اچھے اور مخلص انسان جب دوستی کے بندھن میں بندھتے ہیں تو زندگی ایک خوشبودار باغ کی مانند ہو جاتی ہے، جہاں ہر لمحہ رنگ و نور سے جگمگاتا ہے۔ دوستی وہ نازک مگر مضبوط رشتہ ہے جو انسان کے دل کی گہرائیوں سے جنم لیتا ہے اور روح کی گرمی سے پروان چڑھتا ہے۔ مگر یہ حقیقت بھی اپنی جگہ مسلمہ ہے کہ دوستی قائم کرنا آسان ہے، لیکن اسے نبھانا ایک فن ہے، ایک صبر آزما عمل جو شعور، خلوص، محبت، انکساری اور برداشت کا تقاضا کرتا ہے۔ اکثر لوگ اپنی نادانستہ غلطیوں، بے جا انا پرستی یا چھوٹی چھوٹی عادتوں کی وجہ سے قیمتی دوستوں سے محروم ہو جاتے ہیں۔ حالانکہ اگر انسان اپنی شخصیت میں معمولی سی نرمی، تھوڑی سی فراخ دلی اور کچھ برداشت شامل کر لے تو یہ رشتہ عمر بھر کے لیے خوشیوں کا خزانہ بن سکتا ہے۔
زندگی کے سفینے کو جہاں رشتوں کے بے شمار پتوار ملتے ہیں، وہیں دوستی کی ہوا وہ زندہ روانی بخشتی ہے جو اسے بے خوف و خطر سمندر کی وسعتوں میں گم ہونے سے بچاتی ہے۔ رشتے فطرت کے بنائے ہوئے ہوتے ہیں، مگر دوستی ایک ایسا گہنا ہے جسے دل خود تراشتا ہے، چنچل وقت کی کھردری چٹانوں پر اسے صیقل کرتا ہے، اور پھر یہ اتنا نفیس ہو جاتا ہے کہ زندگی کی ہر کڑی میں چمکتا رہتا ہے۔
اسی طرح انسان کی طبیعت میں ایک عجیب کشمکش ہے، وہ تنہائی میں بھی ساتھ چاہتا ہے اور بھیڑ میں بھی اپنے پن کی تلاش کرتا ہے۔ مگر دوست وہ ہیں جو اس کی اس جستجو کو سکون میں بدل دیتے ہیں۔ دوستی کے رشتے میں نہ رسمیں ہوتی ہیں، نہ تکلف، نہ مصلحتیں۔ یہاں تو بس ایک دل ہوتا ہے جو دوسرے دل کی دھڑکن بن جاتا ہے۔ جیسے کوئی صحرا کی تپش میں چھاؤں تلے بیٹھے، ویسے ہی دوست زندگی کی تپتی دوپہروں میں ٹھنڈی ہوا کا جھونکا بن کر آتے ہیں۔
سچ تو یہ ہے کہ دنیا کی دولت، شہرت اور عہدے وقتی تسکین دے سکتے ہیں، مگر جب دل پریشان ہو یا پھر روح گھبراہٹ محسوس کرے، تو صرف ایک دوست کی بات، اس کا ہلکا سا اشارہ، یا خاموشی کا وہ لمحہ جس میں وہ سمجھ جاتا ہے کہ درد کہاں چھپا ہے یہی وہ نعمت ہے جو کسی خزانے سے خریدی نہیں جا سکتی۔ دوست وہ ہوتے ہیں جو نہ صرف خوشیوں میں شریک ہوتے ہیں آپ کے غموں کو بھی اپنا بنا لیتے ہیں۔ وہ ہنسنے پر مجبور نہیں کرتے، نہ رونے سے روکتے ہیں، وہ کہتے ہیں رونا ہے تو رو لو، ہنسنا ہے تو ہنس لو، مگر یاد رکھو تم اکیلے نہیں ہو۔
اسی طرح دوستی انسان کی زندگی کی سب سے بڑی نعمتوں میں سے ایک ہے۔ ایک مخلص دوست آئینہ ہوتا ہے۔ مگر یہی خوبصورت رشتہ کبھی کبھی معمولی بدگمانیوں اور غلط فہمیوں کی نذر ہو جاتا ہے۔ جب دلوں میں شکوے جمع ہونے لگیں، بات چیت کم ہونے لگے اور خاموشی خلیج بن جائے، تو دوستی کی وہ مٹھاس آہستہ آہستہ زائل ہو جاتی ہے جو اس رشتے کا خاصہ تھی۔ ٹوٹی ہوئی دوستی کو جوڑنا ممکن تو ہے، لیکن اس میں وہ پہلی سی چمک اور خلوص واپس لانا آسان نہیں ہوتا۔ اسی لیے بہتر یہ ہے کہ انسان اپنی چھوٹی چھوٹی خامیوں پر قابو پا کر، دل میں دریا کی سی وسعت پیدا کرے تاکہ دوست کے دل میں ہمیشہ اپنی جگہ قائم رکھ سکے۔
اسی طرح زندگی میں اختلافات ناگزیر ہیں۔ کوئی دو انسان ایک جیسے نہیں سوچ سکتے، نہ ایک ہی زاویے سے دنیا کو دیکھ سکتے ہیں۔ لیکن یہی اختلاف اگر سمجھ بوجھ اور احترام سے برتا جائے تو دوستی کو کمزور کرنے کے بجائے مضبوط کر دیتا ہے۔ اگر ہم ہر بات پر اصرار کریں کہ صرف ہمارا نقطۂ نظر درست ہے، تو یہ ضد رفتہ رفتہ دلوں میں دوری پیدا کر دیتی ہے۔ دوستی کے رشتے میں بحث برائے جیت نہیں ہونی چاہیے اس کی جگہ بات برائے سمجھ ضروری ہے۔ اگر کبھی دوست کی بات ناگوار بھی گزرے تو اس کے جذبے کو سمجھنے کی کوشش کریں، کیونکہ کبھی کبھی خاموشی بھی تعلقات کو مضبوط بنانے میں الفاظ سے زیادہ مؤثر ثابت ہوتی ہے۔
دنیا میں بہت سے لوگ مل جائیں گے جو خوشامد کر کے تمہارے دل کو لبھائیں گے، مگر اصل دوست وہ ہے جو تمہاری خامیوں کو تم پر واضح کرے، تمہیں سنوارنے کی کوشش کرے، اور تمہیں اپنی اصلاح پر مجبور نہ کرے بلکہ تمہیں سمجھا کر راہِ راست دکھائے۔ وہ تمہیں غلط راستے پر چلتے دیکھ کر خاموش نہیں رہے گا بلکہ ٹوکے گا، چاہے تمہیں اس وقت اس کی بات ناگوار ہی کیوں نہ گزرے۔ کیونکہ وہ جانتا ہے کہ دوست کی تلخ بات، دشمن کی میٹھی چاپلوسی سے بہتر ہوتی ہے۔
اسی طرح، دوستی کے رشتے کو سب سے زیادہ نقصان خود پسندی سے پہنچتا ہے۔ جو شخص اپنی ذات کا اسیر ہو جاتا ہے، وہ دوسروں کے جذبات کو سمجھنے کی صلاحیت کھو دیتا ہے۔ خود پسند لوگ جب بات کرتے ہیں تو ہر موضوع اپنی ذات کے گرد گھومتا ہے، ہر تعریف کا مرکز وہ خود ہوتے ہیں۔ ایسی گفتگو سے دوستی کا لطف ختم ہو جاتا ہے اور سامع کے دل میں بوجھ سا بیٹھ جاتا ہے۔ حقیقی دوستی میں برتری یا تفاخر کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی، وہاں صرف برابری، احترام اور خلوص کی فضا ہوتی ہے۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے دوست ہمیں دل سے چاہیں تو ضروری ہے کہ ہم اپنی ذات سے زیادہ دوسروں کے احساسات کو اہمیت دیں۔
حقیقت یہ ہے کہ غلط فہمیاں اکثر اس وقت جنم لیتی ہیں جب ہم دوسروں کی بات سنے بغیر فیصلہ کر لیتے ہیں یا کسی تیسرے شخص کی بات پر یقین کر بیٹھتے ہیں۔ یہی وہ لمحہ ہوتا ہے جہاں دوستی کا رشتہ دراڑ کھا جاتا ہے۔ سچے دوست وہ ہوتے ہیں جو شکوہ دل میں رکھنے کے بجائے براہِ راست بات کر لیں۔ دوستی میں شفافیت اور اعتماد کی جڑیں جتنی گہری ہوں گی، غلط فہمیوں کے طوفان انہیں ہلا نہیں سکیں گے۔ اگر کبھی کوئی بدگمانی پیدا ہو بھی جائے تو تھوڑا سا ضبط، تھوڑی سی نرمی اور ایک سادہ سی وضاحت اکثر بڑے مسئلے کو ختم کر دیتی ہے۔
اسی طرح کبھی کبھی دو لفظ شکریہ اور معذرت وہ کام کر جاتے ہیں جو لمبی گفتگو بھی نہیں کر سکتی۔ یہ الفاظ چھوٹے ضرور ہیں مگر اپنے اندر ایک دنیا سمیٹے ہوئے ہیں۔ شکریہ کہنا کسی کی کوشش کی قدر کرنے کا اظہار ہے، جبکہ معذرت مانگنا اپنے دل کی نرمی اور رشتے کی اہمیت کا اقرار۔ بدقسمتی سے ہم میں سے اکثر لوگ دوستوں کی محبت کو اپنا حق سمجھ کر قبول کرتے ہیں، حالانکہ ان کی ہر چھوٹی قربانی پر شکریہ ادا کرنا ہمارے خلوص کی نشانی ہے۔ اسی طرح اگر کبھی ہم سے کوئی غلطی ہو جائے تو فوراً معذرت مانگ لینا رشتے کو مزید مضبوط کر دیتا ہے۔ دل سے نکلا ہوا ایک معاف کیجیے نہ صرف تعلق بچا لیتا ہے بلکہ دلوں کو قریب بھی کر دیتا ہے۔
اسی طرح دوستی نہ صرف خوشیوں میں ساتھ دینے کا نام ہے یہ غم کے لمحوں میں کندھا بننے کا بھی تقاضا کرتی ہے۔ وہ دوست جو مشکل وقت میں خاموشی سے ہاتھ تھام لیتا ہے، وہ کسی فرشتے سے کم نہیں ہوتا ہے، اگر دوست کسی پریشانی میں مبتلا ہے تو اس کا انتظار مت کریں کہ وہ مدد مانگے، بلکہ خود بڑھ کر اس کے دکھ میں شریک ہو جائیں۔ سچی دوستی کی اصل روح اسی ایثار میں پوشیدہ ہے کہ ہم اپنے دوست کا درد اپنا سمجھیں۔
اسی طرح کچھ رشتے وقت کے تھپیڑوں سے بکھر جاتے ہیں، مگر سچی دوستی وہ ہے جو وقت گزرنے کے ساتھ اور مضبوط ہوتی جاتی ہے۔ یہ وہ گلاب ہے جو ہر موسم میں کھلتا ہے، خزاں کے جھونکوں سے مرجھاتا نہیں۔ دوست وہ ہوتے ہیں جو تمہیں سالوں بعد بھی اسی طرح یاد کرتے ہیں جیسے کل کی بات ہو۔ تمہاری غیر موجودگی میں بھی تمہارا نام لیتے ہیں، تمہاری خوشیوں پر فخر کرتے ہیں اور تمہاری کمی کو اپنی زندگی کا ادھورا پن سمجھتے ہیں۔
مزید برآں، دوستی کا رشتہ جب مذہب، ذات پات اور سماج کی تمام تر حدود سے ماورا ہو جائے تو وہ ایک ایسی روحانی ہم آہنگی پیدا کر دیتا ہے جو الفاظ سے باہر ہے۔ ایسی ہی ایک دوست میری زندگی کا وہ روشن باب ہے جس نے ثابت کیا کہ دوستی کے لیے کوئی مذہب نہیں ہوتا، بس ایک سچا دل چاہیے ہوتا ہے۔
14 جون 2012، جمعہ مبارک کا دن، وقت دو بج کر بائیس منٹ۔ یہ وہ لمحہ تھا جب علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے راستے میں چلتے ہوئے میری ملاقات ایک ایسی ہستی سے ہوئی جو آج تک میری زندگی کا سب سے قیمتی تحفہ ہے اور وہ ہے سٹائلا مسیح۔ میرے دکھوں کا مرہم، میری خوشیوں کی شریک، میری ہر اذیت میں سہارا بننے والی میری جگری دوست۔ وہ مسیحی مذہب سے تعلق رکھتی ہے، مگر اس کے اخلاق، انسانیت اور روحانی پاکیزگی نے کبھی مجھے یہ محسوس نہیں ہونے دیا کہ ہمارے درمیان کوئی فرق ہے۔
پچھلے کچھ دنوں سے میں شدید پریشانی میں گھری ہوئی تھی۔ دل بوجھل تھا، ذہن انتشار کا شکار تھا۔ ایسے میں صرف ایک ہی چیز نے مجھے سکون دیا سٹائلا سے ملنا۔ اس کے ساتھ دو گھنٹے گزارے اور یہ مختصر سی ملاقات میری روح کے لیے ایک ٹانک بن گئی۔ ہم نے باتوں کے ذریعے اپنے دلوں کا بوجھ ہلکا کیا۔ میں نے محسوس کیا جیسے مجھے نئی زندگی مل گئی ہو، اور میں ایک نئی توانائی کے ساتھ واپس اپنی جگہ پر آ گئی۔
سٹائلا دوست ہونے کے ساتھ ساتھ ایک ہمدرد، رازدار، مخلص، بااخلاق، حیا دار اور جھوٹ سے نفرت کرنے والی لڑکی ہے۔ اس میں وہ تمام خوبیاں موجود ہیں جو کسی بھی انسان کو قابلِ احترام بناتی ہیں۔ وہ نہ صرف میری خوشیوں میں شریک ہوتی ہے، میری پریشانیوں کو بھی اپنا غم سمجھتی ہے۔ جب بھی میں اداس ہوتی ہوں تو وہ مجھے ایسے سمجھاتی ہے جیسے کوئی ماں اپنے بچے کو سمجھاتی ہے۔
وہ ہمیشہ کہتی ہے ہمارے جینے اور مرنے کا اختیار صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کے پاس ہے، اللّٰہ پاک پر بھروسہ رکھو۔ یہ بات وہ مجھے ہر مشکل وقت میں یاد دلاتی ہے۔ وہ صبر، برداشت اور اللہ تعالی کی رضا میں راضی رہنے کی تلقین کرتی ہے۔ اکثر یہ بھی کہتی ہے: مایوسی کفر ہے، اس کے یہ الفاظ میری زندگی کا حوصلہ بن چکے ہیں۔ وہ مجھے زندگی کی حقیقت سے آگاہ کرتی ہے کہ یہ دنیا عیاشیوں کے لیے نہیں ہے یہ تو آزمائشوں کا گہوارہ ہے۔
سب سے حیرت انگیز بات یہ ہے کہ سٹائلا، ایک غیر مسلم ہونے کے باوجود، مجھے نماز پڑھنے کی تلقین کرتی ہے۔ جب نماز کا وقت ہو جاتا ہے تو وہ کہتی ہے جاؤ، نماز پڑھ لو۔ وہ میرے لیے خود جائے نماز بچھاتی ہے اور مجھے عبادت کی ترغیب دیتی ہے۔ کیا یہ حقیقی دوستی نہیں کہ وہ میرے ایمان کی حفاظت کو اپنی ذمہ داری سمجھتی ہے؟
دلچسپ بات یہ ہے کہ ہمارے درمیان تہواروں کی رونق بھی منفرد ہے۔ عید، شبِ برات اور رمضان کے موقعوں پر وہ مجھے تحفے دیتی ہے اور میں کریسمس اور ایسٹر پر اسے تحائف سے نوازتی ہوں۔ یہ تہوار نہ صرف ہمارے رشتے کو مضبوط بناتے ہیں یہ بھی ثابت کرتے ہیں کہ محبت کبھی مذہبی حدود میں قید نہیں ہوتی۔ سٹائلا مسیح میری زندگی کا وہ خزانہ ہے جس کی کوئی قیمت اس دنیا میں نہیں۔ وہ میری سچی دوست ہے جو منہ پر حق بولتی ہے مگر دل سے محبت کرتی ہے۔ وہ میری خامیوں پر ٹوکتی ہے، میری اصلاح چاہتی ہے، اور ہمیشہ میری بہتری کے لیے کوشاں رہتی ہے۔
زندگی کے سفر میں ایسے مخلص دوست کم ہی نصیب ہوتے ہیں جو دل کے زخم پر مرہم رکھ سکیں اور ہمارے اندر کے طوفان کو محسوس کر سکیں۔ اس لیے جب بھی کوئی ایسا شخص آپ کی زندگی میں آئے، اسے سنبھال کر رکھیں۔ کبھی انا، ضد یا معمولی رنجش کو اس رشتے کے درمیان نہ آنے دیں۔ دوستی کا یہ تعلق محض وقت گزاری ہے یہ تو زندگی کی سب سے قیمتی سرمایہ کاری ہے۔ پیار، محبت، خلوص، ہمدردی، انکساری اور احسان مندی جیسے اوصاف سے یہ رشتہ مزید نکھرتا ہے، اور جب دوستی میں یہ سب رنگ گھل جائیں تو زندگی واقعی گل گلزار بن جاتی ہے۔