شطرنج کے موجد کا حیران کن حساب اور انعام

”کافی دنوں سے فیس بک کا ماحول کشیدہ ہے، سوچا کہ احباب کی ذہنی تفریح کیلئے ایک پوسٹ پیش کی جائے، تمام احباب یہ حساب ضرور چیک کریں آیا صحیح ہے یا غلط؟”

”موجد شطرنج کو بادشاہ وقت نے اپنے دربار میں طلب کرکے اظہارخوشنودی کے بعد فرمایا تمہاری اس دلچسپ کھیل کے لئے میں تمہیں منہ مانگا انعام دینے کے لئے تیار ہوں، موجد شطرنج نے از راہِ کسر نفسی عرض کیا ”حضور کی قدر دانی و عزت افزائی اور خوشنودی ہی میرے لئے کافی انعام ہے اس سے زیادہ مجھے کسی انعام کی ضرورت نہیں“ بادشاہ کے اصرار پر آخر کار موجد نے کہا ”شطرنج کے چونسٹھ خانے ہیں اس کے پہلے خانے میں ایک چاول، دوسرے خانے میں پہلے خانے سے دگنے اور تیسرے خانے میں دوسرے سے دگنے، غرضیکہ ہر آئندہ خانے میں گزشتہ خانے سے دگنے چاول، اسی طرح علیٰ ہٰذا الحساب چونسٹھ خانے چاولوں سے پرکردیئے جائیں، شطرنج کے تمام خانوں کے چاول میرا انعام ہوں گے۔

بادشاہ نے اس بظاہر حقیر سے مطالبے کو اپنی توہین وتذلیل خیال کرتے ہوئے رنج و غصے کا اظہار فرمایا کہ اس قدر قلیل مطالبہ شایان شان شاہانہ نہیں، تم کسی بڑے سے بڑے انعام کا مطالبہ کرو، موجد نے عرض کیا کہ جس مطالبہء انعام کو آپ حقیر وقلیل خیال فرماتے ہیں اس کو تمام روئے زمین کے خزانے بھی اد انہیں کرسکتے، باشاہ نے کہا کہ ان چونسٹھ خانوں کے چاولوں کی مجموعی مقدار دو چار سیر چاولوں سے زیادہ نہ ہوگی یا زیادہ سے زیادہ مبالغے کے ساتھ دس بیس سیر قیاس کی جاسکتی ہے جس کو ایک غریب ترین آدمی بھی بآسانی دے سکتاہے، روئے زمین کے تمام خزانوں کے ساتھ اس کی کیا نسبت ہے؟ موجد نے عرض کی کہ حضور ذرا حساب تو پھیلا کر دیکھیں چنانچہ محاسبان شاہی نے جب حساب لگایا تو چاولوں کا مجموعی وزن 7500000000000 (پچہتر کھرب من) کے قریب نکلا جو روپے دو سیر کے حساب سے 15000000000000 (پندرہ نیلم روپے) کے ہوئے جس کو واقعی تمام روئے زمین کے خزانے بھی نقد یا جنس کی صورت میں پورا نہیں کرسکتے،

بادشاہ نے اس محیر العقول حساب کا نتیجہ سننے کے بعد فرمایا کہ تمہارا یہ حسن طلب تمہارے حسن ایجاد سے بھی زیادہ انعام کا مستحق ہے۔ جو کسی بڑے سے بڑے دانا کے بھی وہم و قیاس میں نہیں آسکتا چنانچہ بادشاہ نے اپنی شانِ شاہانہ کے مطابق موجد کو زرِ کثیر انعام مرحمت فرمایا۔

کمترین مولف(مولانا رحمت اللہؒ) نے نہایت صحت کے ساتھ خود یہ حساب پھیلایا ہے، ناظرین میں سے کسی کو شبہ ہوتو تھوڑی سی محنت کے ساتھ اس کی تصدیق کرلے، میں نے رتّی کا اندازہ چاولوں کے ساتھ تولا تو پانچ سالم بڑے چاولوں کی ایک رتّی بنتی ہے ورنہ عام طور پر حساب میں آٹھ چاولوں کی ایک رتّی لکھی ہوئی ہے لہٰذا صحیح حساب پانچ چاول فی رتّی کے وزن سے لگایا جائے نیز واضح رہے کہ اسلام شطرنج یا اور کسی قسم کے لہو و لعب کی اجازت نہیں دیتا اورنہ ہی انسانیت اس کا تقاضا کرتی ہے کہ ایسے کھیل میں قیمتی وقت کو بے کار کھویا جائے، صرف حساب کاعجوبہ ظاہر کرنے کے لئے یہ حکایت لکھی گئی ہے کہ جسکو دیکھ کر عقل انسانی دنگ رہ جاتی ہے اور کوئی بڑے سے بڑا مبصر ومحاسب بھی چاولوں کی اس تعداد کثیر کایقینی اندازہ نہیں لگا سکتا تاوقتیکہ حساب پھیلا کر اس کی صحت کو تسلیم نہ کرلیاجائے۔”

(مخزن اخلاق ص 436، از مولانا رحمت اللہ سبحانی لدھیانویؒ)

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے