‏‎دوروزہ کانفرنس “ادبیات آزاد جموں و کشمیر: معاصر تناظر” کا پانچواں اور اختتامی اجلاس

۲۳ اکتوبر ۲۰۲۵ء کو منعقد ہوا جس میں جناب سردار ظفر خان، سینیئر ممبر بورڈ اوف ریونیو، آزاد کشمیر نے بطور مہمانِ خصوصی اور جناب قاضی عنایت، سیکریٹری تعلیم نے بحیثیت مہمانِ اعزاز شرکت کی جب کہ نظامت کے فرائض جناب ہارون رشید نے انجام دیے۔ ‎

ڈاکٹر راجا محمد سجاد خان، ڈائریکٹر آزاد جموں و کشمیر کلچرل اکیڈمی نے کانفرنس کے لیے مختلف علاقوں سے تشریف لانے والے تمام مہمانان گرامی کا فرداً فرداً شکریہ ادا کیا اور کشمیر انسٹی ٹیوٹ اوف منیجمنٹ کی معاونت پر ممنونیت کا اظہار کیا۔ انھوں نے اپنے ادارے کے اغراض و مقاصد پر دوشنی ڈالی اور اس کے تحت شائع ہونے والے جرائد میں تحریروں اور کتاب کی اشاعت کے شرائط بیان کیے۔ انھوں نے صدر نشین اکادمی ادبیات پاکستان پروفیسر ڈاکٹر نجیبہ عارف کی پر خلوص معاونت کا شکریہ ادا کیا اور دیگر اداروں سے بھی ادارہ جاتی تعاون کا ارادہ ظاہر کیا۔ انھوں نے صدر نشین سے یہ استدعا بھی کی کہ وہ اس کام کو آگے بڑھائیں تاکہ کشمیر کے ادب کا کردار پاکستان کے باقی علاقوں میں اور پاکستانی ادب کا کردار کشمیر کے خطے میں نظر آئے۔

جناب قاضی عنایت نے فرمایا کہ جس طرح کسی بھی ریاست کی کوئی شناخت ہوتی ہے اس میں سب سے اہم وہاں کا ادب ہے اور بلا شبہ خطۂ کشمیر اپنے ادب کے لحاظ سے بہت ثروت مند ہے۔ کالجز کی سطح پر بھی اچھا کام ہو رہا ہے البتہ سکول کی سطح پر اس کی کمی ہے جس پر توجہ دی جانی چاہیے اور امید ہے کہ اس ضمن میں اکادمی کا تعاون بھی حاصل رہے گا۔

پروفیسر ڈاکٹر نجیبہ عارف نے اپنے خطاب میں اظہار کیا کہ اس دوروزہ کانفرنس کے مہمانان گرامی، مقالہ نگاروں،شرکا اور سامعین کا شکریہ ادا کرنا ان کا خوش گوار فریضہ ہے جس کے پیچھے ایک ذاتی جذبہ یہ بھی ہے کہ خود ان کے آبا و اجداد کا تعلق کشمیر سے ہے۔ انھوں نے واضح کیا کہ ہم نہ کشمیر کو الگ سمجھتے ہیں اور نہ وہ کسی بھی طور سے الگ ہے۔ ہم سب ادبا کو مرکزی دھارے میں جڑے ہوئے دیکھنا چاہتے ہیں اور انھیں مواقع فراہم کرنا مقصد ہے۔ انھوں نے شریک منتظم ڈاکٹر راجا سجاد خان کا بھی شکریہ ادا کیا کہ وہ ان کے پاس کانفرنس کی تجویز لائے اور یوں یہ یاد گار اور کامیاب کانفرنس عمل میں آئی جس کا تمام تر سہرا راجا صاحب کے خلوص ، نیک نیتی اور ان تھک محنت کے سر ہے۔

صدر نشین اکادمی نے کانفرنس میں موجود نسل نو کے نمائندوں اور طلبہ و طالبات سے خصوصی خطاب کرتے ہوئے کہا کہ عموماً نوجوان ادب سے وابستگی کا فائدہ تلاشتے ہیں۔ ہارڈ ویئر کتنا ہی شان دار ہو اگر اس میں درست سافٹ ویئر نہ ہو تو سب بے کار ہے۔ یہی حال ادب کا ہے۔ ادب اور ادیب معاشرے کے سافٹ ویئر کی درستی کرتے ہیں اور اسے مفید بناتے ہیں۔ یہ شخصیت کی تربیت اور تہذیب کرتے ہیں۔ ادب کا کام ہمدردی اور رواداری سکھانا ہے۔ ہم اس کے ذریعے کئی زندگیاں جیتے اور وہ شعور حاصل کرتے ہیں جو ادب کے مختلف کرداروں میں ہوتا ہے۔ جو ادب کو ہم سفر بناتے ہیں ان میں کشادہ دلی، رواداری، تہذیب، فراخ دلی زیادہ ہوتی چلی جاتی ہے اور انتہا پسندی کم ہوتی جاتی ہے۔ اگر ایسا نہ ہو تو تربیت میں کمی رہ جاتی ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ ادیب سرحد کا پابند ہو سکتا ہے لیکن ادب نہیں۔ دیگر تمام فنون کے ساتھ اس کا حصول بھی ضروری ہے ورنہ ایک شخص سب بن جائے گا لیکن درست معنوں میں انسان نہیں بن پائے گا۔ ادب کا یہ کردار معاشروں، قوموں اور ملکوں کی ترقی کے لیے از حد ضروری ہے اس لیے اگر ہم ادیب نہ بھی ہوں تو ہمیں ادب دوست ضرور ہونا چاہیے۔

انھوں نے گذشتہ شام ہونے والے مشاعرے کی بھی تعریف کی اور کہا کہ یہ مشاعرہ عام مشاعروں کی سطح سے بہت بلند تھا جس میں ایک زندہ قوم کے باشندوں کی اپنے وطن سے محبت نمایاں تھی۔ یہ ایک ایسا وصف ہے کہ جو جس شخص میں بھی ہو اسے کوئی شکست نہیں دے سکتا۔ انھوں نے عمدہ مقالوں اور وقت کی پابندی کو بھی لائق تحسین گردانا اور سامعین کے ذوق اور ان کے جوش و خروش کی بھی داد دی جنھوں نے بغیر کسی خود نمائی کی طمع کے اپنا حصہ ڈالا۔ آخر میں انھوں نے ڈاکٹر اعجاز نعمانی اور کوریج دینے والے چینلز کا بھی شکریہ ادا کیا اور بتایا کہ کشمیر میں اکادمی کے دفتر کے قیام کے لیے بھرپور کوشش ہوگی اور اس کے علاوہ وہ ادبی اداروں کے ساتھ مفاہمتی یادداشتوں کے معاہدوں کے لیے بھی تیار ہیں۔

مہمانِ خصوصی جناب سردار ظفر خان نے کشمیر کو کثیر لسانی خطہ قرار دیتے ہوئے اس کے ادب کو فروغ دینے پر زور دیا۔ انھوں نے امن و امان کو اس خطے کا سب سے اہم مسئلہ قرار دیا۔ انھوں نے بتایا کہ اپنی ملازمت کے دوران میں انھوں نے اردو اور انگریزی ادب کے بڑے ادبا کو پڑھا جس سے ان کی شخصیت میں واضح فرق آیا۔ انھوں نے مزید کہا کہ پاکستان نیوکلیئر پاور ہے اور اس کی اپنی تاریخی اور جغرافیائی اہمیت ہے۔ آزاد کشمیر اور پاکستان کے دیگر حصوں کا گہرا رشتہ ہے کہ ان کے مزاج اور ثقافت میں مماثلتیں ہیں۔ سو اس رشتے میں عزت و تکریم ہمیشہ ترجیح اول رہے گی۔ سوشل میڈیا پر مختلف پروپیگنڈے پھیلائے جاتے ہیں اور منافرت کا دور دورہ ہے لیکن حقیقت اس سے مختلف ہے۔ بھائی چارے اور رواداری کا یہ تعلق ہمیشہ رہے گا اور مضبوط تر ہوگا۔ انھوں نے صدر نشین اکادمی کی کاوشوں کو سراہا اور ان کی آزاد کشمیر آمد پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وہ ان کی اور اس اقدام کی تکریم کرتے ہیں اور آئندہ بھی کرتے رہیں گے۔

کانفرنس کے اختتام پر مہمانان خصوصی و اعزازاور شرکا میں اسناد تقسیم کی گئیں جب کہ صدر نشین اکادمی پروفیسر ڈاکٹر نجیبہ عارف نے مہمانوں کو اکادمی کی کتب بطور تحفہ ہیش کیں۔ یوں “ادبیاتِ آزاد جموں و کشمیر: معاصر تناظر” کی یہ کانفرنس علم، ادب اور روابط کے حسین امتزاج کے ساتھ اختتام پذیر ہوئی، مگر اس کے مباحث، احساسات اور جذبات قائم رہیں گے جو آنے والے وقت میں کئی نئی ادبی کانفرنسوں کا پیش خیمہ بنیں گے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے