پاکستان میں غربت محض ایک معاشی مسئلہ نہیں بلکہ ایک ایسی معاشرتی زنجیر ہے جو تعلیم، صحت، روزگار اور انسانی وقار کو بھی جکڑ لیتی ہے۔ ملک کے دیہی علاقوں سے لے کر شہری بستیوں تک، ہر طرف محرومی، مایوسی اور بے بسی کے سائے گہرے ہوتے جا رہے ہیں۔ آج کا پاکستانی مہنگائی، بے روزگاری اور معاشی غیر یقینی کی ایسی فضا میں سانس لے رہا ہے جہاں زندہ رہنا خود ایک جدوجہد بن چکا ہے۔
گزشتہ کچھ سالوں میں غربت کے سبب خودکشیوں کے واقعات میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ خاص طور پر دیہی علاقوں میں جب کسی گھر کا کفیل بیروزگار ہو جاتا ہے یا قرضوں کے بوجھ تلے دب جاتا ہے تو وہ زندگی سے ہار مان لیتا ہے۔ پاکستان میں عوام نے غربت کے باعث اکثر خودکشیاں تک کی ہیں۔ ان افسوسناک واقعات کے پیچھے محرومی، بے روزگاری اور سماجی بے حسی کی طویل کہانی چھپی ہے۔
غربت نے پاکستان میں تعلیم کے نظام کو بھی بری طرح متاثر کیا ہے۔ لاکھوں بچے اسکول جانے کی بجائے مزدوری پر مجبور ہیں۔ یونیسف کے مطابق پاکستان میں تقریباً دو کروڑ سے زائد بچے اسکول سے باہر ہیں، جن میں زیادہ تر غریب گھرانوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ جب والدین دو وقت کی روٹی کے لیے پریشان ہوں، تو تعلیم ان کے لیے ایک خواب بن جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ غربت نسل در نسل منتقل ہو رہی ہے ایک نسل محنت کرتی ہے مگر اگلی نسل بھی وہیں کھڑی نظر آتی ہے۔
غریب طبقے کے لیے صحت کی سہولیات بھی ایک خواب بن گئی ہیں۔ سرکاری اسپتالوں میں سہولیات کی کمی، مہنگی ادویات اور نجی اسپتالوں کے ناقابل برداشت اخراجات نے غریب کو مزید بے بس کر دیا ہے۔ غربت کے باعث علاج نہ ہونے سے ہزاروں لوگ ہر سال جان کی بازی ہار جاتے ہیں۔
یہ سب مسائل دراصل اس معاشی زوال کی علامت ہیں جو پاکستان کئی دہائیوں سے برداشت کر رہا ہے۔تیز افرط زر (Inflation) خوراک اور توانائی کی قیمتوں میں اضافہ کم آمدنی والے گھرانوں کے لیے بڑے صدمے کا باعث بنا ، خریداری کی طاقت میں کمی نے روزمرہ ضروریات پوری کرنا مشکل کر دیا۔ یہ سب 2022–24 کے عرصے میں نمایاں رہا۔
خصوصی طور پر سیلاب 2022 – 2025 کے سیلابوں نے زرعی پیداواری صلاحیت، گھروں اور روزگار کو وسیع پیمانے پر نقصان پہنچایا؛ سیلاب زدگان کی بڑی تعداد زندگی کے معیار میں نیچے گر گئی ماہرین کا اندازہ ہے کہ سیلابوں نے غربت میں اضافے میں اہم حصہ ڈالا۔
نقصانِ نمو اور کمزور اصلاحات اقتصادی نمو معتدل رہی جبکہ ساختی اصلاحات سست یا نامکمل رہیں؛ کم محصولی، توانائی کے خسارے، اور کم سرمایہ کاری نے روزگار پیدا کرنے کی صلاحیت محدود رکھی۔ عالمی بینک اور ریسرچ رپورٹس اسی نقطے پر متفق ہیں۔
عالمی مالیاتی اداروں کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں اس وقت تقریباً 39 فیصد آبادی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہی ہے، یعنی چار میں سے تقریباً دو پاکستانی اپنی بنیادی ضروریات پوری نہیں کر پا رہے۔ پاکستان اکنامک سروے 2024 کے مطابق ملک میں مہنگائی کی شرح 25 فیصد سے زائد ہے جبکہ بیروزگاری 8 فیصد کے قریب پہنچ چکی ہے۔
ورلڈ بینک کے مطابق پاکستان میں غربت کی ایک بڑی وجہ معاشی ناہمواری، بدانتظامی اور تعلیم کی کمی ہے۔ غریب طبقہ روزمرہ ضروریات کے بوجھ تلے دب کر رہ جاتا ہے جبکہ امیر طبقہ زیادہ امیر ہو رہا ہے۔ زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی، روپے کی قدر میں مسلسل گراوٹ اور صنعتی پیداوار میں کمی نے ملکی معیشت کو نازک موڑ پر لا کھڑا کیا ہے۔
ایک اور اہم مسئلہ یہ ہے کہ حکومتیں اکثر مختصر المدتی منصوبوں میں الجھ جاتی ہیں، جبکہ غربت جیسے مسئلے کے لیے طویل المدتی پالیسیوں اور مضبوط ادارہ جاتی اصلاحات کی ضرورت ہے۔ محض امدادی پروگراموں سے غربت ختم نہیں ہو سکتی جب تک کہ روزگار کے مستقل مواقع پیدا نہ کیے جائیں۔
اسی طرح ملک میں بڑھتی ہوئی کرپشن، بیوروکریسی کی بے حسی اور سیاسی عدم استحکام نے معاشی اعتماد کو متزلزل کر دیا ہے۔ سرمایہ کاری رک گئی ہے، چھوٹے کاروبار بند ہو رہے ہیں، اور عام آدمی پر مہنگائی کا بوجھ بڑھتا جا رہا ہے۔
پاکستان میں غریب طبقے کی زندگی ایک روزمرہ امتحان بن چکی ہے۔ ایک مزدور دن بھر پسینہ بہا کر بھی اپنے بچوں کے لیے صرف روٹی اور چائے کا بندوبست کر پاتا ہے۔ عام گھرانوں میں دودھ، گوشت، اور پھل جیسے اجناس اب عیاشی سمجھی جاتی ہیں۔
بے روزگاری کے باعث جرائم میں اضافہ ہوتا ہے اور معاشرہ اضطراب کا شکار بن جاتا ہے۔ جب نوجوانوں کو روزگار کے مواقع نہ ملیں تو ان میں مایوسی، غصہ اور ناامیدی جنم لیتی ہے، جو رفتہ رفتہ جرائم اور سماجی بگاڑ کا سبب بنتی ہے۔
لہٰذا ضروری ہے کہ حکومتِ پاکستان ہر صورت میں بے روزگاری پر قابو پائے اور عوام کو روزگار کے بہتر مواقع فراہم کرے تاکہ جرائم میں کمی آئے، امن قائم ہو اور عوام خوشحال زندگی گزار سکیں۔
غربت کے خاتمے کے لیے سب سے پہلے تعلیم کو بنیادی ترجیح دینی ہوگی۔ ہر بچے کو مفت اور معیاری تعلیم دینا حکومت کی اولین ذمہ داری ہونی چاہیے۔ تعلیم ہی وہ واحد ذریعہ ہے جو انسان کو غربت سے نکال سکتا ہے۔ اگر اسکول جانے والے بچوں کی شرح بڑھا دی جائے تو اگلی نسل خود کفیل بن سکتی ہے۔
دوسرا اہم قدم روزگار کے مواقع پیدا کرنا ہے۔ حکومت کو چھوٹے کاروباروں اور دیہی صنعتوں کو فروغ دینا ہوگا۔ زرعی اصلاحات، سستے قرضے، اور ہنر سکھانے والے پروگرام غربت کے خلاف مؤثر ہتھیار ثابت ہو سکتے ہیں۔ خواتین کو معاشی طور پر بااختیار بنانا بھی غربت کے خاتمے میں کلیدی کردار ادا کرے گا۔
صحت کے شعبے میں اصلاحات اور عوامی فلاحی اسکیموں میں شفافیت ضروری ہے۔ اگر غریب طبقہ صحت مند ہوگا تو وہ محنت بھی بہتر انداز میں کر سکے گا۔ اسی طرح غربت کے خلاف مؤثر پالیسیوں کے ساتھ قومی سطح پر شعور کی مہم بھی چلائی جانی چاہیے تاکہ عوام اپنے حقوق، تعلیم اور روزگار کے مواقع کے بارے میں آگاہ رہیں۔
ہم سب کو یہ سمجھنا چاہیے کہ غربت کا خاتمہ صرف حکومتی ذمے داری نہیں بلکہ ایک قومی فریضہ ہے۔ اگر معاشرہ اجتماعی شعور کے ساتھ آگے بڑھے، دولت کی منصفانہ تقسیم ہو، تعلیم عام ہو، اور کرپشن کا خاتمہ کیا جائے تو پاکستان نہ صرف غربت سے نکل سکتا ہے بلکہ ایک خوشحال ملک بن سکتا ہے۔