اختلاف: رحمت بھی، زحمت بھی

اختلاف، عمل اور رائے میں ایک دوسرے سے مختلف شکل اختیار کرنے کو کہتا ہے۔ اختلاف اعمال، معاملات، آراؤں اور رویوں سمیت سب کچھ میں پیدا ہو سکتا ہے۔ اس لیے دنیا بھر میں، اور تاریخ کے ہر دور میں ہمیں اختلاف کا وجود اور وجوب جا بجا نظر آتا ہے۔ مطلق اختلاف مذموم ہے نہ ممنوع لیکن اختلاف کو لازماً خیر خواہی، علم و ادراک، موقع و محل اور ضرورت و افادیت سے جوڑ کر رکھنا چاہیے اور اسے آزاد نہیں چھوڑنا چاہیے تاکہ نامطلوب اور مذموم دائروں تک نہ پہنچے۔

انسان کو زندگی میں لازماً اختلاف کے احوال اور وجوہات سے گزرنا پڑتا ہے۔ زندہ، مختلف اور متحرک مخلوق کو آپ کبھی بھی یکساں اور جامد نہیں رکھ سکتے۔ انسانی علم و عقل کے سامنے روز ایسے معاملات اور مسائل پیش آ رہے ہیں کہ جن میں اختلاف کا اظہار ضروری ہوتا ہے لیکن اصل امتحان یہ ہے کہ کس طرح درپیش احوال میں اختلافات کو حد اعتدال میں رکھنے کے اوپر بندہ کامیاب ہوں۔ ایسا اگر ہوتا ہے تو گویا علم و عقل کا ایک بڑا معرکہ سر ہوگا اور اگر نہیں تو حماقت کی گہری کائی میں گر پڑنا بلکل یقینی امر ہے۔

آپ اختلاف کریں کیونکہ اختلاف آپ کا حق ہے لیکن آپ احترام بھی ساتھ ہی کریں کیونکہ احترام آپ کا فرض ہے، اختلاف احترام کی قیمت پر ہرگز نہیں ہونا چائیے۔ زندگی میں اختلاف ایک لازمی آمر ہے کیونکہ ہم سب مختلف عقیدے اور عقیدت، مختلف دماغ، مختلف زاویہ ہائے نظر، مختلف معلومات، مختلف ذوق و مزاج، مختلف حالات اور ماحول، مختلف حقائق سے آگاہی اور مختلف نظریات رکھنے والے لوگ ہیں لیکن احترام بھی اتنا ہی ضروری ہے جتنا کہ خود اختلاف کیونکہ ہم ایک ہی دنیا، ایک ہی نوع، ایک ہی منبع، ایک ہی کمیسٹری اور بہت ساری ایک جیسی ضرویات، ہم آہنگ تقاضے، یکساں خواہشات اور مشترک ورثہ بھی رکھتے ہیں۔

اختلاف انسانی معاشرے کا ایک ناگزیر جزو ہے۔ جس طرح قدرت میں تنوع پایا جاتا ہے، اسی طرح افکار و آراء میں بھی اختلاف فطری اور قدرتی امر ہے۔ یہ اختلاف ہی تو ہے جو سوچ کو جلا بخشتا، معاشرے کو جمود سے بچاتا اور ترقی کا زینہ بنتا ہے۔ لہٰذا اختلاف کو مسئلہ سمجھنے کے بجائے، اسے ایک ایسے موقع کے طور پر دیکھنا چاہیے جو ہمارے نقطہ نظر کو وسیع کرتا ہے۔

یہ سمجھنا ضروری ہے کہ ہر اختلاف یکساں نہیں ہوتا۔ وہ اختلاف جو علم، عقل، خیرخواہی اور مفاد عامہ کی بنیاد پر ہو، صحت مندانہ اور رحمت کا باعث ہے۔ اس کے برعکس وہ اختلاف جو جہالت، تعصب، ضد یا ذاتی عناد پر مبنی ہو، زحمت اور تباہی کا سبب بنتا ہے۔ اصل کامیابی اس میں ہے کہ ہم اختلاف کو تعمیری دائرے میں رکھیں اور اسے تنازعے کا روپ دینے سے لازم بچائیں۔

اختلاف کا مطلب ہرگز بے عزتی نہیں ہے۔ درحقیقت، احترام انسانیت کا فطری تقاضا ہے جس کی تائید قرآن پاک کے فرمان "وَلَقَدْ کَرَّمْنَا بَنِیْٓ اٰدَمَ” سے بھی ہوتی ہے۔ اختلاف کے دوران مخالف کی شخصیت، عقل اور جذبات کا احترام کرنا نہ صرف اخلاقی فرض ہے بلکہ اپنی بات منوانے کی پہلی شرط بھی۔ بے عزتی کا ارتکاب مخالف کے دل و دماغ پر تالا لگا دیتی ہے، جبکہ ادب و احترام اسے کھولنے کی کنجی ہے۔

کسی کو قائل کرنے کا بہترین طریقہ زور دار آواز یا سخت الفاظ نہیں، بلکہ پختہ دلائل، مدلل بات، شائستہ انداز اور نرم گفتاری ہے۔ جب آپ مخاطب کو یقین دلائیں کہ آپ کی نیت خیر خواہی کی ہے اور آپ اسے نیچا دکھانے نہیں بلکہ سمجھانے آئے ہیں، تو اس کا دل و دماغ آپ کے لیے فوری کھل جاتا ہے۔ یہی وہ تعمیری مکالمہ ہے جو معاشرے میں ہم آہنگی پیدا کرتا ہے۔

ہم سب کے خیالات، نظریات، تجربات اور پس منظر ایک دوسرے سے مختلف ہیں کیونکہ یک رنگی کبھی ممکن نہیں۔ تاہم، ان تمام اختلافات کے باوجود ہم ایک مشترکہ انسانی بنیاد پر متحد بھی ہیں۔ ہم سب ایک ہی نوع، ایک جیسی بنیادی ضروریات اور یکساں جذبات رکھتے ہیں۔ لہٰذا، اختلاف کو ہمارے درمیان دیوار نہیں بلکہ ایک ایسا پل بننا چاہیے جو ہمیں دوسرے کے نقطہ نظر سے روشناس کرا سکے۔

اختلاف مطلق طور پر رحمت ہے نہ زحمت، بلکہ اسے برتنے کا ہمارا طریقہ اس کا مقام متعین کرتا ہے۔ اگر ہم اسے علم، حکمت، احترام اور خیرخواہی کے ساتھ برتیں تو یہ معاشرے کے لیے رحمت ثابت ہوتا ہے، فکری ارتقاء کا ذریعہ بنتا ہے۔ اور اگر ہم جہالت، تعصب اور بے عزتی کا راستہ اپنائیں تو یہی اختلاف زحمت، انتشار اور تنزلی کا باعث بن جاتا ہے۔ لہٰذا، ہمارا فرض ہے کہ ہم اپنے اختلافات کو رحمت بنائیں، زحمت نہ بننے دیں۔

آللہ تعالی نے قران کریم میں ارشاد فرمایا ہے کہ "ہم نے بنی آدم کو عزت بخشی ہے” اس لیے کسی بھی آدمی کی عزت تک کسی کا بھی ہاتھ نہیں پہنچنا چاہیے۔ اختلاف کے لیے سب سے بہترین اوزار ٹھوس دلائل، معقول روش، مہذب انداز اور نرم لہجہ ہوتے ہیں اور ہاں باہم گہری خیر خواہی کے بغیر تو اختلاف روا ہی نہیں ہے۔

صحت مند اور مفید اختلاف کے لیے مطلوبہ ماحول صرف باہمی احترام ہی فراہم کر سکتا ہے اور یہ بھی گہری خیر خواہی کے بغیر ممکن نہیں کہ آپ کی موقف کے لیے مخاطبین کے دل و دماغ کھل جائیں، وہ آپ کے قریب ہونے لگیں، وہ آپ کی بات کو متوجہ ہوکر سنیں تو بعید نہیں کہ کسی وقت قبول بھی کرلیں بصورت دیگر اپ کے ہر مخاطب کے دل و دماغ کو "جاپانی تالا” پڑا رہے گا آپ زور و شور سے اپنے دماغ تو ہلا سکتے ہے پر مخاطب کو مائل اور قائل نہیں کرسکتے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے