا ‘۔ سری پرکاش نے کہا کہ ’’وزیرِ اعظم پاکستان لیاقت علی خان نے کہا ہے کہ پاکستان اسلامی حکومت ہے‘‘۔ مسٹر جناح نے کہا کہ ’’پھر آپ لیاقت علی خان سے نمٹو۔ مجھ سے کیوں جھگڑ رہے ہو‘‘۔ سری پرکاش نے اصرار کرتے ہوئے کہا کہ ’’آپ نے 31اگست کو لاہور میں ریڈیو تقریر میں کہاکہ ’’پاکستان اسلامی ریاست ہے‘‘۔ قائد اعظم نے غصے سے کہا ’تم مجھے اصل بیان دکھائو‘۔ سری پرکاش لکھتے ہیں کہ واقعی قائد اعظم نے ’اسلامی‘ کا لفظ ایک بار بھی استعمال نہیں کیا تھا۔ البتہ لفظ مسلم کا پانچ چھ بار اعادہ کیا تھا۔ چنانچہ میں نے (یعنی سری پرکاش نے) خط لکھ کر قائد اعظم سے معذرت کی۔ قائد اعظم دونوں لفظوں کا مفہوم بخوبی سمجھتے تھے۔ مسلم ریاست سے مراد وہ ریاست لی جاتی ہے جہاں مسلمان باشندوں کی اکثریت ہو۔ دوسری طرف اسلامی ریاست اس مملکت کو کہا جاتا ہے جہاں قوانین کی بنیاد اسلامی احکامات ہوں۔ اگر دونوں اصطلاحات میں فرق نہ ہوتا تو قائد اعظم نے کہہ دیا ہوتا کہ ’مسلم ریاست‘ یا ’اسلامی ریاست‘ کہنے سے کیا فرق پڑتا ہے۔

پاکستان دستور ساز اسمبلی کے مباحث جلد پنجم میں پیر صاحب مانکی شریف کے نام قائداعظم کے خط کا متن موجود ہے۔ انہوں نے لکھا تھا۔ Shariah will be applied to the affairs of the Muslim community (مسلمانوں کے امور میں شریعت کا اطلاق کیا جائے گا )۔ ’’مسلمانوں کے امور میں‘‘ شریعت کا اطلاق کرنے اور ’’پاکستان میں شریعت نافذ‘‘ کرنے میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ مسلمانوں کے امور میں اسلامی اصول و ضوابط کے اطلاق سے کسے انکار ہو سکتا ہے۔ تاہم پاکستان میں شریعت نافذ کرنے کا مطلب اسے مذہبی ریاست بنانا ہو گا۔ افسوس کہ وزیراعظم نواز شریف قائداعظم کے اس نصب العین پر عمل پیرا ہونے کا عندیہ دیتے ہیں تو ہمارے محترم صحافی ارشاد فرماتے ہیں کہ وزیراعظم بہکی بہکی باتیںکرتے ہیں ۔ مولانا ظفر علی خان نے کہا تھا، ’فقیہ مصلحت بیں سے وہ رند بادہ خوار اچھا… نکل جاتی ہو سچی بات جس کے منہ سے مستی میں ۔

پاکستان کے باشندوں کی اکثریت نے نواز شریف کو وزیراعظم منتخب کیا ہے اور بدقسمتی سے نواز شریف بہکی بہکی باتیں کرتے ہیں۔ لاکھوں لوگ ویلنٹائن ڈے منانے کیلئے سڑکوں پر نکل آتے ہیں اور انہیں پولیس کے ذریعے روکا جاتا ہے۔ لوگ بسنت کی پتنگ اڑانے نکلتے ہیں تو چھتوں پر کھلے پھول دیکھ کر کچھ خوش نا اندیشوں کو آشوب چشم لاحق ہوتا ہے۔ پاکستان میں دہشت گردی کے ہاتھوں جلاوطن ہونے والی کرکٹ کا میلہ دبئی میں سجتا ہے تو وہاں نوجوان لڑکے لڑکیوں کو ہنستے کھیلتے دیکھ کر کراچی کے نامور مفتی صاحب اسلامی ای میل لکھتے ہیں۔ جھگڑا یہ نہیں کہ طالبان نے کس کے ہاتھ مضبوط کئے یا طالبان کے ہاتھ کس نے مضبوط کئے۔ قضیہ یہ ہے کہ طالبان کا فہم سیاست کسے قبول ہے؟ جھگڑا یہ ہے کہ پاکستان کو محترم صحافی اور ان کے ممدوح کراچی والے مفتی مدظلہ کے حوالے کرنا ہے یا پاکستان میں،یہاں کے باشندوں کی رائے کو بالادستی ہو گی۔ یہ قوم کی بازیابی کا سوال ہے۔

بشکریہ جنگ

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے