کچھ برسوں سے ’’تبدیلی‘‘ ہماری سیاست کا دلفریب نعرہ بن چکا ہے، اور اس کی گونج بالخصوص انتخابات کے دنوں میں پوری شدت کے ساتھ سنائی دیتی ہے۔ ’’تبدیلی کیوں؟‘‘ اور ’’تبدیلی کیسے؟‘‘ کے موضوعات پر ٹی وی مذاکروں میں گفتگو ہوتی ہے اور سوشل میڈیا پر نوجوان نسل اپنے دل کا غبار نکالتی ہے۔ لیکن تبدیلی کے نکتے پر ہماری یہ بحث زیادہ تر قومی سیاست سے متعلق ہوتی ہے، جس میں مختلف جماعتوں کے کردار کے علاوہ سیاسی رہنماؤں کے ماضی اور مستقبل پر بات کی جاتی ہے۔ ہمارے خیال میں ’’تبدیلی‘‘ کی بات کرتے ہوئے علاقائی سیاست اور مقامی سیاست دانوں کو بھی مدنظر رکھا جائے تو تصویر زیادہ واضح ہو جائے گی اور یہ بھی اندازہ ہو سکے گا کہ وہ تبدیلی کتنی دور ہیں، جس کا خواب ہم دیکھتے ہیں۔ اس کے لیے جنوبی پنجاب کے حلقہ 153کی مثال پیش کی جا سکتی ہے، جو کہ ملتان کی تحصیل جلال پور پیر والا پر مشتمل ہے۔ اگر تبدیلی کا مطلب دو، تین روایتی سیاسی خاندانوں کے بجائے مڈل کلاس، پڑھی لکھی اور نئی قیادت کا سامنے آنا ہے، جلال پور پیر والا کی حد تک کہا جا سکتا ہے کہ یہ منزل ابھی بہت دور ہے۔ قارئین اسی طرح اپنے اپنے حلقوں کا جائزہ لیں تو انہیں اندازہ ہو جائے گا کہ تبدیلی لانا آسان نہیں، اور اس مقصد کے حصول کے لیے پوری سنجیدگی کے ساتھ طویل جدوجہد کی ضرورت ہے۔
جلال پور پیر والا کی سیاسی تاریخ ایک جملے میں یوں بیان کی جا سکتی ہے کہ یہاں زیادہ عرصہ دیوان خاندان کی حکمرانی رہی ہے۔ مخدوم دیوان غلام عباس بخاری 1951ء سے 1982ء تک مختلف سیاسی عہدوں پر منتخب ہوتے رہے۔ ان کے بعد ان کی سیاسی وراثت ان کے بیٹے دیوان عاشق حسین بخاری کو ملی، جو 1985ء کے غیر جماعتی الیکشن میں ممبر پنجاب اسمبلی منتخب ہوئے۔ دیوان عاشق بخاری نے صوبائی اسمبلی کی نشست پر 88ء، 90ء اور 97ء کے انتخابات میں بھی کامیابی حاصل کی اور وہ صوبائی وزیر خوراک بھی رہے۔ اس عرصہ میں دیوان خاندان کی سیاسی مخالفت لانگ خاندان نے کی اور مشتاق لانگ مرحوم صرف 93ء کے الیکشن میں صوبائی اسمبلی کی نشست پر کامیابی حاصل کر سکے۔ 2002ء کے الیکشن میں نئی حد بندی کی وجہ سے جلال پور پیر والا کے علاقوں پر مشتمل این اے 153تشکیل دیا گیا، جو کہ شجاع آباد سے الگ تھا۔ 2002ء میں بی اے کی شرط کی وجہ سے دیوان عاشق کے بھائی دیوان جعفر نے این اے 153 میں الیکشن لڑا اور کامیابی حاصل کی۔ اس کے بعد 2008ء اور 2013ء کے الیکشن میں دیوان عاشق حسین بخاری ہی اس نشست پر کامیاب ہوئے۔ اس ساری تاریخ میں سیاسی جماعتوں کا ذکر اس لیے نہیں کیا گیا کہ یہ کبھی ایک رہی ہی نہیں۔ سیاست دانوں نے ہر الیکشن اپنی من پسند جماعت سے لڑا اور بعد میں حکومتی جماعت میں شمولیت اختیار کی۔
2008ء سے لانگ خاندان کی نغمہ مشتاق لانگ اور دیوان عاشق حسین بخاری میں سیاسی اتحاد چل رہا ہے۔ نغمہ مشتاق لانگ صوبائی حلقہ 206 سے الیکشن لڑتی ہیں، جبکہ دیوان عاشق کی دلچسپی کا مرکز قومی اسمبلی کا حلقہ این اے 153ہے۔ شجاع آباد کے نون خاندان کے رانا قاسم نون نے 2002ء کے الیکشن میں پہلی بار جلال پور کی سیاست میں حصہ لیا اور صوبائی نشست پر کامیابی حاصل کی۔ 2008ء اور 2013ء کے الیکشن میں قومی اسمبلی کی نشست پر وہ دیوان عاشق کے مدمقابل تھے۔2013ء کے الیکشن میں نون لیگ کی طرف سے دیوان عاشق نے 90 ہزار سے زیادہ ووٹ لیے، جب کہ پیپلز پارٹی کی ٹکٹ پر رانا قاسم بھی 88 ہزار کے قریب ووٹ لے گئے۔ اس کی وجہ جلال پور میں پیپلزپارٹی کی مقبولیت نہیں تھی، بلکہ اکثریت نے دیوان عاشق کے مخالف گروپ کی وجہ سے ووٹ دیے۔ کیونکہ لوگوں کا خیال تھا کہ تحریک انصاف کے امیدوار نے تو جیتنا نہیں، اس لیے اپنا ووٹ دوسرے امیدوار کو دے کر دیوان عاشق حسین کو ٹف ٹائم دیا جا سکتا ہے۔اب جعلی ڈگری کی وجہ سے دیوان عاشق کی رکنیت ختم ہو چکی ہے اور انہیں آئندہ الیکشن کے لیے نااہل قرار دیا جا چکا ہے۔ الیکشن کمیشن کے شیڈول کے مطابق 17 مارچ کو دوبارہ الیکشن ہوں گے، جبکہ کاغذات نامزدگی جمع کرانے کی تاریخ 17، 18فروری ہے۔
اب نئی صف بندی کے مطابق دیوان عاشق کے بیٹے دیوان محمد عباس بخاری امیدوار ہیں، جب کہ ان کا مقابلہ رانا قاسم نون کریں گے۔ ابھی یہ طے ہونا باقی ہے کہ وہ کن جماعتوں کی طرف سے لڑتے ہیں یا آزاد حیثیت میں مقابلہ کرتے ہیں۔ نون لیگ کی مقامی قیادت دیوان عاشق کے ساتھ ہے، جبکہ اعلیٰ قیادت نے ابھی تک فیصلہ نہیں کیا۔ رانا قاسم دیکھو اور انتظار کرو کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں اور انہوں نے کوئی واضح اعلان نہیں کیا۔ جنوبی پنجاب کے دوسرے حلقوں کی طرح حلقہ 153میں بھی اصل مقابلہ برادریوں اور مقامی سیاسی شخصیات کے درمیان ہے، جن کی ہمدردیاں پہلے سے طے ہیں۔ دیوان خاندان کو سیاسی بقا کا چیلنج درپیش ہے، جبکہ رانا قاسم جلال پور میں اپنے قدم مضبوط کرنا چاہتے ہیں۔ ان حالات میں ’’تبدیلی‘‘ دور دور تک نظر نہیں آ رہی۔