اگر خوشی زندگی کو رنگ دیتی ہے، تو غم اس رنگ میں گہرائی پیدا کرتا ہے۔ خوشی ہمیں ہنسنا سکھاتی ہے، مگر غم ہمیں سمجھنا سکھاتا ہے۔ اور شاید زندگی کی سب سے بڑی سچائی یہی ہے کہ جو غم کو سمجھ لے، وہ زندگی سے کبھی نہیں ہارتا۔ غم کوئی بھنورا نہیں ہے جو صرف گرداب میں گم کر دے، بخدا یہ سفاک درندہ ہے جو آہستہ آہستہ انسان کی روح کو چیر پھاڑ کر رکھ دیتا ہے۔ یہ خون نہیں پیتا، مگر حوصلوں کی رگوں سے امید کا سرخ رس چوس لیتا ہے۔ یہ زخم نہیں لگاتا، مگر ارادوں کی ہڈیوں کو بھربھرا کر دیتا ہے۔ غم انسان کو نگل جاتا ہے حرفاً حرفاً، سانس سانس، خواب خواب۔ اور جو بچ جاتا ہے، وہ صرف ایک خاکی سایہ ہوتا ہے، جس میں زندگی کی رمق نہیں، بس ایک کھوکھلی گونج رہ جاتی ہے۔
جب یہ دل پر چھا جاتا ہے تو ہنسنا بھی زہر لگنے لگتا ہے۔ کھانے کی خوشبو میں بھی تعفن اٹھنے لگتا ہے۔ روشنی بے رونق ہو جاتی ہے، اور چاندنی رات بھی کفن کی طرح سفید محسوس ہوتی ہے۔ غمگین آدمی کھاتا تو ہے مگر وہ کھانا اس کے جسم میں داخل ہونے کے بجائے غم کے پیٹ میں اترتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ غم زدہ لوگ دبلتے چلے جاتے ہیں نہ صرف جسمانی طور پر بلکہ روحانی طور پر بھی۔ کہتے ہیں شیطان کو مومن کے غم سے بڑھ کر کوئی چیز محبوب نہیں ہے کیونکہ جب انسان مایوس ہوتا ہے، تو وہ اس کے ایمان کی جڑوں کو کھوکھلا کرنے لگتا ہے۔
اُس شخص کے درمیان جو غم کو گزرتا ہوا سایہ سمجھتا ہے، اور اُس کے درمیان جو اسے اپنا مقدر بنا لیتا ہے وہی فرق ہے جو ایک زندہ دل کو مُردہ دل سے جدا کرتا ہے۔ اے بے عقل دیوانے اس بات کو تسلیم کر لے کہ غم کوئی پردیسی نہیں کہ تم اسے اپنے آنگن کا دیا بنا لو، نہ ہی وہ کوئی چور ہے کہ تم اس سے بچنے کے خاطر اپنے دل کے دروازے پر تالے ڈال دو۔ وہ تو بس ایک گزرتا ہوا پل ہے، جسے تم نے اپنی یادوں کی دھوپ میں پکڑ رکھا ہے۔
وہ نہ خنجر اٹھاتا ہے نہ زہر پلاتا ہے، مگر اس کے پنجے روح کی گہرائیوں تک اتر جاتے ہیں۔ سائنسدان اسے Chronic Emotional Stress کا نام دیتے ہیں، شاعر اسے دل کی ویرانی کا ہوا پرست قرار دیتے ہیں، اور ادیب اسے انسانی تجربے کا سیاہ باب پکارتے ہیں۔ غم درحقیقت ایک کیمیائی عمل ہے جو دماغ کے Amygdala کو متحرک کر کے Cortisol کے سیلاب بہا دیتا ہے یہ وہ زہر ہے جو رگوں میں اتر کر امید کے پھول مرجھا دیتا ہے۔
سائنسی تحقیق بتاتی ہے کہ طویل غم دماغی خلیوں کو سکڑنے پر مجبور کر دیتا ہے، خاص طور پر Hippocampus کو، جو یادداشت کا محافظ ہے۔ یہ ایسا ہے جیسے کوئی نظر نہ آنے والا کیڑا کتابِ حیات کے صفحات چاٹ رہا ہو۔ نفسیات کی زبان میں اسے Anhedonia کہتے ہیں، خوشی کے تمام ذائقے بے مزہ ہو جاتے ہیں، جیسے زبان پر نمک کے بجائے راکھ رکھ دی گئی ہو۔
شاعروں کی نظر میں غم سے متعلق مختلف تصورات پائے جاتے ہیں۔ ویرانی کا موسیقار، حافظ نے غم کو رازِ سربستہ کہا، غالب نے ہمہ گیر سکوت کی تعبیر دی، اور اقبال نے اسے خودی کی آزمایش قرار دیا۔ غم شاعری میں اکثر چاند کی مانند ہے نہ مکمل طور پر تاریک، نہ پوری طرح روشن۔ وہ ایک ایسا سُر ہے جو نہ تو مکمل طور پر مسلسل ہے، نہ یکسر خاموش، بلکہ دونوں کے درمیان کہیں الجھا ہوا ہے۔ یہ ایسا ہے جیسے کوئی ساز تار توڑ دے مگر گونج برقرار رہے۔
ادب کی روشنی میں غم سیاہی میں ڈوبا ہوا آئینہ ہے۔ ناول نگار غم کو کہانی کا غیر مرئی کردار بناتے ہیں۔ وکٹر ہیوگو کے ژان والژان کا غم اس کے کندھوں پر ایک نادیدہ بوجھ ہے، تو کافکا کے گریگور سمسا کا دکھ اس کے خول میں قید ہے۔ ادب میں کرشن چندر کے ایک گدھے کی سرگزشت میں غم ایک اجتماعی المیہ بن کر ابھرتا ہے۔ یہ وہ آئینہ ہے جو صرف اندھیرے کو عکس بناتا ہے اس میں چہرہ دکھائی نہیں دیتا صرف خلا گھورتا ہے۔
تہذیبی تناظر میں غم زمانے کا مستقل ساتھی ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ غم کبھی ایک فرد تک محدود نہیں رہا۔ بابِل کے قیدیوں کے غم نے مزامیرِ داؤد کو جنم دیا، تو دوسری طرف ہیروشیما کے دکھ نے Ōe Kenzaburō کے ناول تخلیق کیے۔ یہ وہ سایہ ہے جو تہذیبوں کے ساتھ سفر کرتا آیا ہے کبھی اس کا نام Weltschmerz (دنیا کا دکھ) ہوتا ہے، تو کبھی Saudade (گم شدہ کی تلاش)۔
فلسفیانہ نقطہ نگاہ سے غم انسان کو گہرا بناتا ہے۔ یہ وہ کھاد ہے جو روح کی زمین کو زرخیز کرتی ہے۔ مگر ارسطو نے اسے Catharsis (تزکیۂ نفس) کا ذریعہ قرار دیا ایک صفائی جو آنسوؤں کے ذریعے ہوتی ہے۔ رومی نے اسے چاکِ گریباں سے تعبیر کیا جس سے روشنی کے دروازے کھلتے ہیں۔
سچ بتاؤ کبھی کبھی ایسا لگتا ہے جیسے دل کے اندر کوئی خاموش طوفان رہتا ہے۔ بسا اوقات لوگ مسکرا کر نظر آتے ہیں مگر کوئی ان کے پیچھے کی لرزتی ہوا کو نہیں سنتے۔ میں نے کئی راتیں غم کے ساتھ گزاری ہیں کبھی دشمن سمجھ کر، کبھی دوست بنا کر۔ اور ایک دن یہ احساس ہوا کہ غم سے بھاگنے کے بجائے، اگر اسے سن لیا جائے، تو وہ خود سکوت میں بدل جاتا ہے۔
میں نے یہ بھی محسوس کیا ہے کہ جب زندگی تاریک ہو جاتی ہے، تو روشنی کا ایک ذرہ بھی سورج سے زیادہ چمکدار لگتا ہے۔ یہ میرا تجربہ ہے کہ جب دل ٹوٹ جاتا ہے، تو ٹکڑوں میں بھی ایک عجیب موسیقی بسی ہوتی ہے۔ میں نے سیکھا ہے کہ ناکامی کوئی شکست نہیں ہوتی یقین جانیے یہ ایک نئی شروعات کا اشارہ ہوتا ہے۔جب کوئی دروازہ بند ہوتا ہے تو کوئی ایک کھڑکی کھل ہی جاتی ہے ہاں، شاید وہ چھوٹی ہو سکتی ہے مگر اس میں سے آنے والی ہوا ہمارے غم کو اڑا لے جاتی ہے۔
جب زندگی کے تندوتیز ہواؤں نے مجھے بے یارومددگار چھوڑا، جب دکھ کی سیاہ راتیں میرے وجود کو کھردرا کرنے لگیں اور میں نے خاموشی کی گہری وادی کو اپنا مسکن بنا لیا بالکل اُس لمحے اللہ کے فضل و کرم کی ایک نئی کرن نے مجھے سنبھال لیا۔ جس موڑ پر میں ہار مان چکی تھی، وہیں سے میں نے ایک نئے عزم کے ساتھ اٹھ کر وہ جنگ جیت لی جو میں نے اپنے آپ سے لڑنی چاہی تھی۔ اور اگر کبھی ہزار کوششیں بھی نتیجہ نہ دے سکیں تو میں نے اپنے رب کا شکر ادا کیا کیونکہ وہ جانتا ہے کہ کون سا راستہ میرے لیے سبزہ زار ہے اور کون سا سنگلاخ۔ ہم تو محض راہ کے مسافر ہیں اُس کی حکمت پر بھروسہ کرنے والے۔
مجھے اکثر میرے عزیز و اقارب کہتے ہیں کہ تم ایک شکست خوردہ انسان ہو خوش فہمی میں رہنے والی ذہنی مریضہ ہوں۔ لیکن میں ان سب باتوں کو کیوں تسلیم کروں؟ میں تو ہمیشہ سے اپنے آپ کو سب سے مضبوط سمجھتی ہوں۔ ہاں، شاید میں نے کچھ معرکوں میں ہار مان لی، لیکن زندگی کا جنگ تو ابھی جاری ہے۔ اور اس جنگ میں، میری سب سے وفادار ہمدم کتابیں اور قلم ہیں یہ وہ ساتھی ہیں جو مجھے کبھی تنہا نہیں چھوڑتے۔ یاد رکھو، زندگی میں غم اور خوشی کا توازن ہمیشہ برقرار رہتا ہے۔ یہ دونوں ایک دوسرے کے بغیر ادھورے ہیں، جیسے رات کے بغیر دن بے معنی ہے۔
اسی طرح جب انسان تنہا ہوتا ہے، تو اس کے پاس یہ دو ہی سچے رفیق بہر صورت ہونے چاہیے کتابیں اور قلم۔ کتابیں تمہیں سنتی ہیں بغیر فیصلہ کیے اور قلم تمہارے دل کا زخم اپنی سیاہی میں بہا لے جاتا ہے۔ میں نے اپنے غموں اور پریشانیوں کو کاغذ پر اتارا ہے تو وہ میرے دل سے اتر جاتے ہیں۔ میں کتابوں میں دوسروں کے الفاظ، خیالات، جذبات اور احساسات پڑھتی ہو تو مجھے لگتا کہ میں تنہا نہیں ہوں۔ یہی تو ادب کا کمال ہے یہ ہمیں بتاتا ہے کہ ہر درد کا کوئی نہ کوئی ہم زبان ضرور ہوتا ہے۔
خوشی اور غم دونوں زندگی کے دو رخ ہیں۔ کوئی بھی شخص صرف خوشیوں میں نہیں جیتا، اور نہ ہی صرف غموں میں مرتا ہے۔ یہ تو ایک دھارا ہے، جس میں کبھی شیریں لہریں ہیں، تو کبھی تلخ بہاؤ۔ جب تم اپنے اندر کی دنیا کو سنوار لو گے، تو باہر کی دنیا بھی تمہیں اچھی لگنے لگے گی۔
غم کو شکست دینا ممکن ہی نہیں ہے کیونکہ یہ فطرت کا حصہ ہے۔ لیکن اس کے ساتھ رہنا ممکن ہے، جیسے کوئی جنگلی پھول سنگلاخ چٹان پر اگ آتا ہے۔ یہ خاموش قاتل تب تک ہی خطرناک ہے جب تک آپ اسے اپنی تنہائی کا شریک بنا لیں۔ کتابیں اس کا توڑ ہیں، فن اس کا مرہم ہے اور ایمان اس کی زنجیر کو کاٹنے والی قینچی۔ یاد رکھیے کہ غم بھی ایک رنگ ہے زندگی کے تانے بانے میں، جس کے بغیر داستانِ حیات ادھوری رہ جاتی ہے۔