آج سے ٹھیک تین سال قبل مجھے اپنے ایک عزیز کے ساتھ (سجاد علی خان سوات) ملک کے معروف سیاستدان، قانون دان، دانشور، مصنف اور صوفی بیرسٹر ظفر اللہ خان سے ملاقات کا موقع ملا مجھے اس حقیقت کے اعتراف میں کوئی حرج حائل نہیں کہ اس ملاقات اور گفتگو سے میں بھرپور انداز میں لطف اندوز ہوگیا تھا۔ ایک ناظر کو سب سے زیادہ اطمینان جن دو خوبیوں کی بدولت مل سکتا ہے وہ ہیں علم اور مثبت انداز فکر، یہ خوبیاں جہاں اور جس میں بھی ناظر کو زیادہ میسر آئے گی اتنا ہی وہ آسودہ ہوگا۔
کتابیں، ملاقاتیں، پروگرامات، تبادلہ خیال، اظہار خیال، اختلاف خیال، محفلیں، کانفرنسیں اور لائبریریوں میں آنا جانا میرے لیے ہمیشہ سے رزق کی مانند رہا ہے۔ میرا یقین ہے ایسے سارے وسائل و ذرائع وہ ماحول پیدا کر رہے ہیں جس میں روح، ذہن، کردار، تخیل اور جذبات بہترین انداز میں نشوونما پاتے ہیں۔ ایک صوفیانہ قول ہے جو کافی عرصہ پہلے کسی محفل میں سنا تھا کہ "ہر انسان اللہ تعالیٰ کے رازوں میں سے ایک راز ہوتا ہے”۔ یہی وجہ ہے ہم کسی کے بارے میں حتمی رائے قائم نہیں کر سکتے زیادہ سے زیادہ بس اپنا ایک اندازہ بتا سکتے ہیں اور بس۔
حقیقت یہ ہے کہ ہر فرد مختلف طرح کے جذبات، احساسات، خیالات، معلومات، کیفیات، صلاحیتوں اور احوال کا ایک پورا سمندر ہوتا ہے اور جس سے اگر دوسرے چاہے تو خوب سیراب بھی ہو سکتے ہیں۔ ایک دوسرے کو اگر حکمت اور معقولیت سے کریدنے کی کوشش ہو تو کافی کام کی چیزیں ہاتھ لگ جاتی ہیں۔ میں اس امید سے ہر فرد کو دیکھتا ہوں اور اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ اکثر کامیاب ٹھہرتا ہوں۔ مجھے لوگوں سے شکایات کی نسبت خوشیاں اور خوبیاں کہیں زیادہ پانے کو ملی ہیں۔ یہ اللہ تعالیٰ کے خاص فضل و کرم اور انسانی ہستی میں موجود اس آبدی خیر کی بدولت ممکن ہو رہا ہے جس کی اللہ تعالیٰ کی ذات نے انسان کی کیمسٹری میں خوب آمیزش کی ہے۔
قطع نظر اس سے کہ بیرسٹر ظفر اللہ خان کی سیاسی سوچ کیا ہے یا ان کی سیاسی وابستگی کیسی ہے؟ میں نے ان کو ایک صاحب علم، وسیع الظرف، متحمل مزاج، دلچسپ اور جاندار قلم کار پایا۔ مسلم دنیا کے زوال و ادبار کی وجوہات کا انہوں نے جو گہرا ادراک کیا، ہم نے ان کے ساتھ کھلے دل سے مکمل اتفاق کیا مثلاً ان کا کہنا تھا کہ "علمی پسماندگی، فکری انحطاط، سائنسی علوم سے عمومی بے اعتنائی، فرقہ وارانہ رجحان، اجتماعی حقوق کی بے ترتیبی، ٹیلینٹ کی ناقدری، اخلاقی زوال اور قانون و آئین کی پاسداری کا شدید فقدان وہ اصل وجوہ ہیں جنہوں نے مسلمانوں کو پیچھے دھکیل دیا ہیں”۔
میں جس ماحول اور مزاج کے ساتھ رہتا ہوں وہ اعتدال اور اعتراف پر مبنی ہیں، مجھے جب، جہاں اور جس میں بھی خیر و خوبی نظر آتی ہے، بے اختیار قدم اس طرف بڑھنے لگتے ہیں اور واپس تب پلٹتے ہیں جب خوب استفادہ اور اعتراف ہوں۔ میری خوش قسمتی ہے کہ مجھے نوع بہ نوع لوگوں سے ملنے اور ان سے استفادے کے مواقع متواتر ملتے رہتے ہیں۔ ہم جس معاشرے میں رہتے ہیں اس میں لوگوں کے بنیادی احساسات کم و بیش ایک جیسے ہیں البتہ اظہار کے پیرائے کافی حد تک مختلف ہیں۔ میرا ماننا ہے کہ اگر ہم ایک دوسرے کو سمجھنے سمجھانے پر توجہ دیں تو ہم خود کو ایک دوسرے کے قریب تر پائیں گے۔ (یاد رہیں بیرسٹر ظفر اللہ خان کے والد صاحب راجپوت جبکہ والدہ محترمہ کرک کے خٹک قبیلے سے تعلق رکھتی ہیں، والدہ محترمہ ماشاءاللہ اب بھی بقید حیات ہیں)۔
اے کاش ہم میں باہم مل بیٹھنے کا مزاج اور رجحان فروغ پائے، دلائل اور نرمی سے ایک دوسرے کو قائل کرنے پر زور دیں تو غالب گمان ہے ہمارے درمیان اتفاق و اتحاد اور علم و فضل کے نت نئے راستے روشن ہو جائیں گے اور جن سے نتیجتاً ہے یی ظ و خوشحالی، قانون و انصاف اور انسانی شرف و عظمت کی منزل تک پہنچنا آسان ہو جائے گا۔
بیرسٹر ظفر اللہ خان سے ہماری ملاقات گھنٹہ ڈیڑھ پر محیط رہی جس میں اسلام، مغرب، سائنس، تاریخ، فلسفہ، تصوف اور سیاست جیسے موضوعات کا احاطہ ہوا۔ میں نے بعض مغربی زعماء کے حوالے سے پسندیدگی کا اظہار کیا مثلاً سابق جرمن چانسلر ایڈی نور تو کہا بہت خوب۔ ملاقات کے اختتام پر موصوف نے مجھے اپنی ایک کتاب (کسی اور زمانے کا خواب) تحفے میں دی جو میں نے شکریے کے ساتھ قبول کیا اللہ تعالیٰ ان کو سلامت رکھیں اور خوش و خرم بھی۔
مذکورہ کتاب سے چند اقتباسات پیش کرنا دلچسپی سے خالی نہ ہوگا!
1. انسانوں میں صلاحیت حیات، توانائی اور عظمت ان اعمال سے پیدا ہوتی ہیں جن کی تفصیل اللہ تعالیٰ نے دی ہے۔ یعنی علم، عبادت، صداقت، دیانت، محبت، خدمت، عدل اور گناہ سے نفرت۔ سچائی قوت ہے اور جھوٹ کمزوری ہے۔ عدل قوت ہے اور ظلم کمزوری۔ دنیا میں وہی اقوام قائم رہتی ہیں جو اچھے اعمال سے اپنے اندر زندگی کی قوت و صلاحیت پیدا کر لیں سورہ انبیاء میں ارشاد ہے۔
"ہم نے زبور میں (اچھائی اور برائی کے) ذکر کے بعد یہ بات لکھ دی تھی کہ زمین کے وارث وہی لوگ ہوں گے جو اچھے اعمال (قوت والے اعمال) کریں گے”۔ (105) صفحہ نمبر 11۔
2. ہمارے بادشاہوں کو انسانی شرف پسند نہ آیا۔ انہوں نے انسانوں کو جسمانی اور ذہنی طور پر غلام بنانا شروع کر دیا۔ غلاموں کی خرید و فروخت ہونے لگی۔ حرم میں باندیوں کا ہجوم بڑھنے لگا۔ علماء نے قرآن و حدیث کی تعلیمات کے خلاف فقہ کی کتابوں میں غلاموں اور باندیوں کے مسائل اور جواز کے دلائل دیئے۔ اسلام کی حریت کی تعلیم اور شرف انسانی کی تعظیم کو پس پشت ڈال دیا گیا۔جس نے بھی ذرہ آواز بلند کی اس کو قید و سلاسل میں ڈال دیا گیا۔ شہید کر دیا گیا۔ حضرت امام حسین، زید نفس ذکیہ، احمد ابنِ حنبل، امام ابوحنیفہ، مجدد الف ثانی اور امام سر خسی کی مثالیں سامنے ہیں۔ صفحہ نمبر 18
3. سید ابو الحسن علی ندوی کی اس رائے سے مجھے مکمل اتفاق ہے کہ امت مسلمہ کا اصل مسئلہ فکری انحطاط ہے۔ صفحہ نمبر 86۔
4. شاہ صاحب (شاہ ولی اللہ) کے بعد دیکھ لیں کوئی نظر نہیں آئے گا۔ عہد حاضر میں سر سید، حضرت اقبال اور مولانا مودودی کے نام سامنے آتے ہیں۔ سر سید کو ہم کافر سمجھتے ہیں۔ اقبال کو ہم نے آہستہ آہستہ قبول کرنا شروع کر دیا ہے۔ لیکن مولانا مودودی صاحب کو ابھی تک ہم عالم نہیں سمجھتے کہ اس کے پاس کسی مدرسہ کی ڈگری نہیں تھی۔ صفحہ نمبر 87۔
2018ء کو "پیغام پاکستان” کے تناظر میں منعقد اسلامی نظریاتی کونسل کے زیر اہتمام ایک کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے بیرسٹر ظفر اللہ خان نے نہایت فکر انگیز گفتگو رکھی۔ آئیے چند نکات کو اشارہ کرتے ہیں!
ان کا کہنا تھا
"کہ یہ بات سوچنے کی ہے کہ یہ نوبت ہی کیوں آئی کہ ہمیں نیا بیانیہ بنانا پڑا۔ ان کی رائے تھی کہ موجودہ انتہاء پسندی مسلم ممالک کی اس ناکامی کی وجہ سے رونما ہوئی، جو جدید دنیا کو ڈیل کرنے میں پیش آئی ہے۔ کسی بھی سماج کو جو فکری، نظری اور فلسفیانہ چیلنجز درپیش ہوتے ہیں، اگر وہ اس کا مقابلہ کر لیتا ہے تو بچ جاتا ہے، ورنہ اس کی موت واقع ہو جاتی ہے”۔
ان کا کہنا تھا
"کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دور کے قبائلی اسٹرکچر کو نئے سماج کی تشکیل کے لیے استعمال کیا۔ آپ نے شورائیت کا سبق دیا۔ نئے سماج کو عدل اجتماعی کی بنیاد پر کھڑا کیا۔ آپ نے حقوق انسانی کا تصور دیا۔ توہم پرستی کے مقابلے میں عقل و شعور کو استعمال کیا۔ اس طرح اسلام ایک بڑی تہذیب کے طور پر سامنے آیا۔ البتہ ملوکیت کے دور میں شورائیت کا سبق فراموش کر دیا گیا اور عدل اجتماعی و حقوق انسانی کو نظر انداز کر دیا گیا”۔
ان کا کہنا تھا
"کہ مسلمان ممالک مجموعی طور پر عہد حاضر کے چیلنجز کا صحیح طور پر سامنا کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ لہٰذا انتہا پسندی فطری اظہار کے طور پر سامنے آئی ہے۔ گذشتہ چند صدیوں میں جدید انسان نے جو سائنسی ترقی کی ہے، مسلم ممالک اس کا ساتھ نہیں دے سکیں۔ اس دور میں قومی ریاستوں کا وجود شوریٰ کے اصول پر استوار ہوا۔ مسلم سماج ابھی تک قومی ریاستوں کے تصور کو جذب نہیں کرسکا۔ ایک وہمی فکر ابھی تک باقی ہے کہ پوری دنیا میں ایک خلافت چلے گی اور ابھی تک ذہن اس امر میں مذبذب ہے کہ ملک کے آئین کو ماننا ہے کہ نہیں ماننا۔ اقلیتوں کے کیا حقوق ہوں گے، وہ ایک مسلمان سماج میں کیسے زندگی بسر کریں گے، یہ بھی مذہبی حلقوں میں ابھی تک زیر غور سوال ہے۔ ماضی کے مذہبی لٹریچر میں ایسی باتیں ملتی ہیں، جو آج درست معلوم نہیں ہوتیں”۔
ان کا کہنا ہے
"کہ سوشل سائنسز نے بہت ترقی کی ہے۔ انسان کا نیا علم کہاں سے کہاں جا پہنچا ہے۔ انہوں نے دنیا میں علم و تعلیم پر دی جانے والی توجہ کے حوالے سے ایک مثال دیتے ہوئے کہا کہ ایک ہارورڈ یونیورسٹی کا سالانہ بجٹ 32 بلین ڈالر ہے۔ ایک ایک یونیورسٹی کا بجٹ ہمارے کئی ملکوں کے بجٹ پر بھاری ہے”۔
ان کا کہنا تھا
"کہ قانون میں جو تبدیلیاں آئی ہیں، ابھی ہمیں ان کا اندازہ نہیں۔ ہمیں یہ جائزہ لینا ہے کہ اگر ریاست کا جدید تصور ہمیں قبول کرنا ہے تو پھر اس میں فتویٰ کی گنجائش کتنی ہے”۔
ان کا کہنا تھا
"کہ اسلامی فکر حقوق انسانی کی بحث سے دور کھڑی ہے۔ عورتوں اور بچوں کے حقوق کے بارے میں ابھی ہمیں بہت کچھ سوچنا ہے۔ ان کی رائے تھی کہ یہ ہیومنزم کا دور ہے اور ہیومنزم خدا کے بجائے انسان کو اپنا بنیادی نکتہ قرار دیتا ہے۔ ہم نے اس امر کا جائزہ لینا ہے کہ اسے ہمیں نے کتنی جگہ دینا ہے۔ ایک خلاء ہے اور ایک انتشار ہے، ایک غیر واضح سوچ ہے۔ غیر حقیقت پسندانہ باتیں ہوتی ہیں”۔