آغا خان یونیورسٹی کراچی کے ذیلی ادارے پی ڈی سی این گلگت میں حال ہی میں "Raising Children in Our Time” کے عنوان سے ایک شاندار انٹرنیشنل سیمنار منعقد ہوا۔ یہ واقعی ایک علمی، فکری اور تحقیقی ماحول سے بھرپور کانفرنس تھی جس میں تعلیم کے ماہرین، ریسرچ اسکالرز اور تربیتِ اطفال پر کام کرنے والے محققین و محققات نے درجنوں موضوعات پر لیکچرز دیے۔
کانفرنس کی خاص بات ڈاکٹر نشاط ریاض کا خصوصی خطاب تھا، جو ملالہ فنڈ پاکستان کی چیف ایگزیکٹو ہیں۔ انہوں نے فی البدیہہ ایک نہایت متاثر کن اور جامع گفتگو کی۔ ان کا خطاب بچوں، بالخصوص بچیوں کی "رومنگ” (Roaming) کے حوالے سے تھا، جس میں انہوں نے بدلتے ہوئے سماجی و ٹیکنالوجیکل حالات میں طلبہ و طالبات کے غیر منظم میل جول، غیر ضروری پابندی و آزادی اور والدین کی عدم توجہی کے اثرات پر نہایت بصیرت افروز گفتگو کی۔
سوال و جواب کے سیشن میں راقم نے ان سے پوچھا کہ”گلگت بلتستان میں سیاسی، مذہبی، علاقائی اور قبائلی تعصبات نے مکالمے کا کلچر ختم کردیا ہے، جس کے نتیجے میں بداعتمادی اور بدامنی نے جنم لیا ہے، ایسے ماحول میں بچوں کی صحیح تربیت ممکن نہیں ہو پاتی، لہذا ہمیں وہ عناصر کی نشاندہی کیجے جن کی وجہ سے یہ سب کچھ ہورہا ہے اور ایسے ماحول میں بچوں کی تعلیم و تربیت کیسے کی جائے”۔ ڈاکٹر نشاط ریاض صاحبہ نے اس اہم سوال کا نہایت مدلل اور متوازن جواب دیا، جو سامعین نے بے حد سراہا۔
مجموعی طور پر یہ سیمنار علمی و فکری لحاظ سے بہت معیاری اور پرکیف تھی۔ مرکزی ہال میں ہونے والے لیکچرز کے ساتھ ساتھ کلاس روم پریزنٹیشنز بھی سطحی نوعیت کی نہیں تھیں بلکہ حقیقی معنوں میں ریسرچ پر مبنی علمی گفتگو تھی، جہاں تعلیم و تربیت کے مختلف پہلوؤں پر تازہ تحقیقی نتائج شیئر کیے گئے۔
تاہم ایک پہلو جس کی شدید کمی پورے کانفرنس میں محسوس ہوئی، وہ تھی اسلامی نقطہ نظر سے *”تربیتِ اطفال”*۔ نہ مرکزی سیشنز میں اور نہ ہی کسی سب سیشن یا کلاس روم پریزنٹیشن میں قرآن و حدیث، یا سیرتِ نبوی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی روشنی میں بچوں کی تعلیم و تربیت پر کوئی بات کی گئی۔ حالانکہ اسلام، بالخصوص نبی اکرم صل اللہ علیہ والہ وسلم کی سیرتِ طیبہ میں بچوں کی تعلیم و تربیت کے بارے میں ایسی جامع اور ہمہ گیر ہدایات موجود ہیں کہ ان پر جدید خطوط میں سینکڑوں کتابیں لکھی جا سکتی ہیں۔
ہم نے اس کانفرنس سے بہت کچھ سیکھا، بہت سے نئے زاویے نظر آئے، لیکن ایک تشنگی دل میں باقی رہی، کہ اگر ان علمی و سائنسی مباحث کے ساتھ قرآنی اور نبوی تعلیمات کو بھی شامل کر لیا جاتا اور ایک دو محققین و محققات کو خصوصی عنوانات کے ساتھ مدعو کیا جاتا تو یہ سیمنار مزید مؤثر اور مکمل ہوجاتی۔
لہٰذا ایسے علمی و تحقیقی سیمینارز کے منتظمین اور اہلِ علم سے دل سے گزارش ہے کہ آئندہ جب بھی تربیتِ اطفال یا تعلیم و ترقی پر ایسی معیاری کانفرنسز منعقد ہوں، تو کم از کم ایک محقق یا مقرر کو ضرور دعوت دی جائے جو اسلامی تعلیمات اور سیرت النبی ﷺ کی روشنی میں اس موضوع پر تحقیقی و فکری گفتگو کرے۔ یہی امت کے فکری اور اخلاقی احیاء کی اصل بنیاد ہے۔