اندھی کلٹ سیاست شعور کی شکست

دنیا کی کوئی بھی قوم اُس وقت زوال کی طرف بڑھتی ہے جب وہ عقل کو جذبات کے نیچے دفن کر دیتی ہے۔ جب دلیل کی جگہ نعرہ لے لیتا ہے، اور رہنما تنقید سے مقدس بن جاتا ہے۔ یہیں سے اندھی تقلید جنم لیتی ہے — وہ خاموش وبا جو سوچنے والے ذہنوں کو بھی غلام بنا دیتی ہے۔
پاکستان کا سیاسی منظرنامہ بھی اسی نفسیاتی بیماری کا شکار ہو چکا ہے۔ یہاں سیاست نظریے کے بجائے شخصیات کے گرد گھومتی ہے، اور جمہوریت چند چہروں کی عقیدت میں قید ہو چکی ہے۔

اندھی تقلید کوئی اچانک پیدا ہونے والا رجحان نہیں۔ یہ اُس معاشرتی مزاج کا نتیجہ ہے جو برسوں سے ہم میں رچ بس گیا ہے۔
ہم بحیثیت قوم ہمیشہ کسی “مسیحا” کے انتظار میں رہے — جو آ کر سب کچھ درست کر دے۔ کبھی یہ مسیحا وردی میں آیا، کبھی کرشماتی تقریروں کے ساتھ، اور کبھی تبدیلی کے نعرے لگا کر۔
ہم نے ہر بار عقل کو پسِ پشت ڈال کر ایک نئے چہرے کو نجات دہندہ مان لیا۔ مگر انجام ہمیشہ ایک جیسا رہا — امید ٹوٹی، ادارے کمزور ہوئے، اور عوام پھر کسی نئی عقیدت کے اسیر بن گئے۔

آج کی سیاست میں “کلٹ” ازم ایک باقاعدہ طاقت بن چکی ہے۔
کسی کے لیے اُس کا رہنما ہر برائی سے پاک فرشتہ ہے، تو کسی کے نزدیک وہی شخص تمام مسائل کی جڑ۔
یہ دو انتہائیں صرف سیاست تک محدود نہیں رہیں — گھروں، تعلیم اداروں، دفاتر اور دوستوں کے درمیان بھی دراڑ بن چکی ہے۔
سیاست اب نظریاتی بحث نہیں رہی، بلکہ ایمان و کفر کی لکیر بن چکی ہے۔
یہی وہ کیفیت ہے جب اختلاف دشمنی بن جاتا ہے، اور مکالمہ محاذ آرائی میں بدل جاتا ہے۔

جب ایک عام شہری ناانصافی، مہنگائی اور بے یقینی سے تنگ آتا ہے تو وہ کسی ایسے رہنما کو ڈھونڈتا ہے جو اُسے امید دے، چاہے وہ امید محض خواب ہی کیوں نہ ہو۔
یہی وہ لمحہ ہوتا ہے جب کلٹ پیدا ہوتا ہے۔
رہنما کی ہر بات حرف آخر بن جاتی ہے، ہر ناکامی دشمن کی سازش، اور ہر تنقید گستاخی۔
یہ نفسیاتی انحصار عوام کو “سوچنے” کے عمل سے نکال دیتا ہے، اور وہ صرف “ماننے” کے عادی ہو جاتے ہیں۔

میڈیا جس کا کام عوام کو شعور دینا تھا، وہ بھی اس کلٹ کلچر کا حصہ بن گیا۔
ٹی وی ٹاک شوز اب عقل و منطق کا میدان نہیں رہے، بلکہ سیاسی تماشے بن چکے ہیں۔
سوشل میڈیا نے ہر شہری کو ایک “مبلغ” بنا دیا ہے جو اپنے رہنما کی تعریف میں آنکھیں بند کر کے ہر خبر، ہر افواہ، ہر الزام شیئر کرتا ہے۔
یہ شور، یہ جذبات، یہ ٹرینڈز — سب مل کر سوچنے والے دماغوں کو دبا دیتے ہیں۔
یوں میڈیا شعور کی بجائے جذبات کا ایندھن بن چکا ہے۔

کلٹ سیاست اُس سرزمین پر پنپتی ہے جہاں تعلیم سوچنے کی بجائے رٹنے کا نام ہو۔
پاکستان میں تعلیم کا مقصد ڈگری بن چکا ہے، شعور نہیں۔
ہم نے نئی نسل کو یہ نہیں سکھایا کہ سوال کرنا جرم نہیں۔
نتیجہ یہ ہے کہ آج کا نوجوان سوشل میڈیا پر سب سے زیادہ سیاسی نعرے تو لگاتا ہے، مگر سب سے کم سیاسی تجزیہ کرتا ہے۔
جب دماغ سوچنا چھوڑ دے، تو دل کسی کی اندھی تقلید پر مجبور ہو جاتا ہے۔

اندھی تقلید کا واحد علاج “اچھی حکمرانی” ہے۔
جب ریاست انصاف فراہم کرے، ادارے مضبوط ہوں، معیشت میں بہتری آئے، تو عوام خود بخود شخصیت پرستی سے نکل آتے ہیں۔
کیونکہ جو قومیں امید ریاست سے پاتی ہیں، وہ ہیرو تلاش نہیں کرتیں۔
لیکن جب انصاف صرف طاقتور کے لیے ہو، روزگار نایاب ہو، اور عوام کو صرف وعدے ملیں — تو وہ خواب بیچنے والوں کے پیچھے لگ جاتی ہیں۔
پاکستان کا موجودہ بحران اسی اجتماعی مایوسی کا نتیجہ ہے۔

کلٹ سیاست کا خاتمہ صرف کسی ایک شخصیت کے جانے سے نہیں، بلکہ اجتماعی شعور کے بیدار ہونے سے ہوگا۔
اس کے لیے فکری مزاحمت ضروری ہے — ایسی قیادت جو جذبات نہیں بلکہ اداروں کو مضبوط کرے، ایسی آوازیں جو نعروں کے بجائے مکالمے کی دعوت دیں۔
جب معاشرہ متبادل سوچ پیدا کرتا ہے، تو پرانی عقیدتوں کا جادو خود بخود ٹوٹ جاتا ہے۔
سوچنے والا شہری، کسی بھی کلٹ کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہوتا ہے۔

ادب ہمیشہ سچ بولتا ہے — چاہے وہ فیض کی شاعری ہو، منٹو کی کہانی ہو یا جالب کا نعرہ۔
ادب انسان کو آزاد کرتا ہے، وہ اُس کے ذہن میں چراغ جلاتا ہے۔
ہمیں اپنے نوجوانوں کو یہ بتانا ہوگا کہ سوال کرنا گستاخی نہیں، بیداری کی علامت ہے۔
ادب، صحافت، اور تعلیم — اگر یہ تین ستون ایک ساتھ کھڑے ہو جائیں تو کسی بھی “کلٹ” کے اندھیرے میں روشنی آ سکتی ہے۔

اندھی تقلید ختم کرنے کے لیے سب سے پہلے خود پر تنقید کرنی ہوگی۔
ہمیں یہ ماننا ہوگا کہ ہم نے عقل کو بارہا جذبات کے نیچے دفن کیا ہے۔
جمہوریت تب مضبوط ہوگی جب عوام رہنماؤں سے محبت کریں مگر انہیں پرستش کا درجہ نہ دیں۔
جب یہ سمجھ جائیں گے کہ شخصیت نہیں، اصول مقدس ہوتے ہیں — تب ہی سیاست عبادت بنے گی، تجارت نہیں۔
اندھی تقلید کے اندھیروں سے نکلنے کا راستہ صرف ایک ہے: سوال۔
کیونکہ قومیں خوابوں سے نہیں، سوالوں سے جاگتی ہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے