علامہ یوسف القرضاوی: عصر حاضر کے مجتہد فقیہ، ان کی دینی اور فکری خدمات کا ایک جائزہ

بعض لوگ اپنے علم، بصیرت، شخصیت اور کردار کی بدولت اپنے پورے دور پر مکمل طور سے چھائے جاتے ہیں ان کی باتیں، خیالات اور نظریات وہ پیمانے بن جاتے ہیں جن پہ عوام اپنے اپنے مسائل اور احوال کو جانچتے ہیں اور یوں وہ اتنا احترام اور اعتماد پا لیتے ہیں جو کہ بلا شبہ قابلِ رشک قرار پاتے ہیں۔

میرے دل میں مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی رحمہ اللہ کے بعد سب سے زیادہ اگر کسی شخصیت کا نام اور مقام آتا ہے تو وہ علامہ یوسف القرضاوی مرحوم و مغفور تھے۔ انہوں نے اللہ تعالیٰ کے خزانوں سے وافر مقدار میں علم، بصیرت، حوصلہ، خلوص، ادراک اور عمر پائی تھی لیکن خاص بات یہ ہے کہ انہوں نے یہ ساری عطائیں اسلام کی خدمت، امت کی بیداری اور انسانیت کی وسیع ترین بہتری کے لیے وقف کر رکھے تھے۔

وہ چاہتے تو دولت اور اقتدار کی وادی میں آسانی سے اتر سکتے تھے لیکن انہوں نے وہی کام، نظریہ اور اہداف اپنے لیے پسند کیے جو دراصل امت اور انسانیت کے دیرپا خیر اور مفاد سے تعلق رکھتے تھے۔

وہ جب ابھی بچہ تھا تو کچھ عزیز و اقارب نے خاندان کو اسے کسی معاشی محنت و مشقت میں ڈالنے کا مشورہ دیا تو اس سعادت مند بچے نے علم کا راستہ چننے کا جرآت مندانہ اظہار کیا اور اپنے اوقات اور دماغ کو حصول علم کے لیے وقف کر دئیے اور اتنی یکسوئی سے اس مقصد میں لگ گئے کہ دس سال کی عمر سے پہلے ہی حفظ قرآن کریم اور کچھ ابتدائی علوم سیکھ لیے۔ آئیے ان کی زندگی پر ایک طائرانہ نظر ڈالتے ہیں۔

علامہ یوسف القرضاوی 9 ستمبر 1926ء کو مصر میں پیدا جبکہ 26 ستمبر 2022ء کو قطر میں وفات پائے۔ آپ پیدائشی طور پر مصری، رہائشی طور پر قطری، نسلی طور پر عربی، ذہنی طور پر حرکی، علمی طور پر فقیہ اور نظریاتی طور پر ٹوٹلی اسلامی شخصیت کے حامل بزرگ تھیں۔ آپ اس وقت عالم اسلام کے ممتاز ترین عالم اور فقیہ تھے۔ دنیا بھر کے مسلمانوں کو آپ کے علم اور فکر پر بھرپور اعتماد تھا۔ آپ کی کتابیں نہ صرف ساٹھ سے زائد زبانوں میں ترجمہ ہو چکی تھیں بلکہ پوری دنیا میں قبول عام پائی تھیں۔

علامہ یوسف القرضاوی نے دس سال کی عمر سے پہلے ہی قرآن مجید مکمل حفظ کر لیا تھا، بعد ازاں آپ جامعہ ازہر میں داخل ہوئے اور تمام مدارج یعنی ابتدائی، ثانوی اور اعلی تعلیم جامعہ ازہر میں ہی حاصل کی اور وہاں کلیہ اصول الدین میں پڑھنے پڑھانے کا سلسلہ ساتھ ساتھ جاری رہا جہاں سے ماسٹر کی ڈگری 1955ءمیں، ایم فل کی ڈگری 1957ء میں اور پی ایچ ڈی کی ڈگری 1960ء میں ممتاز حیثیت سے حاصل کی۔ 1958ء میں انھوں نے عرب لیگ سے ملحق ایک ادارے "معہد دراسات اسلامیہ” سے عربی زبان و ادب میں ڈپلوما بھی کیا، پی ایچ ڈی میں ان کے مقالے کا موضوع "زکوٰۃ اور معاشرتی مشکلات میں اس کا اثر” تھا جو بعد میں دو ضخیم جلدوں میں شائع ہوا۔

علامہ یوسف القرضاوی نے 1960ء کو اپنی تعلیم مصر سے مکمل کر کے اسلامی تحریک اخوان المسلمین میں شمولیت اختیار کی اور مختلف علمی اور عملی مناصب پر کام کا آغاز کیا لیکن جلد ہی انہیں محسوس ہوا کہ مصر کے احوال اور ماحول میرے لیے موافق نہیں لہذا انہوں نے قطر منتقل ہونے کا فیصلہ کیا اور 1960ء میں مصر چھوڑ کر قطر چلے گئے جہاں "قطر یونیورسٹی” سے بطورِ ڈین فیکلٹی آف شریعہ وابستہ ہوئیں جس کی بنیاد پر انھیں 1968ء میں باقاعدہ قطری شہریت دی گئی۔ گزشتہ چھ دہائیوں سے علامہ یوسف القرضاوی مستقل قطر میں مقیم رہ کر علمی محاذ پر پوری دلجمعی اور رسوخ سے مصروف عمل رہیں۔

علامہ یوسف القرضاوی کا اصل میدان اگرچہ علمی، تحقیقی اور اجتہادی تھا لیکن سیاسی، سماجی اور بین الاقوامی احوال سے لاتعلق قطعاً نہیں رہیں، آپ عالمی اسلامی تحریکوں کی رہنمائی اور تربیت میں بھی مصروف رہتے، اس کے علاؤہ آپ وقت بہ وقت اور موقع بہ موقع نہ صرف اپنے خیالات کا برملا اظہار فرماتے بلکہ امت کی رہنمائی کا فریضہ بھی بخوبی انجام دیتے لہذا 2011ء کو قاہرہ کے تحریر اسکوائر میں لاکھوں افراد کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے علامہ یوسف القرضاوی نے حالیہ تبدیلی کو انقلاب سے تعبیر کیا اور جرآت مندانہ انداز میں اپنے خیالات کا اظہار کیا اور کہا کہ "اس انقلاب کو ان منافقوں کے ہاتھوں چوری نہ ہونے دیں جنہوں نے اپنا مکروہ چہرہ چھپایا ہوا ہے، ابھی انقلاب کا سفر ختم نہیں ہوا بلکہ ابھی تو مصر کی تعمیر و ترقی کا آغاز ہوا ہے اس لیے اپنے انقلاب کی حفاظت کریں اور پوری جرآت سے کریں”۔

علامہ یوسف القرضاوی اسلامی دنیا کے عصر حاضر میں سب سے بڑے مجتہد اور مفکر تھے۔ ان کی نظر میں اسلامی دنیا کی تمام تر ناہمواریوں کا حل اسلامی نظام میں مضمر ہے۔ وہ زکوۃ کو معاشی، پردے کو سماجی، جمہوریت کو سیاسی اور امہ کی یکجہتی کو علاقائی (نیشنلزم) مشکلات کا حل یقین کرتے تھے۔ ان کی کتابیں محض سیاہ اوراق کا مجموعہ نہیں بلکہ عملی مسائل کے حکیمانہ اسلامی حل پر مشتمل تھیں۔ اسلامی قوانین کی معقول تشریح اور اسلامی نظام کے ممکنہ نفاذ سے متعلق، دانشمندانہ نکات کی بدولت، ان کی کتابوں کو عالمی شہرت حاصل ہے ان کا علمی، فکری اور تحقیقی اثاثہ اسلامی نظام کے لیے جدوجہد کرنے والوں کے لیے مشعل راہ ثابت ہوگا۔

موت بر حق ہے اور ہر ذی روح کو یہ آئی گی لیکن بعض لوگوں کی زندگی اس قدر قیمتی، کردار اس قدر اعلی اور فکر اس قدر متوازن ہوتی ہے کہ دل چاہتا ہے ایسے لوگوں کو موت کبھی نہ آئے۔ علامہ یوسف القرضاوی بھی ایسے ہی لوگوں میں سے ایک تھے کیونکہ ایسے لوگوں کے اٹھنے سے طرح طرح کے بحران سر اٹھاتے ہیں اور معاشرے کے مشکلات میں ٹھیک ٹھاک اضافہ ہوتا ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ قضا کا تقاضا کوئی نہیں ٹال سکتا اگر اس دنیا سے تاجدارِ کائنات حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے گئے ہیں تو میرا خیال ہے کہ کوئی دوسرا یہاں مستقل ٹھہرنے کا "استحقاق” نہیں رکھتا۔

علامہ یوسف القرضاوی تین سال قبل دنیا سے رخصت ہوئے لیکن ہماری خوش قسمتی ہے کہ وہ اپنے علمی، فکری اور تحقیقی کاموں کی صورت، ہمارے درمیان ہمیشہ موجود رہیں گے۔ سیکڑوں کتابیں، ہزاروں خطبات، لاکھوں جملے اور کروڑوں الفاظ ہر دم امت کی رہنمائی اور انسانیت کی ہدایت کے لیے تا قیامت موجود ہوں گے۔ اسلامی نظام ایک فریضہ ایک ضرورت، دین میں ترجیحات، اسلام میں حلال و حرام، اسلام اور معاشی تحفظ اور ایمان اور زندگی آپ کی چند معروف کتابیں ہیں۔

علامہ یوسف القرضاوی علمی طور پر اجتہاد اور عملی طور پر اتحاد کے عالمبردار تھے۔ آپ نے ہر دستیاب موقع اور وسیلہ ان دو مقاصد کے حصول کے لیے استعمال کیا اور حقیقت یہ ہے کہ خوب کیا۔ آپ ایک اچھے انسان، سچے مسلمان اور کھرے بندہ خدا تھے۔ آپ نے زندگی بھر ظلم پر کبھی خاموشی اختیار نہیں کی۔ آپ نے فلسطین، کشمیر، عراق اور افغانستان کے عوام پر ڈھائے جانے والے مظالم پر ہمشیہ آواز اٹھائی ہیں اور اس سلسلے میں کبھی کسی دباؤ کو خاطر میں نہیں لایا۔ آپ نے اپنا وطن مصر چھوڑا لیکن آزادی اور حق پر مصلحت سے کام کبھی نہیں لیا۔

آپ علماء کی عالمی تنظیم”الاتحاد العالمی لعلما المسلمین” کے بانی سربراہ اور آخر میں سرپرست رہیں۔ پاکستان میں آپ کی وجہ شہرت عظیم انقلابی عالم، قائد اور مفکر مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودیؒ کے نماز جنازہ کی امامت ہے۔ 25 ستمبر 1979ء کو لاہور کے قذافی اسٹیڈیم میں لاکھوں کے مجمع میں مولانا مرحوم کا جنازہ علامہ یوسف القرضاوی نے پڑھایا تھا۔

آئیے آخر میں علامہ یوسف القرضاوی رحمہ اللہ کے چند نمایاں مجتہدانہ آراء اور فقہی افکار پر مختصر روشنی ڈالتے ہیں:

1. فقہ الاولویات (ترجیحات کا فقہ)

یہ ان کا ایک منفرد تصور تھا جس میں وہ مختلف شرعی احکام میں درجہ بندی کرتے تھے۔ اس کے تحت ضروریات کو ثانوی مسائل پر ترجیح دینے پر زور دیتے تھے۔

2. غیر مسلم ممالک میں مسلمانوں کے فقہی مسائل

مغرب میں بسنے والے مسلمانوں کے لیے "فقه الأقلیات” کو فروغ دیا۔ اس عنوان کے تحت غیر مسلم ممالک میں رہتے ہوئے اسلامی شریعت پر عمل کرنے کے لیے آسان راستے بتائے۔

3. عصر حاضر کے مالیاتی مسائل

بینکاری اور مالیات کے جدید مسائل پر جدید فقہی حل پیش کیے۔ اس موضوع کے تحت اسلامی بینکاری اور جدید ٹیکنالوجی کے مطابق مالی لین دین کے جواز پر کام کیا۔

4. فرقہ وارانہ اور نسلی ہم آہنگی

مسلمانوں کے مختلف مکاتب فکر کے درمیان تقریب کا نظریہ دیا۔ باہمی اختلاف رائے کو اسلامی دعوت کی وسعت کا ذریعہ قرار دیا۔

5. خواتین کے حقوق

خواتین کے سیاسی اور سماجی حقوق کی شرعی تائید کی۔
پردہ کے احکام میں اعتدال اور مقامی ثقافتوں کو ملحوظ رکھنے پر زور دیا۔

6. جدید طبی مسائل

انسانی کلوننگ اور اسٹیم سیل ریسرچ جیسے مسائل پر شرعی رہنمائی فراہم کی۔ ارٹیفیشل انسیمینیشن کے جائز اور ناجائز پہلوؤں کی وضاحت کی۔

7. سیاسی فقہ

جمہوریت اور شوریٰ میں مطابقت پیدا کرنے کی کوشش کی۔ انقلابات اور عوامی تحریکوں کے شرعی جواز پر گفتگو کی۔

ایک نظر میں پتہ چلتا ہے کہ مذکورہ بالا آراء ان کے وسیع علمی مزاج، زمانے کے تقاضوں سے کماحقہ آگاہی، اور نصوص شرعیہ کے گہرے فہم و فراست کی عکاس ہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے